Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور البتہ تحقیقی تم جانتے ہو ان لوگوں کو جنہوں نے تم میں سے ہفتے کے دن زیادتی کی تھی۔ پس ہم نے ان کو کہا کہ ذلیل بندر بن جاؤ
یہود کا مقدس دن ہفتہ : گزشتہ آیات میں اس عہد و پیمان کا ذکر ہوا۔ جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے لیا تھا۔ کہ وہ توراۃ پر عمل پیرا ہوں گے۔ اب ان آیتوں میں خداوندی تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا وہ واقعہ یاد دلایا ہے جس میں ان نافرمانوں کو سزا دی گئی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ “ ولقد علمتم الذین اعتدوا منکم فی السبت ” یعنی اے اسرائیلیو ! تم ان لوگوں کو جانتے ہو جنہوں نے ہفتے کے دن تعدی اور زیادتی کی تھی ہفتے کے دن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے توراۃ میں حکم نازل فرمایا تھا۔ کہ اس دن کوئی شخص کوئی کام کاج نہ کرے۔ نہ تجارت کرے نہ زراعت کرے۔ نہ مزدوری کرے اور نہ کوئی دوسرا کام انجام دے ، حتیٰ کہ گھر میں کھانے پکانے کی بھی ممانعت کردی۔ اور حکم دیا کہ اس روز صرف عبادت کی جائے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہ کیا جائے اور ساتھ تنبیہ کردی کہ جو کوئی ہفتے کے روز اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ۔ کوئی کاروبار کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا جمعہ کی فضیلت : یہودیوں کے لیے ہفتہ اور نصاریٰ کے لیے اتوار کا دن مقدس ہے۔ مگر اہل اسلام کے لیے جمعہ کا دن مبارک ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا (1 ۔ بخاری ج 1 ص 120 ، مسلم ج 1 ص 282) کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی امتوں کو بہکا دیا کہ وہ جمعہ کا دن نہ پاسکیں۔ بلکہ یہ فضیلت اللہ تعالیٰ نے آخری امت کے لیے مخصوص کر رکھی تھی کیونکہ جمعہ تمام ایام سے زیادہ فضیلت والا دن ہے۔ آپ نے فرمایا “ الیھود غدا ” یعنی یہود نے جمعہ سے اگلا دن اختیار کیا۔ “ والنصری بعد غد ” اور نصاری نے اس کے بعد یعنی اتوار کا دن منتخب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کسی حد تک اختیار دے دیا تھا کہ وہ اپنے لیے بہتر دن منتخب کرلیں۔ اور انہوں نے یہ ایام پسند کیے۔ اور جمعہ کو منتخب نہ کیا۔ جو کہ مسلمانوں کے مقدر میں تھا۔ یہودیوں نے ہفتے کا دن اس لیے اختیار کیا کہ کائنات کی تخلیق ہفتہ کے روز شروع ہوئی تھی۔ اس لیے ان کے ہاں یہ سب سے متبرک دن سمجھا گیا۔ یہود کی قانون شکنی : جیسا کہ بیان ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ نے ہفتے کا دن خالص عبادت کے لئے مقرر کیا تھا اور اس روز دیگر ہر قسم کے کام کی ممانعت کردی تھی۔ مگر یہود نے اس حکم کی خلاف ورزی شروع کردی۔ اس خلاف ورزی کی تفصیل قرآن پاک میں کئی ایک مقامات پر آئی ہے۔ تاہم سورة اعراف میں ایک پورا رکوع اسی موضوع پر ہے۔ وہاں پر ہفتے کے روز تعدی کرنے والوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ کہ یہ لوگ بحیرہ قلزم کے کنارے واقع بستی میں رہتے تھے۔ توراۃ کے مطابق اسی بستی کا نام ایلہ تھا۔ جسے آج کل عقبہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ چونکہ یہ ساحلی لوگ تھے۔ ان کا پیشہ عام طور پر ماہی گیری تھا۔ تاہم انہیں ہفتہ کے علاوہ باقی چھ دنوں میں مچھلیاں پکڑنے کی عام اجازت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا امتحان لینا چاہا۔ کہ یہ لوگ کس حد تک میرے حکم کی پابندی کرتے ہیں۔ لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ ہفتہ کے روز بہت زیادہ مچھلیاں نظڑ آتی تھیں۔ جب کہ باقی دنوں میں خال خال ہی پکڑی جاتی تھیں۔ تو انہوں نے زیادہ تعداد میں مچھلیاں حاصل کرنے کے لیے یہ تدابیر اختیار کی کہ سمندر کے کنارے حوض بنائے۔ جن میں ہفتے کے روز سمندر کا پانی چھوڑ دیتے جب بہت سی مچھلیاں ان حوضوں میں جمع ہوجاتیں تو پیچھے بند لگا دیتے تاکہ یہ مچھلیاں واپس سمندر میں نہ چلی جائیں۔ چناچہ وہ لوگ ہفتہ کے روز واقعۃً مچھلیوں کو نہ پکڑتے بلکہ انہیں حوض میں جمع کرکے اگلے روز یعنی اتوار کو پکڑ لیتے ۔ گویا اس طرح وہ حیلہ سازی سے احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے جب ان سے کہا جاتا کہ بھائی ! اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے روز مچھلیاں پکڑنے سے منع کر رکھا ہے ۔ تم ایسا کیوں کرتے ہو تو وہ کہتے کہ ہم ہفتے کے روز شکار نہیں کرتے بلکہ اگلے روز کرتے ہیں لہٰذا یہ کوئی خلاف ورزی نہیں ہے۔ شاہ عبد العزیز (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 274) کہ یہ لوگ کافی عرصہ تک یہی حیلہ استعمال کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ آیا تو انہوں نے لوگوں کو سختی سے منع کیا اور بتایا کہ اس روز شکار کرنا حرام ہے۔ یہ حیلہ سازی بہت بری بات ہے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ کام تو ہم اپنے آباؤ اجداد سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس میں کوئی برائی کی بات نہیں ہے۔ کفار مکہ بھی یہی کہتے تھے کہ جس چیز کو تم شرک بتاتے ہو یہ کام تو ہم نسلا بعد نسل کرتے چلے آرہے ہیں۔ اگر یہ واقعی برائی کا کام ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور ہمیں روکنے کے لیے ہمارے ہاتھ بند کردیتا۔ چونکہ آج تک ایسا نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ کوئی برا کام نہیں۔ یہود کے تین گروہ : الغرض ! حضرت داؤد (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا۔ انہیں نیکی کی تلقین کی اور برائیوں سے منع کیا۔ انہوں نے اچھی طرح تنبیہہ کی کہ اگر تم اپنی بری خصلتوں سے باز نہیں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاؤ گے۔ آپ کی اس تبلیغ سے تقریباً بارہ ہزار لوگ نہ صرف خود اس غلط کام سے باز آگئے۔ بلکہ انہوں نے دوسروں کو بھی روکنا شروع کردیا۔ اس کے باوجود بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی۔ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے باز آنے کے لئے تیار نہ تھے۔ گویا ایک گروہ فاسقین کا تھا۔ تو ان کے مقابلے میں صالحین کا ایک گروہ بھی پیدا ہوگیا۔ ان کے علاوہ ایک تیسرا گروہ ایسا تھا۔ جو خود تو برائی کا ارتکاب نہ کرتا تھا۔ مگر دوسروں کو روکتا بھی نہ تھا۔ آگے قرآن پاک میں آتا ہے کہ یہ گروہ برائی سے منع کرنے والوں کو کہتا تھا کہ تم انہیں کیوں روکتے ہو ۔ کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو ۔ مگر صالحین کا گروہ انہیں جواب دیتا “ معذرۃ الی ربکم ولعلھم یتقون ” کہ بھائی ! اللہ تعالیٰ کے سامنے غداری کے لیے انہیں روکتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا کہ تم نے انہیں برائی سے کیوں نہ روکا تو ہمارا کیا جواب ہوگا۔ قیامت کے روز ندامت اٹھانی پڑے گی۔ اہل علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کی عطا کردہ شریعت لوگوں تک پہنچائیں۔ اور تبلیغ کا حق ادا کریں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی تبلیغ سے کوئی شخص راہ راست پر آجائے اسی واسطے بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے (1 ۔ بخاری ج 2 ص 606 ، مسلم ج 2 ص 279) کہ جب آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو جھنڈا عطا کیا اور جہاد کے لیے روانہ کیا تو فرمایا “ لان یھدی اللہ بک رجلا واحدا خیر لک من ان یکون لک حمر النعم ” اگر ایک آدمی نے بھی تمہاری وجہ سے ایمان قبول کرلیا۔ تو یہ تمہارے لیے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت سے بھی بہتر ہوگا۔ جہاد کا اصل مقصد جنگ وجدال نہیں بلکہ اس کا مقصد فتنہ و فساد کو مٹانا اور درندہ صفت لوگوں کو راستے سے ہٹانا ہے۔ انسان بندر بن گئے : وقت گزرتا گیا۔ اور یہ تینوں گروہ اپنی اپنی بات پر اڑے رہے۔ آخر کار صالحین نے سوچا کہ ہم ان نافرمانوں کے ساتھ کب تک گزارا کریں گے۔ کیوں نہ ہم ان سے الگ ہوجائیں۔ کہیں ایسانہ ہو کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے اور ہم بھی اس میں مبتلا ہوجائیں۔ چناچہ انہوں نے باقی دو گروہوں کا بئیکاٹ کردیا اور قریب ہی اپنے علیحدہ علاقے میں منتقل ہوگئے۔ ان دونوں علاقوں کے درمیان دیوار یا کوئی اور آڑ تھی جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ البتہ ایک دوسرے کی آوازیں سنتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ صالحین کے گروہ نے دوسرے گروہ کے کسی آدمی کی آواز نہ سنی اور نہ ہی ان کی کوئی حرکت وغیرہ محسوس کی۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد جب انہوں نے جھانک کر دیکھا۔ تو اللہ تعالیٰ کا حکم آچکا تھا “ فقلنا لھم کونوا قردۃ خاسئین ” پس ہم نے کہا کہ تم سب ذلیل بندر بن جاؤ۔ چناچہ صالحین نے دیکھا۔ کہ اس گروہ کے بڑے بوڑھے خنزیروں کی شکل میں اور نوجوان طبقہ بندروں کی صورت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شکلیں تبدیل ہوچکی ہیں ۔ مگر شعور باقی ہے۔ اپنے کیے پر نادم ہیں اور زارو قطار رو رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں کہ یہ ہمارے فلاں رشتہ دار ہیں۔ اور یہ فلاں رشتہ دار ہیں۔ اس مقام پر صرف بندروں کا ذکر ہے تاہم دوسرے مقام خنازیر بھی آتا ہے ۔ “ وجعل منھم القردۃ الخنازیر ” کہتے ہیں کہ یہ لوگ اس شکل و صورت میں تین دن تک زندہ رہے۔ اس کے بعد ہلاک ہوگئے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ انسان بندر اور خنزیر کیسے بن گئے۔ حالانکہ اس زمانے میں ڈارون کی تھیوری کا بھی عام چرچا ہے جو کہتا ہے کہ موجودہ انسان بندروں کی ترقی یافتہ نسل ہے پہلے سب بندر ہی تھے۔ مگر ترقی کرتے کرتے انسان بن گئے۔ اس کا دعویٰ اس دلیل پر مبنی ہے کہ بندر کی شکل انسانی شکل کے مشابہ ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان بندر یا خنزیر کی نسل نہیں ہے۔ اور نہ بندر انسان کی نسل سے ہیں۔ بلکہ یہ ہمیشہ ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ بندر اور انسان پہلے بھی علیحدہ علیحدہ نسلیں تھیں اور آج بھی ویسی ہی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ معترضین ڈارون کی تھیوری کو تسلیم کرنے میں تو کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ مگر جب قرآن پاک کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان انسانوں کو بندروں کی شکلوں میں تبدیل کردیا۔ تو انہیں یقین نہیں آتا۔ حید سازی بڑی فضیلت ہے : بخاری اور مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے (1 ۔ مسلم ج 2 ص 23 ، بخاری ج 1 ص 286) کہ حضور ﷺ نے فرمایا “ لعن اللہ الیھود والنصاری ” یہود و نصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منع کیا تھا کہ تمہارے لیے چربی کا استعمال جائز نہیں ۔ خواہ حلال جانور ہی کی ہو۔ مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم میں اس طرح حیلہ سازی کی۔ کہ چربی خود تو نہیں کھاتے تھے مگر اسے پگھلا کر فروخت کردیتے تھے ۔ اور اس کی قیمت کھا جاتے تھے۔ جب ان سے کہا جاتا کہ تمہارے لیے چربی حرام ہے تم اسے کیوں کھاتے ہو ۔ تو وہ کہتے کہ ہم چربی تو نہیں کھاتے ، بلکہ اسے فروخت کردیتے ہیں۔ اسی لیے حضرت (علیہ السلام) کا ارشاد گرامی ہے (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 107) “ لاترتکبوا ما ارتکبت الیھود ” اے ایمان والو ! اس چیز کا ارتکاب نہ کرو۔ جس کا یہود کرتے تھے۔ “ فتستحلوا محارم اللہ باذنی الحیل ” کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حیلے بہانے سے حلال کرلیتے تھے۔ کہیں تم بھی ان کی پیروی کرکے مغضوب علیہ نہ بن جاتا۔ یہود بعض برائیاں کھلے عام کرتے تھے ۔ مثلاً سود علی الاعلان کھاتے تھے اسی طرح دوسروں کا مال ناحق کھا جاتے تھے۔ مگر ان برائیوں پر اللہ تعالیٰ نے ان کی شکلیں مسخ نہیں کیں۔ ایسا کیا ہے تو ان جرائم پر جن کا ارتکاب انہوں نے حیلے بہانے سے کیا۔ معلوم ہوا کہ ناجائز حیلہ سازی بہت بری خصلت اور بہت بڑا جرم ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں خنزیروں اور بندروں کی صورت میں تبدیل کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ تم حیلہ سازی سے خدا تعالیٰ کے قانون کو نہ توڑنا ، یہ بڑا سخت جرم ہے ایسا کرنے والوں کی اگرچہ اب شکلیں تو تبدیل نہیں ہوں گی۔ مگر ان کا باطن بالکل ایسا ہی ہوگا اب کیا کچھ نہیں ہوتا۔ زکوٰۃ سے بچنے کے لیے حیلہ سازی کی جاتی ہے۔ سود اور رشوت کی تاویلیں کی جاتی ہیں۔ اور اس کے حواز کا فتویٰ لیا جاتا ہے۔ سب کچھ جلد سازی اور حرام ہے۔ جائز حیلہ سازی : اگر نیت نیک ہو اور حیلہ سازی حرام سے بچنے کے لئے کی جائے تو یہ جائز ہے۔ حضور ﷺ نے بعض امور میں خود حیلہ سازی کا طریقہ بتلایا ہے۔ مثلاً حدیث شریف میں آتا ہے (1 ۔ سنن نسائی ج 1 ص 206 ، بخاری ج 2 ص 1012) کہ حضرت بلال ؓ اور بعض دوسرے صحابہ ؓ خیبر سے بہت اعلیٰ قسم کی کھجوریں لائے۔ آپ نے دریافت فرمایا “ اکل تمر خیر ھکذا ” کیا خیبر کی سب کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ حضور ! بعض گھٹیا اور ناقص قسم کی کھجوریں بھی وہاں پائی جاتی ہیں آپ کے مزید دریافت کرنے پر صحابہ ؓ نے بتایا کہ ہم ادنیٰ قسم کی دو صاع کھجوروں کے عوض اعلیٰ قسم کی ایک صاع کھجوریں لے لیتے ہیں آپ نے فرمایا “ ذلک الربوا ” یہ تو سود ہوگیا۔ ایک ہی جنس کا لین دین تو برابری کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ نہ کہ کم و بیش۔ ایسانہ کرو۔ یہ حرام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پہلے ادنیٰ قسم کی کھجوروں کو کسی دوسری جنس مثلاً گندم ، جو کے عوض بیچ ڈالو۔ یا ان کی نقد قیمت وصول کرلو۔ اور پھر اس سے اعلیٰ درجے کی کھجوریں خریدو یہ حیلہ جائز ہے۔ اس قسم کی مثالیں قرآن پاک میں بھی ملتی ہیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کسی معمولی بات پر ناراض ہوگئے۔ تو قسم کھائی کہ تندرست ہوگیا۔ تو بیوی کو سو لاٹھیاں یا کوڑے ماروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تمہاری بیوی نیک خاتون ہے۔ اس کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو۔ بلکہ اپنی قسم پوری کرنے کے ت لیے سو چھڑیوں کا ایک گٹھا لے لو۔ اور ایک ہی دفعہ بیوی کو ضرب لگا دو یہ کافی ہے۔ گویا سو کوڑوں کی سزا سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حیلہ سازی بتلائی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی حیلہ سازی کا ذکر آتا ہے کہ آپ اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ مگر اس ملک کے قانون کے مطابق وہ انہیں نہیں روک سکتے تھے۔ ادھر اسرائیلی قانون کے مطابق جو شخص چوری کا ارتکاب کرے اسے سال بھر غلامی کرنا پڑتی تھی چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائی کو روکنے کے لیے اسرائیلی قانون کا سہارا لیا۔ اور اس کے لیے حیلہ یہ بنایا کہ اس کے سامان سے پیمانہ برآمد کرلیا اسی حیلہ سازی کو قرآن پاک نے اس طرح بیان فرمایا “ کذلک کدنا لیوسف ” ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ایسا کرنے کی تدبیر بتائی تھی۔ البتہ ناجائز حیلہ سازی بہرحال حرام ہے۔ مثلاً زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کے لیے زیور بیوی کے نام ہبہ کردیا۔ جب اس کے پاس سال پورا ہونے لگا تو بیوی نے خاوند کے نام ہبہ کردیا گویا نہ کسی کے ہاں زیور پر پورا سال گزرے اور نہ اس کی زکوٰۃ دینی پڑے۔ یہ حیلہ سازی ناجائز ہے اسی طرح کسی بھی فرض ، روزہ ، نماز ، جہاد وغیرہ سے بچنے کے لیے کوئی حیلہ سازی کرے گا تو مجرم ٹھہرے گا۔ تبدیلی اشکال کی توجیہہ : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان نافرمانوں کو جانوروں کی شکل میں اور خاص طور پر خنزیروں اور بندروں کی شکل میں کیوں تبدیل کیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک قانون مقرر کیا تھا۔ کہ ہفتے کے دن سوائے عبادت کے کوئی کاروبار نہیں کریں گے۔ مگر انہوں نے حکم خداوندی کو توڑ کر مچھلی کا شکار شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا کے طور پر خنزیر اور بندر بنا دیا۔ محققین فرماتے ہیں (1 ۔ الہام الرحمن فی تفسیر القرآن از حضرت سندھی ج 1 ص 49 مطبوعہ کبیر والا) کہ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان اور جانور میں یہی فرق ہے کہ انسان قانون کی پابندی کرتا ہے۔ اور جانور اس سے مستثنیٰ ہے۔ اب اگر انسان بھی قانون کی خلاف ورزی شروع کر دے تو ظاہر ہے کہ وہ انسانیت کے درجے سے گر کر حیوانیت کے درجے پر آگیا۔ اور ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے انسان بندر سے زیادہ مشابہ ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں بندر کی شکل میں تبدیل کردیا۔ شکل و صورت کے علاوہ بندر حس اور شعور میں بھی انسان سے مشابہ ہوتا ہے۔ یہ بڑا نقال جانور ہے۔ جس طرح انسان کو کرتے ہوئے دیکھ لے اسی طرح کرنے لگتا ہے۔ تو گویا اللہ تعالیٰ نے ان نافرمانوں کو جانوروں کی اس قسم میں تبدیل کیا جو ان سے زیادہ مشابہ ہیں مفسرین فرماتے ہیں (1 ۔ الہام الرحمن فی تفسیر القرآن ج 1 ص 49) کہ جب اکیلا آدمی کسی ضابطے کی پابندی کرتا ہے۔ تو اسے اخلاق کا نام دیا جاتا ہے۔ اور جب کوئی دو افراد آپس میں کوئی معاملہ طے کرتے ہیں تو اسے قانون کہا جاتا ہے۔ قانون کی ادنیٰ ترین صورت میاں بیوی کے درمیان نکاح کا ضابطہ ہے۔ جس کی پابندی دونوں فریقوں پر لازم ہے۔ اگر کوئی فریق اس قانون کو توڑے گا۔ تو وہ انسانیت کے درجے سے گر کر حیوانیت کے زمرے میں شامل ہوجائے گا۔ اس کی مزید وضاحت یوں سمجھیں کہ عقد نکاح کے قانون کے مطابق کوئی عورت ایک ہی مرد کے ساتھ مختص ہوتی ہے۔ یہ ایک معاہدہ یا (Agreement) ہوتا ہے۔ جس کی پابندی ضروری ہے۔ اگر اسی ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عورت ایک مخصوص مرد کی بجائے کسی دوسرے مرد کی خلوت میں بھی چلی جائے تو ظاہر ہے کہ وہ جانور کی سطح پر آجائے گی جس پر کسی ایسے قانون کی پابندی لازم نہیں اسی طرح مرد اگر اپنی منکوحہ عورت کی عالوہ کسی دوسرے عورت کی طرف نظر بد سے دیکھتا ہے تو وہ قانون کی خلاف ورزی کرکے انسانیت کے درجے سے گر جائے گا۔ اب نکا ح کی بھی شرائط ہیں۔ نکاح ایسے مرد اور عورت کے درمیان ہو سکتا ہے جو آپس میں محرمات میں سے نہ ہوں اگر محرم ہوں گے تو نکاح جائز نہیں ہوگا۔ اگر ایسا کریں گے تو قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں ۔ کہ ان تمام شرائط کے ساتھ جو کام ہوگا وہ درست ہوگا۔ ورنہ قانون شکنی کی زد میں آجائے گا۔ اسی طرح مباشرت کے لیے بھی بعض شرائط ہیں کہ کوئی شخص اپنی عورت کے ساتھ ایسا کرسکتا ہے کسی دوسرے مرد کے ساتھ جائز نہیں۔ جب مرد اور عورت آپس میں ملیں گے۔ وہ بھی فطری طریقے سے غیر فطری راستے سے انتفاع بھی خلاف قانون ہے ۔ جو کسی طرح جائز نہیں۔ قانون شکنی پر خنزیر اور بندر کی سزا اللہ تعالیٰ نے اس واسطے دی ہے۔ کہ یہ دونوں جانور اخلاقی طور پر دوسرے جانوروں کی نسبت زیادہ گرے ہوئے ہیں خنزیر ایک ایسا جانور ہے کہ اس کی مادہ کے ساتھ کئی کئی نر بیک وقت جفتی کرتے ہیں۔ یہ اس قسم کا بےغیر جانور ہے۔ اور بندر کی ایک بہت بری خصلت یہ ہے کہ یہ اپنے ہی ہم جنس بندر کے ساتھ بھی قضائے شہوت کرلیتا ہے خنزیر قانون کی ایک شق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو بندر دوسری شق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سور کا گوشت کھانے والے لوگ بےغیرت ہوتے ہیں۔ انگریز اور سکھ جو خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں۔ ان میں بےغیرتی کا مادہ کثرت سے پایا جاتا ہے۔ الغرض جب یہود نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑ ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی شکلیں ان جانوروں میں تبدیل کردیں جو خود قانون شکن ہے۔ نماز کا ایک اہم قانون ہے کہ مقتدی امام سے آگے نہ نکلے۔ رکوع ، سجود ، قومہ ، قعدہ ، ہر مقام پر امام کی اقتداء میں رہے۔ اور اگر کوئی نمازی امام سے آگے نکلنے کی کوشش کرے گا تو اس کی مثال گدھے کے ساتھ دی گئی ہے۔ جو کہ بڑا بیوقوف جانور ہے۔ گویا جو شخص نماز کے قانون کو توڑتا ہے وہ گدھے کی مانند ہے ۔ یہ تو اس کی باطنی صورت ہے۔ فرمایا (1 ۔ بخاری ج 1 ص 96 ، مسلم ج 1 ص 181) امام سے آگے نہ نکلوں ایسا نہ ہو “ یجعل اللہ صورتہ صورۃ حمار ” کہ اللہ تعالیٰ اس کی شکل گدھے کی نہ بنا دے یعنی کہیں ظاہری طور پر بھی قانون شکن گدھا ہی نہ بن جائے قانون شکنی پر سخت وعید آئی ہے۔ نشان عبرت : فرمایا اے بنی اسرائیل ! تم جانتے ہو ان لوگوں کو جنہوں نے ہفتے کے د ن تعدی کی اور حکم بجانہ لائے۔ بلکہ حیلہ سازی سے اس کی حرمت کو توڑا۔ تو ہم نے انہیں کہا۔ کہ ذلیل و خوار بندر بن جاؤ۔ پھر جب وہ بندروں کی شکلوں میں تبدیل ہوگئے تو باقی دنیا کے لیے نشان عبرت بن گئے۔ “ فجعلنھا نکالا لما بین یدیھا وما خلفھا ” ہم نے نہیں موجودہ اور آئندہ آنے والے لوگوں کیلئے عبرت کا نشان بنا دیا۔ لوگوں کی زبانوں پر اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہوگیا۔ کہ فلاں قوم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خنزیر اور بندر بنا دیا۔ یہ اس لیے کہ اس واقعہ کو یاد کرکے آئندہ نسلیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچیں۔ فرمایا تبدل اشکال محض عبرت کے لیے ہی نہیں بلکہ اسے “ وموعظۃ للمتقین ” بھی بنا دیا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے اس واقعہ میں نصیحت ہے۔ کہ اگر آئندہ بھی کسی نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑا۔ تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے لیے اس واقعہ کو نصیحت بنا دیا۔
Top