Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 12
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَۚ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : وہ جو کہ يُرِيْكُمُ : تمہیں دکھاتا ہے الْبَرْقَ : بجلی خَوْفًا : ڈرانے کو وَّطَمَعًا : اور امید دلانے کو وَّيُنْشِئُ : اور اٹھاتا ہے السَّحَابَ : بادل الثِّقَالَ : بوجھل
اور وہی تو ہے جو تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے۔
آیت نمبر 12 تا 13 قولہ تعالیٰ : ھو الذی یریکم البرق خوفا وطمعا وینشی السحاب الثقال یعنی بارش کے ذریعے۔ السحاب جمع ہے اور واحد سحابۃ ہے، سحب اور سحاب بھی جمع آتی ہے۔ ویسبح الرعد بحمدہ والملئکۃ من خیفتہ، ویرسل الصواعق رعد، برق اور صواعق کے بارے میں سورة البقرہ میں گفتگو گزر چکی ہے اس لیے اعادہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور آیت سے مقصود اپنی قدرت کے کمال کو بیان کرنا ہے۔ اور سزا میں تاخیر عاجزی کی وجہ سے نہیں، یعنی مسافر کو ڈرانے کے لیے آسمان میں تمہیں بجلی دکھاتا ہے، تو وہ بارش، دھول اور کڑکتی بجلی سے پہنچنے والے نقصان کی اذیت سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اذی من مطر (النساء :102) اور مقیم کو اس بات کی امید لانے کے لیے کہ اس کڑک کے بعد بارش اور شادابی ہوگی ؛ یہ معنی حضرت قتادہ، مجاہد اور دیگر لوگوں نے بیان کیا ہے۔ حضرت حسن نے کہا : بجلی کی کڑک سے ڈراتے ہوئے اور اس کی بارش جو قحط کو ذائل کرنے والی ہوگی اس سے امید دلاتے ہوئے۔ وینشئ السحاب الثقال مجاہد نے کہا : پانی کے ذریعے ویسبح الرعد بحمدہ جس نے کہا کہ کڑک بادل کی آواز ہے تو اس صورت میں ممکن ہے کہ کڑک پاکی بیان کرتا ہو، اس قول کی صحت پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ والملئکۃ من خیفتہ یہی اگر رعد فرشتہ ہوتا تو پھر تو سب فرشتوں کے تحت داخل تھا۔ جس کا نقطہ نظر یہ ہے رعد فرشتہ ہے تو اس کے نزدیک من خیفتہ کا معنی من خیفۃ اللہ ہوگا۔ یہ طبری وغیرہ کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : فرشتے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں مگر وہ ابن آدم کی طرح نہیں ڈرتے بلکہ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں پہچانتا کہ اس کے دائیں کون ہے اور بائیں کون ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے نہ انہیں کھانا روکتا ہے اور نہ پینا۔ آپ نے ہی فرمایا : رعد فرشتہ ہے جو بادلوں کو ہانکتا ہے اور پانی کے بخارات اس کو انگوٹھے کے پورے میں ہوتے ہیں وہ بادلوں کا موکل ہے ان میں اسی طرح تصرف کرتا ہے جس طرح اسے حکم ہوتا ہے اور وہ اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ جب رعد تسبیح کرتا ہے تو آسمان کا ہر فرشتہ تسبیح کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتا ہے، تو اس وقت بارش برستی ہے۔ آپ ہی سے مروی ہے کہ جب آپ رعد کی آواز سنتے تو کہتے : سبحان الذی سبحت لہ پاک ہے وہ ذات جس کی تو نے پاکی بیان کی ہے۔ امام مالک نے حضرت عامر بن عبد اللہ عن ابیہ روایت کیا ہے کہ جب وہ رعد کی آواز سنتے تو کہتے : پاک ہے وہ ذات کہ رعد جس کی پاکی بیان کرتا ہے اس کی حمد کے ساتھ اور فرشتے بھی اس کے خوف سے (اس کی تسبیح کرتے ہیں) ۔ پھر کہتے کہ یہ اہل زمین کے لیے سخت وعید ہے۔ ایک قول یہ ہے : یہ ایک فرشتہ ہے جو آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے، اس کے دائیں جانب ایک ہزار فرشتہ ہے اور بائیں جانب بھی اتنے ہی فرشتے ہیں، جب دائیں جانب والوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور تسبیح کرتا ہے تو سارے اللہ کے خوف سے تسبیح کرتے ہیں اور جب بائیں جانب متوجہ ہو کر تسبیح کرتا ہے تو وہ سارے اللہ کے خوف سے تسبیح کرتے ہیں۔ ویرسل الصواعق فیصیب بھا من یشاء ماوردی نے حضرت ابن عباس، حضرت علی بن ابی طالب اور مجاہد سے یہ بات ذکر کی ہے یہ آیت ایک یہودی کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس نے نبی کریم ﷺ کو کہا : مجھے بتائیے آپ کا رب کس چیز سے بنا ہوا ہے کیا لؤلؤ سے یا یاقوت سے ؟ تو بجلی کی کڑک آئی اور اس نے اسے جلا دیا۔ ایک قول یہ ہے، یہ عرب کے کسی کافر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت حسن نے کہا : عرب کے سرکشوں میں سے ایک آدمی تھا نبی کریم ﷺ نے ایک جماعت اس کی طرف بھیجی تاکہ وہ اسے اللہ، اس کے رسول اور اسلام کی طرف دعوت دیں تو اس نے انہیں کہا : مجھے محمد ﷺ کے رب کے بارے میں بتاؤ کہ کیا ہے اور کس چیز سے بنا ہوا ہے کیا چاندی سے یا لوہے سے یا نحاس سے ؟ قوم نے اس کی بات کو بہت بڑا سمجھا، تو اس نے کہا : میں محمد ﷺ کو اس کے رب کے بارے میں جواب دیتا ہوں جس کو وہ پہچانتا ہی نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے بار بار اس کی طرف وفد بھیجا تو وہ ایسا ہی کہتا، تو وہ جماعت اس کے ساتھ جھگڑا کر ہی رہی تھی اور اسے دعوت دے ہی رہی تھی کہ ایک بادل اٹھا اور ان کے سروں پر آگیا، وہ کڑکا، چمکا اور اس نے بجلی پھینکی، تو اس بجلی نے کافر کو جلا دیا اور وہ بیٹھے رہے۔ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس واپس لوٹ کے آئے تو بعض صحابہ کرام نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے کہا : تمہارا صاحب (مخالف) جل گیا۔ وفد نے کہا : تمہیں کہاں سے پتہ چلا ؟ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے بنی کریم ﷺ کی طرف وحی فرمائی کہ ویرسل الصواعق فیصیب بھا من یشآء اس کو ثعلبی نے حضرت حسن سے ذکر کیا ہے اور قشیری نے حضرت انس سے روایت بالمعنی بیان کی ہے۔ وہ عنقریب آئے گی۔ ایک قول یہ ہے : یہ آیت لبید بن ربیع کے بھائی اربد بن ربیع اور عامر طفیل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : عامر بن طفیل اور اربد بن ربیع دونوں نبی کریم ﷺ کو ملنے کے ارادے سے آئے آپ ﷺ صحابہ کی جماعت میں مسجد میں تشریف فرما تھے۔ دونوں مسجد میں داخل ہوئے، لوگوں نے عامر کے جمال کو دیکھنا چاہا وہ بھینگا تھا اور بڑا خوبصورت تھا۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کسی آدمی نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ عامر بن طفیل آپ کی طرف آرہا ہے۔ آپ نے فرمایا : اسے چھوڑو اگر اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے ہدایت دے دے گا۔ وہ آگے بڑھاحتٰی کہ آپ کے پاس کھڑا ہوگیا اور کہا : اے محمد ! اگر میں اسلام قبول کرلوں تو میرے لیے کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا :ْْتیرے لیے وہی ہوگا جو مسلمانوں کے لئے ہے اور تیرے ذمہ داری وہی ہوگی جو دوسرے مسلمانوں کی ہے۔ اس نے کہا : کیا اپنے بعد آپ مجھے خلیفہ بنائیں گے ؟ آپ نے فرمایا : ” میں تجھے گھوڑوں کی مدد دوں گا جن کے ذریعے تو اللہ کے رستے میں جہاد کرے گا “۔ اس نے کہا : کیا آج میرے پاس گھوڑے نہیں ہیں ؟ میرے ساتھ اٹھو میں آپ کے ساتھ گفتگو کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے ساتھ اٹھے اور عامر نے اربد کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جب تو مجھے ان کے ساتھ گفتگو کرتے دیکھے گا تو ان کے پیچھے چکر لگانا اور تلوار کے ساتھ ان کو شہید کردینا۔ اس نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ جھگڑا شروع کردیا۔ اربد تلوار کے لر ایک بالشت چلا پھر اللہ نے اسے روک لیا، اور وہ تلوار کو نہ سونت سکا اور تلوار پر ہی اس کا ہاتھ خشک ہوگیا۔ اللہ نے آندھی اور چیخ و پکار والے دن اس پر بجلی کی کڑک ڈالی جس نے اسے جلا دیا اور عامر سرپٹ بھاگتا ہوا واپس لوٹا اور کہا : اے محمد ﷺ ! آپ نے اربد کے لیے بدعا کی یہاں تک کہ اس نے اسے مار دیا، اللہ کی قسم ! میں تم پر باریک بالوں والے گھوڑے اور بےریش جوانوں کی بھرمار کر دوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اور قبلیے کے بیٹے (یعنی اوس و خزرج) کے نوجوان تجھے اس کام سے روکیں گے “۔ عام سلولیہ عورت کے گھر پہنچا اور صبح کے وقت کہتا جا رہا تھا : اللہ کی قسم ! اگر محمد اور اس کا دوست یعنی ملک الموت مجھے صحراء میں مل گئے تو میں دونوں سے اپنا تیر گزاردوں گا، تو اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا جس نے اپنے پر کے ساتھ اسے طمانچہ مارا اور اسے مٹی میں گر دیا اور اس کے گھٹنے پر ایک بہت بڑا پھوڑا نکل آیا۔ وہ سلولیہ کے گھر واپس لوٹا اور کہتا جا رہا تھا : اونٹ کے پھوڑے کی طرح پھوڑا اور سلولیہ کے گھر میں موت، پھر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کی پیٹھ پر ہی مرگیا۔ لبید بن ربیع نے بھائی کا مرثیہ کہا ہے : یا عین ھلا بکیت اربد إذقمنا وقام الخصوم فی کبد أخشی علی أربد الحتوف ولا ارھب نؤ السماک والأسد فجعنی الرعد والصواعق بالغا رس یوم الکریھم النجد اور اس کے متعلق اس نے یہ بھی کہا ہے : إن الرزیۃ لا رزیۃ مثلھا فقدان کل أخ کضؤ الکوکب یا أرید الخیر الکریم جدودہ أفردتنی أمشی بقرن أعضب مسئلہ : حضرت أبان نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے کو بجلی نہیں پکڑتی “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے فرمایا : نبی کریم ﷺ جب کڑک کی آواز سنتے تو کہتے : سبحان من یسبح الرعد بحمدہ والملائکۃ من خیفتہ وھو علی کل شئ قدیر (جس نے یہ کلمات کہے) اسے اگر بجلی آلے تو اس کی دیت مجھ پر ہے۔ خطیب بغدادی نے سلیمان بن علی کی حدیث حضرت عبد اللہ بن عباس عن أبیہ عن جدہ ذکر کی ہے آپ نے کہا : ہم ایک سفر میں حضرت عمر ؓ کے ساتھ تھے کہ ہمیں کڑک اور بادلوں کی ہوا نے آلیا، تو حضرت کعب نے ہمیں کہا : جس آدمی نے کڑک کی آواز سن کر سبحان من یسبح الرعد بحمدہ والملائکۃ من خیفتہ کے کلمات تین مرتبہ کہے تو اس کڑک میں موجود (نقصان) سے اسے معانی مل گئی، تو ہم نے ایسا ہی کیا تو ہم بچ گئے، پھر میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ملا تو بادلوں کی ہوا آپ کے ناک کو لگی اور اثر انداز ہوگئی، میں نے کہا : اے امیر المومنین یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : بادلوں کی ہوا میرے ناک کو لگی اور اثر انداز ہوگئی، تو میں نے کہا : کڑک کی آواز سن کر حضرت کعب نے ہمیں کہا تھا : جس نے کڑک کی آواز سن کر سبحان من یسبح الرعد بحمدہ والملائکۃ من خیفتہ تین بار کہا تو اسے کڑک میں موجود (نقصان) سے نجات مل گئی، تو ہم نے یہ کلمات کہے تو ہمیں نجات مل گئی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : تم نے ہمیں کیوں نہ کہا تاکہ ہم بھی کہہ لیتے ؟ اس کی تفصیل سورة ” بقرہ “ میں گزر چکی ہے۔ قولہ تعالیٰ : وھم یجادلون فی اللہ یعنی یہودی کا جھگڑا جب اس نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کس چیز سے بنا ہوا ہے ؟ یہ مجاہد کا قول ہے۔ ابن جریج نے کہا : اس سے مراد ربد کا جھگڑا ہے۔ جب اس نے نبی کریم ﷺ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے وھم یجادلون فی اللہ حال ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ عطف منقطع ہو۔ حضرت انس نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کے ایک بڑے آدمی کے پاس وفد بھیجا تاکہ وہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے، تو اسنے رسول اللہ ﷺ کو کہا : مجھے اپنے معبود کے بارے میں بتاؤ ! کیا وہ چاندی کا ہے، سونے کا ہے یا نحاس کا ؟ تو اس وفد نے اس کو بڑی جسارت سمجھا۔ آپ کے پاس وفد واپس آیا اور اس نے آپ کو اس بات سے آگاہ کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس کے پاس واپس جاؤ اور اسے دعوت دو “ وفد واپس پہنچا تو بجلی کی کڑک اسے اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اور وہ وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس لوٹا تو وھم یجادلون فی اللہ کا ارشاد نازل ہوا۔ وھو شدید المحال ابن اعرابی نے کہا : المحال کا معنی مکر ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکر کا معنی حق کی تدبیر ہوتا ہے۔ نحاس نے کہا : اللہ کی طرف سے مکر ناپسندیدہ چیز کو ایسے طریقے سے اس کے مستحق کے سپرد کرنا ہے کہ جس سے احساس بھی نہ ہو۔ ابن یزیدی نے ابو زید سے روایت کیا کہ وھو شدید المحال کا معنی ہے کہ وہ سخت بدلہ لینے والا ہے۔ ازہری نے کہا : المحال یعنی قوت اور شدت اور المحل سے مراد شدت ہے اس کی میم اصلی ہے، ما حلت فلانا محالا یعنی میں نے اسے پکڑا یہاں تک کہ واضح ہوگیا کہ کون سخت ہے۔ ابو عبید نے کہا : المحال یعنی سزا اور ناپسندیدہ بات۔ ابن عرفہ نے کہا : المحال سے مراد جلال اور جھگڑا ہے۔ ماحل عن أمرہ کہا جاتا ہے جس کا معنی ہی جادل اس نے جھگڑا کیا۔ قتیبی نے کہا : اس سے مراد سخت چال ہے، اس کی اصل حیلہ سے ہے، اس کی میم اصلی ہے، جب تو کسی لفظ کو فعال کے وزن پر دیکھے جس کا پہلا حرف مکسور ہو تو وہ اصلی ہوتا ہے، جیسے مھاد، ملاک اور مر اس وغیرہ۔ اور منعل جب ثلائی ہو تو وہ واو کے اظہار کے ساتھ آتا ہے جیسے مزود، محول اور محور وغیرہ۔ ازہری نے کہا : اعرج نے اسے وھو شدید المحال میم کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس قرأت کے مطابق اس کی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ حول سے مشتق ہے۔ یہ سارا ابو عبد ہر دی نے ذکر کیا ہے سوائے اس کے جو پہلے ابن اعرابی کے حوالے سے گزر چکا ہے۔ صحابہ وتابعین کی اس کے معنی کے متعلق تاویلات آٹھ ہیں۔ 1: شدید المحال کا معنی شدید العداوۃ یعنی دشمنی کی شدت ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ 2: اس کا معنی شدید الحول یعنی قوت وقدرت کی شدت والا ہے، یہ بھی حضرت ابن عباس ؓ کا ارشاد ہے۔ 3: معنی شدید الاخذ یعنی پکڑ کی شدت والا ہے، یہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا قول ہے۔ 4: شدید العقد دلی دشمنی کی سختی والا، یہ بھی حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ 5: شدید القوۃ قوت کی شدت والا، یہ مجاہد کا قول ہے۔ 6: شدید الغضب غضب کی سختی والا، یہ وہب بن منبہ کا قول ہے۔ 7: شدید الھلات بالمحل یعنی قحط کے ذریعے ہلاکت کی شدت والا، یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے۔ 8: شدید الحیلۃ یعنی حلیۃ کی شدت والا، یہ حضرت قتادہ کا قول ہے۔ ابو عبیدہ معمر نے کہا : المحال اور المماحلۃ سے مراد مما کرہ اور مغالبہ ہے۔ أعشی نے شعر کہا ہے۔ فرع نبع یھتنر فی غضن المجد کثیر الندی شدید المحال ایک اور شاعر نے کہا : ولبس بین اقوام فکل أعدلہ الشغازب والمحالا عبد المطلب نے کہا : لاھم إن المرئ یمنع رحلہ فأمنع حلالک لا یغلبن صلیھم ومحالھم عدوا محالک
Top