Mualim-ul-Irfan - Al-Haaqqa : 38
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَا تُبْصِرُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم دیکھتے ہو
پس قسم ہے مجھے ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔
گذشتہ سے پیوستہ : سورۃ الحاقہ کے پہلے رکوع میں قیامت کا ذکر ہے۔ آخری آیتوں میں بنیادی عقائد کا بیان ہے منجملہ ان کے رسالت اور نبوت کا ذکر ہے۔ جس طرح کفار قیامت کا انکار کرتے تھے۔ اسی طرح حضور ﷺ السلام کی نبوت اور رسالت کے منکر تھے۔ پہلے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ بھی اسی قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں جب کہ لوگ ان کی تکازیب کرتے تھے۔ یہ لوگ نہ صرف پیغمبر کا انکار کرتے تھے۔ بلکہ وحی الہٰی اور اس کے لانے والے فرشتے کا بھی انکار کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ اپنے پاس سے باتیں گھڑ کر لایا ہے۔ خدا کا پیغام نہیں ہے۔ بعض شاعر اور کاہن کا خطاب دیتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ یہ غیب کی خبریں بتاتے ہیں۔ اور سچ کے ساتھ جھوٹ ملاتے ہیں۔ اپنی فیس لیتے ہیں مسجع عبارت بولتے ہیں جنات کے ساتھ تعلق قائم کرتے ہیں۔ پہلی سورة میں گرز چکا ہے۔ کہ بعض بدبخت لوگ حضور ﷺ کو مجنون کہ کر رسالت کا انکار کرتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر نبوت اور رسالت کا ذکر فرمایا ہے۔ اس سورة کے پہلے رکوع میں قیامت اور سابقہ اقوام کا ذکر تھا ۔ ان سزائوں کا اجمال ذکر تھا جو ان اقوام کو دی گئیں۔ پھر اس سے قیامت کے برحق ہونے کی دلیل قائم کی۔ جیسے اس کے بعد انسانوں کے دو گروہوں یعنی اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کا ذکر ہوا۔ اصحاب شمال کو ملنے والی سزا کا بیان ہوا۔ اور ا س کی بنیادی وجہ بیان کی کہ وہ لوگ خدائے عظیم پرا یمان نہیں رکھتے تھے ، اور انسانی حقوق ضائع کرتے تھے۔ آیات زیر درس میں نبوت اور رسالت کا ذکر ہے۔ قرآن پاک کا کلام الہٰی ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے قسم ہے اس چیز کی جو تم دیکھتے ہو۔ اور ان چیزوں کی جن کو تم نہیں دیکھتے۔ لا کی تفسیر مفسرین نے دو طریقوں سے کی ہے۔ او ل یہ ہے کہ لا تاکید کے لیے آتا ہے۔ جیسے میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں۔ یا مثلاََمیں ستاروں کے ڈوبنے کی قسم کھاتا ہوں ، ستارے ڈوبتے ہیں تو سورج نمایاں ہوتا ہے۔ سابقہ انبیاء ک مثل ستاروں جیسی تھی۔ اور خاتم النبین ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے سراجاََ منیرا َ فرمایا۔ تو یہ لا قسم کی تاکید کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ایک محاورہ بھی ہے۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ لا نافیہ ہی ہے ۔ کیونکہ مفہوم ایک ہی نکلتا ہے۔ میں نہیں قسم کھاتا ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔ اور جن کو تم نہیں دیکھتے۔ قسم اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بات بڑی واضح ہے ۔ قسم اٹھانے کی تو وہاں ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں کوئی بات پوشیدہ ہو تو دوسرے کو یقین دلانا مقصود ہو۔ مگر قرآن پاک کا کلام الہٰی اور وحی الٰہی ہونا تو واضح ہے۔ حضرت محمد ﷺ نبی پر حق ہیں۔ قسم اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں۔ لہٰذا اس لحاظ سے لانفی مراد ہے۔ مگر زیادہ تر اسے لاتاکیدی کے معنوں میں ہی لیا جاتا ہے۔ غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا شرک ہے : یہاں ایک دوسرا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے غیر اللہ کے نام کی قسم اٹھانے سے منع فرمایا ہے جیسے جس نے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم کھائی اس نے شرک کیا ، نیز یہ بھی ارشاد ہے۔ شرک باپوں اور طاغوت کے نام پر مت قسم اٹھائو۔ اگر قسم سے غیر اللہ کی تعظیم مراد ہے تو پھر واضح شکر ہے۔ اور تعظیم مدنظر نہیں تو پھر بھی شرک کی صورت بنتی ہے۔ ہر حالت میں ناپسندیدہ ہے۔ قسم صرف اللہ کے نام کی یا اس کی صفت کی اٹھانی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ خود مخلوق کی قسم اٹھاتا ہے : اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خود کئی چیزوں کی قسم اٹھائی ہے۔ جیسے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ غیر اللہ کی قسم نہ اٹھانے کا قانون صرف انسانوں کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے۔ اس کے لیے یہ قانون نہیں ہے۔ انسان تو اللہ تعالیٰ کا نام یا اس کی صفت سامنے رکھ کر قسم اٹھاتا ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ میں خدا کے نام کی تعظیم کر رہا ہوں۔ اگر غلط بیانی کروں گا تو اللہ تعالیٰ مواخذہ کرے گا تو ایسی صورت میں دوسرے کو یقین آجاتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے قسم اٹھانے کا یہ مطلب نہیں ہے اللہ تو خود عظمت والا ہے۔ باقی جن چیزوں کی قسم اٹھائی گئی ہے۔ وہ تو مخلوق ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے قسم اٹھانے میں قسم کا مفہوم نہیں پایا جاتا ، بلکہ صرف ایک دلیل قائم کرنا مقصود ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو بطور گواہ پیش کیا ہے اس پر غور کرلو ، بات سمجھ میں آجائے گی۔ اس قسم سے مقسوم کی تعظیم مراد نہیں ہوتی۔ حدیث شریف میں حضور ﷺ کی ایک دعا مذکور ہے۔ کہ اے اللہ ! میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو ملائکہ کو اور اپنی مخلوق کو ہماری اس بات پر گواہ بنالے کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ تو اکیلا ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ مقدمات کے فیصلہ کے لیے بھی دو طریقے ہی ہیں۔ یا تو گواہ پیش کئے جائیں یا قسم پر فیصلہ ہو ، فرمایا جہاں گواہ موجود نہ ہو وہاں فیصلہ قسم پر ہوگا۔ مدعی کے ذمہ گواہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ اگر گواہ نہیں ہیں تو مدعا علیہ قسم اٹھائے گا اور حاکم اس کے مطابق فیصلہ کر دے گا۔ مبصرت اور غیر مبصرات : فرمایا میں قسم اٹھاتا ہوں ، ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔ اور جن کو تم نہیں دیکھتے۔ عالم شہادت میں زمین ، آسمان ، ستارے اور مخلوق نظر آنے والی چیزیں ہیں اور بعض چیزیں نظر نہیں آتیں مثلاََ ملائکہ ، جنات ، جبرائیل ۔ ایک دفعہ حضور ﷺ گھر میں تشریف فرما تھے ، جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور وحی لائے۔ آپ حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف فرما تھے۔ آپ نے ان کو بتایا کہ عائشہ ؓ ! جبریل (علیہ السلام) آئے ہیں اور تم کو سلام کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے سلام کا جواب دیا۔ اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی آپ تو جبرئل (علیہ السلام) کو دیکھ رہے ہیں مگر ہمیں وہ نظر نہیں آتا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں پر وہ غیب میں رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح کعبہ نظر آتا ہے۔ بیت المعمور نہیں نظر آتا کہ وہ عالم بالا میں ہے۔ فرشتے بیت اللہ کے طواف کے لیے آتے ہیں مگر نظر نہیں آتے۔ بیت اللہ شریف پر تجلی پڑرہی ہے۔ مگر نظر نہیں آتی۔ ایسی ہی اور کتنی چیزیں ہیں جو نظر نہیں آتیں۔ تو اس میں کفار کے لیے دلیل قائم کی جارہی ہے ۔ کہ تم جبرائل کا انکار کرتے ہو۔ وحی الٰہی کا انکار کرتے ہو ، قرآن پاک کے منجانب اللہ ہونے کا انکار محض اس لیے کرتے ہو کہ یہ چیزیں تمہیں نظر نہیں آتیں حالانکہ بیشمار چیزیں ایسی ہیں جن کا تم بن دیکھے یقین کرتے ہو۔ بعض چیزیں تم دوسروں کی تقلید میں مانتے ہو ، بعض دوسروں سے سن کر تسلیم کرلیتے ہو۔ مگر جبریل کو ، وحی الٰہی کو اور قرآن پاک کو تسلیم کرنے میں کون سا امر مانع ہے انہیں بن دیکھے کیوں نہیں مانتے اللہ کا نبی کہہ رہا ہے کہ جبریل آئے ہیں۔ اللہ کا پیغام لائے ہیں ، مگر تم ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے کیا تم دنیا کی ہر چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہی یقین کرتے ہو ؟ بعض چیزیں انسانی عقل سے بالا ہیں ، کئی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے پردہ غیب میں رکھا ہے ایک وقت آئے گا ، سب کو کھول دے گا۔ اس وقت سب چیزیں شہادت بن جائیں گی۔ اب پابند کیا گیا ہے۔ حکم ہوتا ہے۔ غیب پرا یمان لائو فلاح پا جائو گے ۔ اگر ایمان نہیں لائو گے۔ نجات نہیں ہوگی۔ اسی لیے حضور ﷺ کی دعا کے الفاظ ہیں کہ اے اللہ ! میں گواہی دیتا ہوں یعنی جنت اور دوزخ برحق ہیں۔ حالانکہ یہ نظر نہیں آتیں۔ اسی طرح جبریل کا آنا ، وحی الٰہی ہونا نظر نہیں آتا مگر برحق ہے۔ اس پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ انہیں ماننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح برزخ کا معاملہ ہے ، قیامت کا معاملہ ہے ، نظر نہیں آتا مگر انسان دوسروں سے سن کر یا ان کی تقلید میں ایمان لاتے ہیں۔ وہاں تو انکار نہیں کرتے۔ پھر یہاں انکار کی کیا وجہ ہے۔ جب پیغمبر کو دیکھتے ہو تو اس کے پاس وحی لانے والے کو بھی مان لو۔ کلام الٰہی زبان رسول : الغرض یہ تمام چیزیں بیان کرکے فرمایا کہ میں قسم اٹھاتا ہوں محسوسات کی اور غیر محسوسات کی مبصرات کی اور غیر مبصرات کی یعنی ان سب چیزوں کو بطور گواہ اور بطور دلیل پیش کرتا ہوں کہ البتہ قرآن پاک ایک پیغام ہے بزرگ رسول کی زبان سے ادا کیا ہوا۔ کے معنی اس کی زبان سے ادا کیا ہوا۔ اس کا ذاتی قول نہیں ہے۔ وہ رسو ل ہے ، عزت والا ہے ، قرآن پاک کو لانے والا فرشتہ بھی عزت والا ہے۔ دونوں کو کریم کے لفظ سے تعبیر کیا ۔ یعنی رسول جسے دیکھ رہے ہو وہ بھی عزت والا ہے۔ اور فرشتہ جو نظر نہیں آتا وہ بھی عزت والا ہے۔ بڑی شرافت والا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے اتنی مہربانی اور شفقت سے توجہ نہیں فرماتا جتنا اس چیز پر جو نبی کی زبان سے نکلتی ہے اللہ تعالیٰ اس کو بڑی مہربانی سے سنتا ہے۔ وہ کلام الٰہی ہے ، نبی کا کلام نہیں مگر نبی کی زبان سے ادا کیا گیا ہے۔ قرآن پاک شاعر کا کلام نہیں : کفار کہتے تھے۔ کہ یہ کلام الٰہی نہیں بلکہ کسی شاعر کا کلام ہے ، محض تک بندی ہے حالانکہ قرآن پاک کا شعرنہ ہونا ایک واضح بات ہے مگر افسوس کہ لوگ ایمان نہیں لاتے اور ہٹ دھرمی کر رہے ہیں ۔ شعر و شاعری کا مدار تو تخیلات پر ہوتا ہے ۔ کسی کی مدح کردی کسی کی قدح کردی۔ سورة شعراء میں ارشاد ربانی ہے۔ شاعروں کے پیچھے چلنے والے گمراہ لوگ ہوتے ہیں۔ شعر جتنا جھوٹا ہوگا اتنی ہی زیادہ لذیز ہوگا اور زیادہ داد وصول کریگا برخلاف اس کے قرآن پاک تو حقائق پر مبنی ہے۔ اس کے سارے حقائق برحق ہیں۔ اس بات کو تو سمجھدار عرب بھی جانتے تھے کہ قرآن پاک کسی شاعر کا کلام نہیں ہے۔ حضرت عمر ؓ کے ایمان لانے کے سلسلے میں جو روایات آتی ہیں۔ ان میں ایک یہ بھی ہے جسے آپ خود بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں میں حضور ﷺ کو ایذا پہنچانے میں پیش پیش ہوا کرتا تھا۔ بلکہ بسا اوقات آپ کو قتل کرنے کے درپے رہتا تھا۔ میں اپنے خیالات میں مگن خانہ کعبہ میں آیا اور دیکھا کہ حضور ﷺ پہلے سے وہاں موجود ہیں۔ اور قرآن پاک پڑھ رہے ہیں۔ میں دل میں کہہ رہا تھا کہ آپ شاعر میں مگر اسی وقت آپ کی زبان مبارک سے یہ آیت پاک نکلی۔ حضر ت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں سوچنے لگ گیا۔ کہ یہاں شاعری کی تونفی کردی گئی ہے۔ قرآن پاک کا ہن کا کلام نہیں : فرماتے ہیں کہ اگر آپ شاعر نہیں ہیں تو کاہن ضرور ہیں۔ یہ خیال آنا تھا تو آپ نے اگلی آیت تلاوت کردی حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں پھر متذبذب ہوگیا کہ آپ نے تو کاہن ہونے کی بھی نفی کردی۔ اتنی دیر میں حضور ﷺ سورة کو آخر تک پڑھ گئے۔ تو میرے دل میں قرآن پاک کی وقعت پیدا ہوگئی۔ یہ نہ تو شاعری ہے اور نہ کہانت بلکہ یہ تو رسول کریم کی زبان سے ادا کیا ہوا ۔ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے : سورة قلم میں بیان ہوا۔ کہ قرآن پاک کسی مجنون کا کلام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایسا کلام ہے جس کو قلم سے لکھنے والے لوگ عاجز ہیں۔ کہ اس کا مقابلہ کرسکیں۔ فرمایا کہ آپ کو پاگل کہنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ تو بلند ترین اخلاق پر ہں۔ جس سے بلند اور کوئی اخلاق نہیں ہے۔ آپ تو عظمت والے ہیں۔ اسی طرح اس سورة میں ذکر ہو ا کہ یہ شاعر کا کلام بھی نہیں شاعر تو معمولی باتوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں ان کا دارومدار تخیلاتی باتوں پر ہوتا ہے۔ آپ کا ہن بھی نہیں کہ کاہنوں کا اخلاق وہ نہیں ہوتا جو پیغمبر کا ہوتا ہے۔ فرمای حقیقت یہ ہے کہ یہ تو رب العٰلمین کی طرف سے نازل کردہ وحی الٰہی ہے۔۔ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس کو لانے والا بزرگ فرشتہ ہے جس ہستی کی زبان سے ادا کیا جارہا ہے۔ وہ رسول رکیم ہے اور بڑی عزت والا ہے۔ قرآن پاک کی مثل لانے کے لیے چیلنج : کفار کہتے تھے کہ قرآن پاک اللہ کا کلام نہیں ۔ بلکہ خود ساخت ہے۔ اس مضمون کو قرآن پاک نے کئی طریقوں سے بیان کیا ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے چیلنج کیا کہ اگر تمہارے کہنے کے مطابق یہ کلام من گھڑت ہے۔ تو تم بھی اس جیسی ایک سورة بنا کرلے آئو جس میں قرآن پاک جیسے حقائق ، علوم ، فصاحت اور بلاغت ہو۔ یہ چیلنج چودہ صدیوں سے قائم ہے مگر آج تک کوئی ایسا انسان پیدا نہیں ہوا ، جوا س چیلنج کو قبول کرے اور قرآن جیسی ایک آیت ہی بنا کر لائے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جس کسی نے بھی اس معاملہ میں جرأت کی اس نے منہ کی کھائی۔ مثلاََ جب مسلیمہ کذاب نے کوشش کی تو حضرت عمر و بن العاص ؓ جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے کہنے لگے کم تم پر لعنت ہو کہ تم کے مقابلے میں ایسا اول فول کلام پیش کرتے ہو۔ حالانکہ خود تیرا دل گواہی دیتا ہوگا۔ کہ تو جھوٹا ہے غرضیکہ مخالفین اس بات کو خوب جانتے تھے کہ وہ قرآن پاک کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ جس نے بھی کوشش کی ، وہ جھوٹا ثابت ہوا۔ رسول خود کلام بنا کر اللہ کی طرف منسوب نہیں کرسکتا : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی غیر تو کجا خود رسو ل بھی اپنی طرف سے کوئی کلام بناکر اللہ کی طرف منسوب نہیں کرسکتا۔ یعنی اگر رسول ایسا کرے۔ کوئی جھوٹ موٹ بنا کر لائے تو پھر سب سے پہلے خود اللہ تعالیٰ اس کا محاسبہ کرے گا۔ ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیں گے۔ اور اس کی رگ گردن کاٹ دیں گے۔ وتین اس رگ کو کہتے ہیں جو دل سے اوپر کی طرف آتی ہے اور ایسی صورت میں اور تم میں سے کوئی بھی روکنے والا نہیں ہوگا۔ اس قسم کا مضمون تو رات میں بھی موجود ہے کہ کوئی سچا نبی خدا کی طرف غلط بات منسوب کریگا۔ تو خدا اس کو ہلاک کردے گا۔ زندہ نہیں چھوڑیگا۔ ہاں البتہ جھوٹے نبیوں کے متعلق یہ بات نہیں ہے۔ ا ن کو مہلت ملتی رہتی ہے۔ جسیے مسلیمہ کذاب ، اسود عنسی اور مرزا قادیانی وغیرہ۔ وہ اول فول باتیں رتے رہتے ہیں۔ خود بنا کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں مگر ذلیل ہوتے ہیں یا مارے جاتے ہیں۔ سچا نبی اللہ تعالیٰ کی طرف غلط بات منسوب نہیں کرسکتا۔ اگر کرے گا تو فرمایا ہم اس کا محاسبہ کریں گے اور تم میں سے کوئی بھی اسے روکنے والا نہیں ہوگا۔ قرآن پاک متقین کے لیے نصیحت ہے : یہ قرآن پاک کیا ہے فرمایا یہ تو متقیوں کے لیے تذکرہ اور نصیحت ہے جیسے پہلی آیات میں فرمایا یعنی قرآن پاک تو رب العملین کا نازل کردہ ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتا ہے جو متقی ہے۔ اس میں خوف خدا پایا جاتا ہے۔ قیامت کے محاسبے سے ڈرتا ہے اسی لیے سورة بقرہ میں فرمایا کہ قرآن پاک متقین کے لیے ہدایت ہے الغرض یہ کلام نصیحت اور یادہانی ان لوگوں کے لیے ہے جو ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے بچتے ہیں۔ منکرین جھوٹے ہیں : یہ حقائق بیان کرنے کے بعد فرمایا اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے جھٹلانے والے بھی ہیں جو قرآن کو جھٹلاتے ہیں اور احکام الٰہی جیسے قیامت توحید اور رسالت کو جھٹلاتے ہیں نیز فرمایا کہ دیا رکھو یہ کافروں پر بڑے افسوس کا باعث ہوگا۔ آگے چل کر کفار بڑا افسوس کریں گے۔ قرآن پاک حق الیقین ہے : فرمایا یہ کوئی مشکوک چیز نہیں ہے کوئی بناوٹی چیز نہیں ہے بلکہ قرآن کا بیان حق ہے۔ یہ قطعی اور یقینی ہے۔ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔ نہ من گھٹرت ہے نہ جھوٹا بلکہ خدا وندقددس کا سچا کلام ہے۔ اس کی صٓفت ہے اس نے وحی کے ذریعے اتارا ہے ۔ لانے والا بزرگ فرشتہ ہے۔ وحی کے لانے میں بھی بڑا اہتمام ہوتا ہے۔ اس میں آگے یا پیچھے کسی شیطان یا مخلوق کا دخل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ جب وحی نازل ہوتی ہے تو چاروں طرف پہرے لگ جاتے ہیں کوئی اس میں دخیل نہ ہوسکے۔ یہ تو تنزیل من رب العلمین ہے۔ تسبیح کا بیان کرنے کا حکم : یہ تمام حقائق بیان کرنے کے بعد سورة کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے۔ اپنے رب کی تسبیح بیان کریں کہ اس نے ہماری ہدایت اور رہنمائی کے لیے کلام پاک نازل فرمایا۔ وہ عظمتوں کا مالک ہے۔ اس نے ہم پر بڑی مہربانی کی جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا۔ اسے اپنے رکوع میں داخل کرلو۔ اور کہو سبحان ربی العظیم اسی طرح جب آیت نازل ہوئی تو فرمایا اسے پانے سجدے میں داخل کرلو یعنی سبحان ربی الاعلیٰ ۔ عبداللہ بن مسعود ؓ کی رویات میں آتا ہے جہ جو رکوع کرتا ہے اور رین دفعہ سبحان ربی العظیم کہتا ہے تو اس کا رکوع مکمل ہے۔ اور یہ ادنیٰ درجہ ہے۔ ورنہ نفلی عبادت میں پانچ دفعہ سات دفعہ اکیس دفعہ ، اکتالیس دفعہ بھی یہ تسبیح کہی جاسکتی ہے۔ حضور ﷺ بعض اوقات اتنا لمبا رکوع کرتے اور تسبیح پڑھتے جتنی قرأت ہوتی۔ دوسیپارے کے برابر قرأت کی اور اتنی ہی لمبی تسبیح بیان کی اسی طرح سجدے میں سبحان ربی الاعلیٰ پڑھتے تو فرمایا خدائے پاک کی ذات بےعیب ہے اس نے ہماری ہدیات کے لیے قرآن نازل فرمایا یہ کفار غلط باتیں منسوب کرتے ہیں۔
Top