Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ
: اور البتہ تم نے جان لیا
الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا
: جنہوں نے زیادتی کی
مِنْكُمْ
: تم سے
فِي السَّبْتِ
: ہفتہ کے دن میں
فَقُلْنَا
: تب ہم نے کہا
لَهُمْ
: ان سے
كُوْنُوْا
: تم ہوجاؤ
قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ
: ذلیل بندر
اور البتہ تحقیقی تم جانتے ہو ان لوگوں کو جنہوں نے تم میں سے ہفتے کے دن زیادتی کی تھی۔ پس ہم نے ان کو کہا کہ ذلیل بندر بن جاؤ
یہود کا مقدس دن ہفتہ : گزشتہ آیات میں اس عہد و پیمان کا ذکر ہوا۔ جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے لیا تھا۔ کہ وہ توراۃ پر عمل پیرا ہوں گے۔ اب ان آیتوں میں خداوندی تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا وہ واقعہ یاد دلایا ہے جس میں ان نافرمانوں کو سزا دی گئی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ “ ولقد علمتم الذین اعتدوا منکم فی السبت ” یعنی اے اسرائیلیو ! تم ان لوگوں کو جانتے ہو جنہوں نے ہفتے کے دن تعدی اور زیادتی کی تھی ہفتے کے دن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے توراۃ میں حکم نازل فرمایا تھا۔ کہ اس دن کوئی شخص کوئی کام کاج نہ کرے۔ نہ تجارت کرے نہ زراعت کرے۔ نہ مزدوری کرے اور نہ کوئی دوسرا کام انجام دے ، حتیٰ کہ گھر میں کھانے پکانے کی بھی ممانعت کردی۔ اور حکم دیا کہ اس روز صرف عبادت کی جائے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہ کیا جائے اور ساتھ تنبیہ کردی کہ جو کوئی ہفتے کے روز اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ۔ کوئی کاروبار کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا جمعہ کی فضیلت : یہودیوں کے لیے ہفتہ اور نصاریٰ کے لیے اتوار کا دن مقدس ہے۔ مگر اہل اسلام کے لیے جمعہ کا دن مبارک ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا (1 ۔ بخاری ج 1 ص 120 ، مسلم ج 1 ص 282) کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی امتوں کو بہکا دیا کہ وہ جمعہ کا دن نہ پاسکیں۔ بلکہ یہ فضیلت اللہ تعالیٰ نے آخری امت کے لیے مخصوص کر رکھی تھی کیونکہ جمعہ تمام ایام سے زیادہ فضیلت والا دن ہے۔ آپ نے فرمایا “ الیھود غدا ” یعنی یہود نے جمعہ سے اگلا دن اختیار کیا۔ “ والنصری بعد غد ” اور نصاری نے اس کے بعد یعنی اتوار کا دن منتخب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کسی حد تک اختیار دے دیا تھا کہ وہ اپنے لیے بہتر دن منتخب کرلیں۔ اور انہوں نے یہ ایام پسند کیے۔ اور جمعہ کو منتخب نہ کیا۔ جو کہ مسلمانوں کے مقدر میں تھا۔ یہودیوں نے ہفتے کا دن اس لیے اختیار کیا کہ کائنات کی تخلیق ہفتہ کے روز شروع ہوئی تھی۔ اس لیے ان کے ہاں یہ سب سے متبرک دن سمجھا گیا۔ یہود کی قانون شکنی : جیسا کہ بیان ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ نے ہفتے کا دن خالص عبادت کے لئے مقرر کیا تھا اور اس روز دیگر ہر قسم کے کام کی ممانعت کردی تھی۔ مگر یہود نے اس حکم کی خلاف ورزی شروع کردی۔ اس خلاف ورزی کی تفصیل قرآن پاک میں کئی ایک مقامات پر آئی ہے۔ تاہم سورة اعراف میں ایک پورا رکوع اسی موضوع پر ہے۔ وہاں پر ہفتے کے روز تعدی کرنے والوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ کہ یہ لوگ بحیرہ قلزم کے کنارے واقع بستی میں رہتے تھے۔ توراۃ کے مطابق اسی بستی کا نام ایلہ تھا۔ جسے آج کل عقبہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ چونکہ یہ ساحلی لوگ تھے۔ ان کا پیشہ عام طور پر ماہی گیری تھا۔ تاہم انہیں ہفتہ کے علاوہ باقی چھ دنوں میں مچھلیاں پکڑنے کی عام اجازت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا امتحان لینا چاہا۔ کہ یہ لوگ کس حد تک میرے حکم کی پابندی کرتے ہیں۔ لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ ہفتہ کے روز بہت زیادہ مچھلیاں نظڑ آتی تھیں۔ جب کہ باقی دنوں میں خال خال ہی پکڑی جاتی تھیں۔ تو انہوں نے زیادہ تعداد میں مچھلیاں حاصل کرنے کے لیے یہ تدابیر اختیار کی کہ سمندر کے کنارے حوض بنائے۔ جن میں ہفتے کے روز سمندر کا پانی چھوڑ دیتے جب بہت سی مچھلیاں ان حوضوں میں جمع ہوجاتیں تو پیچھے بند لگا دیتے تاکہ یہ مچھلیاں واپس سمندر میں نہ چلی جائیں۔ چناچہ وہ لوگ ہفتہ کے روز واقعۃً مچھلیوں کو نہ پکڑتے بلکہ انہیں حوض میں جمع کرکے اگلے روز یعنی اتوار کو پکڑ لیتے ۔ گویا اس طرح وہ حیلہ سازی سے احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے جب ان سے کہا جاتا کہ بھائی ! اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے روز مچھلیاں پکڑنے سے منع کر رکھا ہے ۔ تم ایسا کیوں کرتے ہو تو وہ کہتے کہ ہم ہفتے کے روز شکار نہیں کرتے بلکہ اگلے روز کرتے ہیں لہٰذا یہ کوئی خلاف ورزی نہیں ہے۔ شاہ عبد العزیز (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 274) کہ یہ لوگ کافی عرصہ تک یہی حیلہ استعمال کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ آیا تو انہوں نے لوگوں کو سختی سے منع کیا اور بتایا کہ اس روز شکار کرنا حرام ہے۔ یہ حیلہ سازی بہت بری بات ہے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ کام تو ہم اپنے آباؤ اجداد سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس میں کوئی برائی کی بات نہیں ہے۔ کفار مکہ بھی یہی کہتے تھے کہ جس چیز کو تم شرک بتاتے ہو یہ کام تو ہم نسلا بعد نسل کرتے چلے آرہے ہیں۔ اگر یہ واقعی برائی کا کام ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور ہمیں روکنے کے لیے ہمارے ہاتھ بند کردیتا۔ چونکہ آج تک ایسا نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ کوئی برا کام نہیں۔ یہود کے تین گروہ : الغرض ! حضرت داؤد (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا۔ انہیں نیکی کی تلقین کی اور برائیوں سے منع کیا۔ انہوں نے اچھی طرح تنبیہہ کی کہ اگر تم اپنی بری خصلتوں سے باز نہیں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاؤ گے۔ آپ کی اس تبلیغ سے تقریباً بارہ ہزار لوگ نہ صرف خود اس غلط کام سے باز آگئے۔ بلکہ انہوں نے دوسروں کو بھی روکنا شروع کردیا۔ اس کے باوجود بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی۔ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے باز آنے کے لئے تیار نہ تھے۔ گویا ایک گروہ فاسقین کا تھا۔ تو ان کے مقابلے میں صالحین کا ایک گروہ بھی پیدا ہوگیا۔ ان کے علاوہ ایک تیسرا گروہ ایسا تھا۔ جو خود تو برائی کا ارتکاب نہ کرتا تھا۔ مگر دوسروں کو روکتا بھی نہ تھا۔ آگے قرآن پاک میں آتا ہے کہ یہ گروہ برائی سے منع کرنے والوں کو کہتا تھا کہ تم انہیں کیوں روکتے ہو ۔ کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو ۔ مگر صالحین کا گروہ انہیں جواب دیتا “ معذرۃ الی ربکم ولعلھم یتقون ” کہ بھائی ! اللہ تعالیٰ کے سامنے غداری کے لیے انہیں روکتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا کہ تم نے انہیں برائی سے کیوں نہ روکا تو ہمارا کیا جواب ہوگا۔ قیامت کے روز ندامت اٹھانی پڑے گی۔ اہل علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کی عطا کردہ شریعت لوگوں تک پہنچائیں۔ اور تبلیغ کا حق ادا کریں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی تبلیغ سے کوئی شخص راہ راست پر آجائے اسی واسطے بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے (1 ۔ بخاری ج 2 ص 606 ، مسلم ج 2 ص 279) کہ جب آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو جھنڈا عطا کیا اور جہاد کے لیے روانہ کیا تو فرمایا “ لان یھدی اللہ بک رجلا واحدا خیر لک من ان یکون لک حمر النعم ” اگر ایک آدمی نے بھی تمہاری وجہ سے ایمان قبول کرلیا۔ تو یہ تمہارے لیے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت سے بھی بہتر ہوگا۔ جہاد کا اصل مقصد جنگ وجدال نہیں بلکہ اس کا مقصد فتنہ و فساد کو مٹانا اور درندہ صفت لوگوں کو راستے سے ہٹانا ہے۔ انسان بندر بن گئے : وقت گزرتا گیا۔ اور یہ تینوں گروہ اپنی اپنی بات پر اڑے رہے۔ آخر کار صالحین نے سوچا کہ ہم ان نافرمانوں کے ساتھ کب تک گزارا کریں گے۔ کیوں نہ ہم ان سے الگ ہوجائیں۔ کہیں ایسانہ ہو کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے اور ہم بھی اس میں مبتلا ہوجائیں۔ چناچہ انہوں نے باقی دو گروہوں کا بئیکاٹ کردیا اور قریب ہی اپنے علیحدہ علاقے میں منتقل ہوگئے۔ ان دونوں علاقوں کے درمیان دیوار یا کوئی اور آڑ تھی جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ البتہ ایک دوسرے کی آوازیں سنتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ صالحین کے گروہ نے دوسرے گروہ کے کسی آدمی کی آواز نہ سنی اور نہ ہی ان کی کوئی حرکت وغیرہ محسوس کی۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد جب انہوں نے جھانک کر دیکھا۔ تو اللہ تعالیٰ کا حکم آچکا تھا “ فقلنا لھم کونوا قردۃ خاسئین ” پس ہم نے کہا کہ تم سب ذلیل بندر بن جاؤ۔ چناچہ صالحین نے دیکھا۔ کہ اس گروہ کے بڑے بوڑھے خنزیروں کی شکل میں اور نوجوان طبقہ بندروں کی صورت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شکلیں تبدیل ہوچکی ہیں ۔ مگر شعور باقی ہے۔ اپنے کیے پر نادم ہیں اور زارو قطار رو رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں کہ یہ ہمارے فلاں رشتہ دار ہیں۔ اور یہ فلاں رشتہ دار ہیں۔ اس مقام پر صرف بندروں کا ذکر ہے تاہم دوسرے مقام خنازیر بھی آتا ہے ۔ “ وجعل منھم القردۃ الخنازیر ” کہتے ہیں کہ یہ لوگ اس شکل و صورت میں تین دن تک زندہ رہے۔ اس کے بعد ہلاک ہوگئے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ انسان بندر اور خنزیر کیسے بن گئے۔ حالانکہ اس زمانے میں ڈارون کی تھیوری کا بھی عام چرچا ہے جو کہتا ہے کہ موجودہ انسان بندروں کی ترقی یافتہ نسل ہے پہلے سب بندر ہی تھے۔ مگر ترقی کرتے کرتے انسان بن گئے۔ اس کا دعویٰ اس دلیل پر مبنی ہے کہ بندر کی شکل انسانی شکل کے مشابہ ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان بندر یا خنزیر کی نسل نہیں ہے۔ اور نہ بندر انسان کی نسل سے ہیں۔ بلکہ یہ ہمیشہ ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ بندر اور انسان پہلے بھی علیحدہ علیحدہ نسلیں تھیں اور آج بھی ویسی ہی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ معترضین ڈارون کی تھیوری کو تسلیم کرنے میں تو کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ مگر جب قرآن پاک کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان انسانوں کو بندروں کی شکلوں میں تبدیل کردیا۔ تو انہیں یقین نہیں آتا۔ حید سازی بڑی فضیلت ہے : بخاری اور مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے (1 ۔ مسلم ج 2 ص 23 ، بخاری ج 1 ص 286) کہ حضور ﷺ نے فرمایا “ لعن اللہ الیھود والنصاری ” یہود و نصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منع کیا تھا کہ تمہارے لیے چربی کا استعمال جائز نہیں ۔ خواہ حلال جانور ہی کی ہو۔ مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم میں اس طرح حیلہ سازی کی۔ کہ چربی خود تو نہیں کھاتے تھے مگر اسے پگھلا کر فروخت کردیتے تھے ۔ اور اس کی قیمت کھا جاتے تھے۔ جب ان سے کہا جاتا کہ تمہارے لیے چربی حرام ہے تم اسے کیوں کھاتے ہو ۔ تو وہ کہتے کہ ہم چربی تو نہیں کھاتے ، بلکہ اسے فروخت کردیتے ہیں۔ اسی لیے حضرت (علیہ السلام) کا ارشاد گرامی ہے (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 107) “ لاترتکبوا ما ارتکبت الیھود ” اے ایمان والو ! اس چیز کا ارتکاب نہ کرو۔ جس کا یہود کرتے تھے۔ “ فتستحلوا محارم اللہ باذنی الحیل ” کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حیلے بہانے سے حلال کرلیتے تھے۔ کہیں تم بھی ان کی پیروی کرکے مغضوب علیہ نہ بن جاتا۔ یہود بعض برائیاں کھلے عام کرتے تھے ۔ مثلاً سود علی الاعلان کھاتے تھے اسی طرح دوسروں کا مال ناحق کھا جاتے تھے۔ مگر ان برائیوں پر اللہ تعالیٰ نے ان کی شکلیں مسخ نہیں کیں۔ ایسا کیا ہے تو ان جرائم پر جن کا ارتکاب انہوں نے حیلے بہانے سے کیا۔ معلوم ہوا کہ ناجائز حیلہ سازی بہت بری خصلت اور بہت بڑا جرم ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں خنزیروں اور بندروں کی صورت میں تبدیل کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ تم حیلہ سازی سے خدا تعالیٰ کے قانون کو نہ توڑنا ، یہ بڑا سخت جرم ہے ایسا کرنے والوں کی اگرچہ اب شکلیں تو تبدیل نہیں ہوں گی۔ مگر ان کا باطن بالکل ایسا ہی ہوگا اب کیا کچھ نہیں ہوتا۔ زکوٰۃ سے بچنے کے لیے حیلہ سازی کی جاتی ہے۔ سود اور رشوت کی تاویلیں کی جاتی ہیں۔ اور اس کے حواز کا فتویٰ لیا جاتا ہے۔ سب کچھ جلد سازی اور حرام ہے۔ جائز حیلہ سازی : اگر نیت نیک ہو اور حیلہ سازی حرام سے بچنے کے لئے کی جائے تو یہ جائز ہے۔ حضور ﷺ نے بعض امور میں خود حیلہ سازی کا طریقہ بتلایا ہے۔ مثلاً حدیث شریف میں آتا ہے (1 ۔ سنن نسائی ج 1 ص 206 ، بخاری ج 2 ص 1012) کہ حضرت بلال ؓ اور بعض دوسرے صحابہ ؓ خیبر سے بہت اعلیٰ قسم کی کھجوریں لائے۔ آپ نے دریافت فرمایا “ اکل تمر خیر ھکذا ” کیا خیبر کی سب کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ حضور ! بعض گھٹیا اور ناقص قسم کی کھجوریں بھی وہاں پائی جاتی ہیں آپ کے مزید دریافت کرنے پر صحابہ ؓ نے بتایا کہ ہم ادنیٰ قسم کی دو صاع کھجوروں کے عوض اعلیٰ قسم کی ایک صاع کھجوریں لے لیتے ہیں آپ نے فرمایا “ ذلک الربوا ” یہ تو سود ہوگیا۔ ایک ہی جنس کا لین دین تو برابری کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ نہ کہ کم و بیش۔ ایسانہ کرو۔ یہ حرام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پہلے ادنیٰ قسم کی کھجوروں کو کسی دوسری جنس مثلاً گندم ، جو کے عوض بیچ ڈالو۔ یا ان کی نقد قیمت وصول کرلو۔ اور پھر اس سے اعلیٰ درجے کی کھجوریں خریدو یہ حیلہ جائز ہے۔ اس قسم کی مثالیں قرآن پاک میں بھی ملتی ہیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کسی معمولی بات پر ناراض ہوگئے۔ تو قسم کھائی کہ تندرست ہوگیا۔ تو بیوی کو سو لاٹھیاں یا کوڑے ماروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تمہاری بیوی نیک خاتون ہے۔ اس کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو۔ بلکہ اپنی قسم پوری کرنے کے ت لیے سو چھڑیوں کا ایک گٹھا لے لو۔ اور ایک ہی دفعہ بیوی کو ضرب لگا دو یہ کافی ہے۔ گویا سو کوڑوں کی سزا سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حیلہ سازی بتلائی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی حیلہ سازی کا ذکر آتا ہے کہ آپ اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ مگر اس ملک کے قانون کے مطابق وہ انہیں نہیں روک سکتے تھے۔ ادھر اسرائیلی قانون کے مطابق جو شخص چوری کا ارتکاب کرے اسے سال بھر غلامی کرنا پڑتی تھی چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائی کو روکنے کے لیے اسرائیلی قانون کا سہارا لیا۔ اور اس کے لیے حیلہ یہ بنایا کہ اس کے سامان سے پیمانہ برآمد کرلیا اسی حیلہ سازی کو قرآن پاک نے اس طرح بیان فرمایا “ کذلک کدنا لیوسف ” ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ایسا کرنے کی تدبیر بتائی تھی۔ البتہ ناجائز حیلہ سازی بہرحال حرام ہے۔ مثلاً زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کے لیے زیور بیوی کے نام ہبہ کردیا۔ جب اس کے پاس سال پورا ہونے لگا تو بیوی نے خاوند کے نام ہبہ کردیا گویا نہ کسی کے ہاں زیور پر پورا سال گزرے اور نہ اس کی زکوٰۃ دینی پڑے۔ یہ حیلہ سازی ناجائز ہے اسی طرح کسی بھی فرض ، روزہ ، نماز ، جہاد وغیرہ سے بچنے کے لیے کوئی حیلہ سازی کرے گا تو مجرم ٹھہرے گا۔ تبدیلی اشکال کی توجیہہ : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان نافرمانوں کو جانوروں کی شکل میں اور خاص طور پر خنزیروں اور بندروں کی شکل میں کیوں تبدیل کیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک قانون مقرر کیا تھا۔ کہ ہفتے کے دن سوائے عبادت کے کوئی کاروبار نہیں کریں گے۔ مگر انہوں نے حکم خداوندی کو توڑ کر مچھلی کا شکار شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا کے طور پر خنزیر اور بندر بنا دیا۔ محققین فرماتے ہیں (1 ۔ الہام الرحمن فی تفسیر القرآن از حضرت سندھی ج 1 ص 49 مطبوعہ کبیر والا) کہ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان اور جانور میں یہی فرق ہے کہ انسان قانون کی پابندی کرتا ہے۔ اور جانور اس سے مستثنیٰ ہے۔ اب اگر انسان بھی قانون کی خلاف ورزی شروع کر دے تو ظاہر ہے کہ وہ انسانیت کے درجے سے گر کر حیوانیت کے درجے پر آگیا۔ اور ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے انسان بندر سے زیادہ مشابہ ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں بندر کی شکل میں تبدیل کردیا۔ شکل و صورت کے علاوہ بندر حس اور شعور میں بھی انسان سے مشابہ ہوتا ہے۔ یہ بڑا نقال جانور ہے۔ جس طرح انسان کو کرتے ہوئے دیکھ لے اسی طرح کرنے لگتا ہے۔ تو گویا اللہ تعالیٰ نے ان نافرمانوں کو جانوروں کی اس قسم میں تبدیل کیا جو ان سے زیادہ مشابہ ہیں مفسرین فرماتے ہیں (1 ۔ الہام الرحمن فی تفسیر القرآن ج 1 ص 49) کہ جب اکیلا آدمی کسی ضابطے کی پابندی کرتا ہے۔ تو اسے اخلاق کا نام دیا جاتا ہے۔ اور جب کوئی دو افراد آپس میں کوئی معاملہ طے کرتے ہیں تو اسے قانون کہا جاتا ہے۔ قانون کی ادنیٰ ترین صورت میاں بیوی کے درمیان نکاح کا ضابطہ ہے۔ جس کی پابندی دونوں فریقوں پر لازم ہے۔ اگر کوئی فریق اس قانون کو توڑے گا۔ تو وہ انسانیت کے درجے سے گر کر حیوانیت کے زمرے میں شامل ہوجائے گا۔ اس کی مزید وضاحت یوں سمجھیں کہ عقد نکاح کے قانون کے مطابق کوئی عورت ایک ہی مرد کے ساتھ مختص ہوتی ہے۔ یہ ایک معاہدہ یا (Agreement) ہوتا ہے۔ جس کی پابندی ضروری ہے۔ اگر اسی ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عورت ایک مخصوص مرد کی بجائے کسی دوسرے مرد کی خلوت میں بھی چلی جائے تو ظاہر ہے کہ وہ جانور کی سطح پر آجائے گی جس پر کسی ایسے قانون کی پابندی لازم نہیں اسی طرح مرد اگر اپنی منکوحہ عورت کی عالوہ کسی دوسرے عورت کی طرف نظر بد سے دیکھتا ہے تو وہ قانون کی خلاف ورزی کرکے انسانیت کے درجے سے گر جائے گا۔ اب نکا ح کی بھی شرائط ہیں۔ نکاح ایسے مرد اور عورت کے درمیان ہو سکتا ہے جو آپس میں محرمات میں سے نہ ہوں اگر محرم ہوں گے تو نکاح جائز نہیں ہوگا۔ اگر ایسا کریں گے تو قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں ۔ کہ ان تمام شرائط کے ساتھ جو کام ہوگا وہ درست ہوگا۔ ورنہ قانون شکنی کی زد میں آجائے گا۔ اسی طرح مباشرت کے لیے بھی بعض شرائط ہیں کہ کوئی شخص اپنی عورت کے ساتھ ایسا کرسکتا ہے کسی دوسرے مرد کے ساتھ جائز نہیں۔ جب مرد اور عورت آپس میں ملیں گے۔ وہ بھی فطری طریقے سے غیر فطری راستے سے انتفاع بھی خلاف قانون ہے ۔ جو کسی طرح جائز نہیں۔ قانون شکنی پر خنزیر اور بندر کی سزا اللہ تعالیٰ نے اس واسطے دی ہے۔ کہ یہ دونوں جانور اخلاقی طور پر دوسرے جانوروں کی نسبت زیادہ گرے ہوئے ہیں خنزیر ایک ایسا جانور ہے کہ اس کی مادہ کے ساتھ کئی کئی نر بیک وقت جفتی کرتے ہیں۔ یہ اس قسم کا بےغیر جانور ہے۔ اور بندر کی ایک بہت بری خصلت یہ ہے کہ یہ اپنے ہی ہم جنس بندر کے ساتھ بھی قضائے شہوت کرلیتا ہے خنزیر قانون کی ایک شق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو بندر دوسری شق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سور کا گوشت کھانے والے لوگ بےغیرت ہوتے ہیں۔ انگریز اور سکھ جو خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں۔ ان میں بےغیرتی کا مادہ کثرت سے پایا جاتا ہے۔ الغرض جب یہود نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑ ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی شکلیں ان جانوروں میں تبدیل کردیں جو خود قانون شکن ہے۔ نماز کا ایک اہم قانون ہے کہ مقتدی امام سے آگے نہ نکلے۔ رکوع ، سجود ، قومہ ، قعدہ ، ہر مقام پر امام کی اقتداء میں رہے۔ اور اگر کوئی نمازی امام سے آگے نکلنے کی کوشش کرے گا تو اس کی مثال گدھے کے ساتھ دی گئی ہے۔ جو کہ بڑا بیوقوف جانور ہے۔ گویا جو شخص نماز کے قانون کو توڑتا ہے وہ گدھے کی مانند ہے ۔ یہ تو اس کی باطنی صورت ہے۔ فرمایا (1 ۔ بخاری ج 1 ص 96 ، مسلم ج 1 ص 181) امام سے آگے نہ نکلوں ایسا نہ ہو “ یجعل اللہ صورتہ صورۃ حمار ” کہ اللہ تعالیٰ اس کی شکل گدھے کی نہ بنا دے یعنی کہیں ظاہری طور پر بھی قانون شکن گدھا ہی نہ بن جائے قانون شکنی پر سخت وعید آئی ہے۔ نشان عبرت : فرمایا اے بنی اسرائیل ! تم جانتے ہو ان لوگوں کو جنہوں نے ہفتے کے د ن تعدی کی اور حکم بجانہ لائے۔ بلکہ حیلہ سازی سے اس کی حرمت کو توڑا۔ تو ہم نے انہیں کہا۔ کہ ذلیل و خوار بندر بن جاؤ۔ پھر جب وہ بندروں کی شکلوں میں تبدیل ہوگئے تو باقی دنیا کے لیے نشان عبرت بن گئے۔ “ فجعلنھا نکالا لما بین یدیھا وما خلفھا ” ہم نے نہیں موجودہ اور آئندہ آنے والے لوگوں کیلئے عبرت کا نشان بنا دیا۔ لوگوں کی زبانوں پر اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہوگیا۔ کہ فلاں قوم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خنزیر اور بندر بنا دیا۔ یہ اس لیے کہ اس واقعہ کو یاد کرکے آئندہ نسلیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچیں۔ فرمایا تبدل اشکال محض عبرت کے لیے ہی نہیں بلکہ اسے “ وموعظۃ للمتقین ” بھی بنا دیا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے اس واقعہ میں نصیحت ہے۔ کہ اگر آئندہ بھی کسی نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑا۔ تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے لیے اس واقعہ کو نصیحت بنا دیا۔
Top