Mualim-ul-Irfan - An-Naba : 12
وَّ بَنَیْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًاۙ
وَّبَنَيْنَا : اور بنائے ہم نے فَوْقَكُمْ : تمہارے اوپر سَبْعًا : سات شِدَادًا : مضبوط/ سخت
اور تمہارے اوپر سات سخت (مضبوط ) آسمان بنائے
(کا ئنات کے مختلف عالم ) اور دیکھو ! ہم نے وبنینا فوقکم سبعا شدادا تمہارے اوپر سات سخت آسمان بنائے ۔ کہیں آتا ہے سبع سموت طباقا “ یعنی اوپر نیچے طبقات بنائے ۔ یہاں پر آسمانوں کو شدادکہا گیا ہے۔ حالانکہ آسمان تو شفاف نظر آتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ( ب 2 تفہمات الیہ ص 217 ج 1 تاص 219) ہیں کہ آسمانی کروں کے عناصر بھی زمین کی طرح ہی ہیں مگر وہ لطیف ہیں ۔ زمین میں کثافت اور ظلمت پائی جاتی ہے۔ مگر آسمان لطیف ہیں ۔ اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی چیز میں جس قدر مادیت اور ظلمت ہوگی وہ کمزور ہوگی اور دوسری چیز جس قدر لطیف ہوگی ، اسی قدر طاقتور ہوگی ۔ دنیا مادی جہاں ہے یعنی ہے یہ اینٹ اور پتھر والا جہاں کمزور ہے اس سے زیادہ لطیف جہان عالم مثال ہے ۔ زمین میں جو چیز بھی نظر آتی ہے ۔ پہلے عالم مثال میں آکر قائم ہوتی ہے ۔ پھر یہاں آتی ہے ۔ عالم مثال ، اس مادی اور ناسوتی جہاں سے بہت قوی ہے اس سے زیادہ طاقتور جہان عالم ملکوت ہے۔ جو ملا ئ کہ اور ارواح کا جہاں ہے ۔ اس سے زیادہ طاقتور عالم جبروت ہے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی صفات سے ہے اور آخر میں عالم لا ہوت ہے اس عالم تک کسی کی رسائی ممکن نہیں ۔ (مادہ اور توانائی ) الغرض حکمائے الٰہی اس طریق پر سوچتے ہیں ۔ وہ بلند ی سے نیچے کی طرف آتے ہیں ۔ سب سے بلند ترایک ذات ہے ۔ جو وجود کی مالک ہے ہے وجود سب چیزوں پر حاوی ہے ۔ اس کے بعد اس کے اسماء اور صفات کا درجہ ہے ۔ ان میں بڑی قوت ہے پھر ملکوت کا درجہ ہے۔ اس میں بھی بڑی طاقت ہے ۔ پھر عالم مثال کا جہان ہے۔ یہ بھی بڑاطاقتور ہے۔ اس کے بعد یہ مادیت کا جہان سے یہاں پر وہ اور سائنس ان یعنی مادی حکما آ کر مل جاتے ہیں سائنس دان مادیت سے شروع کرتے ہیں مادیت کو تلاش کرتے ہیں ۔ عناصر وغیرہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر مختلف قسم کے انکشافات کرتے ہیں انہیں آہستہ آہستہ معلوم ہوتا ہے کہ مادے سے طاقتور کوئی چیز بھی موجود ہے۔ اس طرح سائس دان مختلف تجربات کے بعد اس نتیجے پر ہیں کہ مادہ کوئی چیز نہیں ، اصل چیز توانائی ہے یہ ایٹم بم توانائی پر ہی مبنی ہے ۔ یہ کوئی بہت بڑا بم نہیں ۔ اس کے پھٹنے سے اس قدر توانائی خارج ہوتی ہے۔ کہ دس بارہ میل تک کے علاقہ میں اس کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہرسکتی اسکو فنا کے گھاٹ اتاردیتی ہے۔ یہ صرف مادی توانائی کا ذکر ہے سائنسدان تو عالم مثال تک بھی نہیں پہنچ سکے ۔ حالا ن کہ حکما اوپر کے تمام جہانوں کے بارے میں مطالعہ رکھتے ہیں۔ بہرحال آسمانوں کو شداد اس (رح) لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت طاقتور ہیں ۔ زمین کی نسبت وہ لطیف ہیں ۔ اور زیادہ طاقتور ہیں ۔ جتنا کوئی جہان لطیف ہوگا ، اتنا ہی طاقتور ہوگا ۔ جبرائیل امین (علیہ السلام) ایک لطیف مخلوق ہے ۔ اس کی توانائی کا اندازہ مادی مخلوق نہیں کرسکتی ۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اتنی قوت رکھی ہے کہ چاہے تو ایک پر کے ساتھ ساری دنیا کو ملیامیٹ کر دے ۔ یہ لطیف چیز ہے۔ اس طرح آسمان بھی لطیف ہیں ۔ اس لیے انہیں شداد یعنی طاقتور کہا گیا ہے وجعلنا سراجا وھاجا اور ہم نے ایک چمکتا ہوا چراغ رکھا ہے ۔ اس سے مراد سورج ہے ۔ جو ان آسمانوں میں رکھا ہوا ہے ۔ نہ اس میں پڑول ڈالا جاتا ہے۔ اور نہ ہی کوئی اور ایندھن مگر جب تک اس کو قائم رکھنا منظور خداوندی ہے ، یہ اسی طرح چمکتا دمکتا رہے گا ۔ اور حرارت اور توانائی بہم پہنچاتا رہے گا ۔ جب اللہ تعالیٰ اس نظام کو تبدیل فرمائیں گے ۔ تو یہ سب چیزیں ختم ہوجائیں گی اس قسم کے اشارات اگلی سورتوں میں بکثرت ملتے ہیں۔ مثلا اذالشمس کورت ۔ جب سورج کی روشنی لپیٹ دی جائیگی اور یہ سارانظام درہم برہم کردیا جائے گا۔
Top