Anwar-ul-Bayan - Al-Muminoon : 17
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ١ۖۗ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : تحقیق ہم نے بنائے فَوْقَكُمْ : تمہارے اوپر سَبْعَ : ساتھ طَرَآئِقَ : راستے وَمَا كُنَّا : اور ہم نہیں عَنِ : سے الْخَلْقِ : خلق (پیدائش) غٰفِلِيْنَ : غافل
اور یہ واقعی بات ہے کہ ہم نے تمہارے اوپر سات طرائق پیدا کیے ہیں اور ہم مخلوق سے بےخیر نہیں ہیں۔
آسمانوں کی تخلیق، خاص مقدار کے موافق بارش ہونا اور اس کے ذریعہ باغیچوں میں پیداوار ہونا ان آیات میں اللہ جل شانہٗ نے آسمانوں کو پیدا فرمانے اور آسمان سے پانی برسانے اور اس کے ذریعہ درخت اگانے کا تذکرہ فرمایا یہ سب انسانوں کے لیے بڑی نعمتیں ہیں۔ اول یوں فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے اوپر (سَبْعَ طَرَاءِقَ ) سات راستے بنائے ہیں مفسرین نے فرمایا ہے کہ ان سے سات آسمان مراد ہیں ان کو سبع طرائق یا تو اس لیے فرمایا ہے کہ سات آسمان اوپر نیچے بنائے ہیں اور یا اس اعتبار سے سبع طرائق فرمایا کہ ان میں فرشتوں کے آنے جانے کے راستے ہیں مزید فرمایا (وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِیْنَ ) (اور ہم مخلوق سے غافل نہیں ہیں) یعنی بیخبر نہیں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے نہ پہلے غافل تھا اور نہ اب غافل ہے کوئی بڑی مخلوق ہو یا چھوٹی اس نے اپنی حکمت کے موافق جس کو جیسا چاہا اور جب چاہا پیدا فرما دیا۔ ثانیاً یوں فرمایا کہ ہم نے آسمان سے ایک مقدار کے مطابق پانی نازل فرمایا پانی اگر ضرورت سے زیادہ برس جائے تو سیلاب آجاتا ہے اس سے انسان اور جانوروں اور کھیتوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور اگر پانی کم برسے تو اس سے ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں عموماً اللہ تعالیٰ مناسب مقدار میں پانی نازل فرماتا ہے یہ پانی کھیتوں میں اور باغوں میں پہنچاتا ہے جس کی وجہ سے سبزی اور شادابی آجاتی ہے۔ اور پانی کا ایک بہت بڑا حصہ تلابوں میں گڑھوں میں اور ندیوں میں ٹھہر جاتا ہے اس پانی سے انسان پیتے بھی ہیں اور نہاتے بھی ہیں اور دوسری ضرورتوں میں بھی استعمال کرتے ہیں، نیز جانور بھی پانی پیتے ہیں اگر پانی ایک دم برس کر بہہ کر چلا جائے اور اللہ تعالیٰ اسے زمین میں نہ ٹھرائے تو مذکورہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے زمین میں ٹھہرانے سے پہلے یا بعد اس پانی کو معدوم کرنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اسی کو فرمایا ہے (وَاِِنَّا عَلٰی ذَھَابٍ بِّہٖ لَقٰدِرُوْنَ ) (اور بلاشبہ ہم اس کو معدوم کرنے پر ضرور قادر ہیں) ۔ ثالثا یوں فرمایا کہ پانی کے ذریعہ کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے، ان کھجوروں اور باغوں میں تمہارے لیے منافع ہیں، ایک نفع تو یہ ہے کہ تروتازہ مال ہے درخت سے توڑو اور کھاؤ، میٹھا بھی ہے اور مزے دار بھی، قوت و صحت کے لیے بھی مفید ہے نہ پکانے کی ضرورت نہ مصالحہ نمک ملانے کی حاجت، اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ان کو سکھا کر رکھ لیتے ہیں جو میوے بن جاتے ہیں اور ان میووں کو اگلی فصل تک کھاتے رہتے ہیں انگور سے منقی اور کشمش تیار کرلیتے ہیں اور کھجوروں سے چھوارے بنا لیتے ہیں اس کو فرمایا (لَکُمْ فِیْہَا فَوَاکِہُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ ) اور انگور کے باغ پیدا کیے اس میں تمہارے لیے میوے ہیں اور اس میں سے تم کھاتے ہو) ۔
Top