Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 67
اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَهُمْ١ؕ نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْ١ؕ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
اَلْمُنٰفِقُوْنَ : منافق مرد (جمع) وَالْمُنٰفِقٰتُ : اور منافق عورتیں بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض مِّنْ : سے بَعْضٍ : بعض کے يَاْمُرُوْنَ : وہ حکم دیتے ہیں بِالْمُنْكَرِ : برائی کا وَيَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہیں عَنِ : سے لْمَعْرُوْفِ : نیکی وَيَقْبِضُوْنَ : اور بند رکھتے ہیں اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ نَسُوا : وہ بھول بیٹھے اللّٰهَ : اللہ فَنَسِيَهُمْ : تو اس نے انہیں بھلا دیا اِنَّ : بیشک الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) هُمُ : وہ (ہی) الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان (جمع)
منافق مرد اور منافق عورتیں یہ بعض بعض سے ہیں۔ یہ حکم دیتے ہیں بری بات کا اور منع کرتے ہیں اچھی بات سے اور سکیڑتے ہیں اپنے ہاتھوں کو۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیا ہے ، پس اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے محروم کردیا ہے۔ بیشک منافق لوگ وہی ہیں نافرمان لوگ
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے جہاد کے سلسلے میں منافقین کی مذمت بیان فرمائی اور ان کی خود غرضی ، بزدلی ، مفاد پرستی اور ان کے برے انجام کا ذکر فرمایا۔ پھر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں کا حال بیان کیا کہ ان کے اس عمل کا نتیجہ خطرناک صورت میں ظاہر ہوگا۔ فرمایا یہ لوگ دنیا میں سب کے سامنے ذلیل ورسوا ہوں گے اور آخرت کی سب سے بری نامرادی تو ان کے لیے لازمی ہے اب آج کے درس میں اللہ نے منافقین کے بعض اوصاف بیان کیے ہیں کہ یہ لوگ کس قسم کے اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔ پھر عبرت کے لیے پہلے لوگوں کا حال بھی بیان فرمایا ہے اور ان لوگوں کے انجام سے باخبر کر کے بات سمجھائی ہے کہ اگر تم بھی ان کے نقش قدم پر چلو گے تو تمہارا انجام بھی پہلے لوگوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ قرآنی اصطلاحات : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان المنفقین والمنفقت “ بیشک منافق مرد اور منافق عورتیں ۔ منافق کی جمع منافقین ہے اور منافقہ کی جمع منافقات ہے اللہ نے مرد وزن منافقوں کے لیے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے یعنی آگے جس بات کا ذکر آرہا ہے وہ تمام مردو زن منافقوں پر یکساں لاگو ہوتی ہے قرآن پاک میں بہت سی اصطلاحات بیان ہوئی ہیں جن میں ایک منافق بھی ہے۔ مثلا قرآنی اصطلاح میں کافر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سارے یا کسی ایک حکم کا انکار کر دے جس طرح ایمان لانے کے لیے تمام اجزائے ایمان کی تصدیق ضروری ہے اور کسی ایک جزو کی کوتاہی ایمان سے خارج کردینے کے لیے کافی ہے اسی طرح کسی ایک جزو کا انکار بھی کافر ہوجانے کے لیے کافی ہے اور اس کے لیے تمام اجزائے ایمان کا انکار ضروری نہیں۔ ایمان دار بننے کے لیے خدا تعالیٰ کی ذات صفات ، اس کی وحدانیت اس کے ملائکہ ، کتب سماویہ ، تمام رسل ، قیامت کے دن اور تقدیر خیر وشر پر یقین ضروری ہے اسی طرح امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان اجزائے ایمان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کافر بننے کے لیے کافی ہے۔ قرآنی اصطلاح میں مشرک اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کو مانتے ہوئے اس کی عبادت یا صفت مختصہ میں کسی دوسری ہستی کو شیرک بناتا ہے۔ مشریک خداوند تعالیٰ کا منکر تو نہیں ہوتا مگر وہ شرک کا ارتکاب کر کے کافر ہی کی طرح ہوجاتا ہے۔ اسی طرح زندیق یا ملحد بھی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ الفاظ ایسے شخص پر بولے جاتے ہیں جو آیات الٰہی اور نصوص کا ایسا مطلب بیان کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہیں ہوتا۔ یہ شخص بھی کافر سے ملتا جلتا ہے۔ اس کے علاوہ مرتد کا لفظ بھی اصطلاح کے طور پر ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے۔ جو عاقل ، بالغ ہے ، اسلام میں داخل ہے اور پھر اسلام چھوڑ کر دہریہ ہوجاتا ہے یا کوئی دوسرا دین اختیار کرلیتا ہے۔ مثلا یہودی ، عیسائی ، ہندو وغیرہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح منافق بھی ایک اصطلاح ہے اور منافق دو قسم کے ہوتے ہیں یعنی اعتقادی اور عملی۔ اعتقادی منافق حضور ﷺ کے زمانہ میں تھے جو ظاہری طور پر کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوجاتے ، نماز پڑھتے اور دیگر اسلامی امور بھی بجا لاتے مگر دل سے نہ تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تصدیق کرتے اور نہ حضور ﷺ کی رسالت کو تسلیم کرتے وہ قرآن پاک کو آسمانی کتاب بھی نہ سمجھتے تھے اکثر جہاد سے گریز کرتے اور کبھی مجبورا شریک بھی ہوجاتے۔ اعتقادی منافقون کے دل میں ہمیشہ کفر بھرا ہوتا ہے اور یہ ابدی جہنمی ہوتے ہیں۔ مدینے کے منافقوں میں عبداللہ بن ابی کا نام سہر فہرست ہے ، یہودیوں میں سے اور بھی بہت سے لوگ منافق تھے۔ منافقوں کی دوسری قسم عملی منافق ہے جس کو اخلاقی منافق بھی کہا جاتا ہے ایسے لوگوں کے دل میں تو ایمان موجود ہوتا ہے اور زبان سے اس کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر اس کی تصدیق نہیں کر پاتے ، گویا ایک چیز کو مانتے ہوئے بھی اس پر عمل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہاں پر قرآن پاک میں جن منافقین کا ذکر باربار آیا ہے ، ان سے مراد اعتقادی منافق ہیں اور یہ کافروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔ نزول کے اعتبار سے سورة توبہ قرآن کی سب سے آخری سورة ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے تمام ضروری باتیں بیان فرمادیں۔ جماعت کی تطہیر کی خاطر یہ مسئلہ خاص طور پر بیان کیا گیا ہے کہ منافقوں کی سازشوں سے خبردارر رہتے ہوئے انہیں اپنی جماعت کا فر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر انہیں قریب کرو گے ، اپنا ہم راز بنائو گے تو نقصان اٹھائو گے۔ اس سوۃ کا ایک نام سورة فاضحہ اسی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں منافقین کا پردہ چاک کر کے انہیں خوب رسوا کیا ہے۔ منافقین کے اوصاف : اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں منافقین کے بعض اوصاف بیان فرمائے ہیں ارشاد ہوتا ہے۔ (آیت) ” المنفقون والمنفقت بعضھم من بعض “ منافق مرد اور منافق عورتیں بعض بعض سے ہیں یعنی ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ تشابہ فی الاخلاق ہے یعنی ایک دوسرے کے ساتھ پوری پوری مشابہت رکھتے ہیں۔ سب کے اخلاق ایک جیسے ہیں۔ جو کام مرد کرتے ہیں وہی عورتیں کرتی ہیں گویا ایک دوسرے کے ہم جنس ہیں۔ اس قسم کی مشابہت کے متعلق خود حضور ﷺ نے بعض آدمیوں کی نسبت فرمایا ” انا منہ وھو منی “ یعنی میں اس سے ہوں اور وہ مجھ سے ہے۔ اس قسم کے الفاظ حضرت جعفر رض ، حضرت علی رض ، امام حسین رض ، اور بعض دیگر صحابہ ؓ کے حق میں آتے ہیں۔ حضور ﷺ نے اشعریوں کے متعلق بھی فرمایا کہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ، یعنی جو صفت میرے اندر پائی جاتی ہے وہی ان میں بھی موجود ہے۔ اس طرح یہاں منافقین کے بارے میں فرمایا ہے کہ مردوزن بعض ان کے بعض سے ہیں یعنی یہ سب اخلاق میں ایک جیسے ہیں اور ایک چال چلتے ہیں۔ فرمایا ان کی صفت یہ ہے (آیت) ” یامروان بالمنکر “ بری بات کی تلقین کرتے ہیں (آیت) ” وینھون عن المعروف “ اور اچھی بات سے منع کرتے ہیں۔ ان کی دلچشپی اور پراپیگنڈا بری بات کے لیے ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ لہو ولعب ، کھیل تماشے فحاشی اور جھوٹی بات کی تلقین کرتے ہیں اور لوگوں کو نیک کام سے روکتے بھی رہتے ہیں مثلا اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ایسا پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ لوگ دین ِحق کو قبول نہ کریں۔ اس کے برخلاف شیطانی کام کی طرف راغب کریں گے جو کہ بہت ہی بری خصلت ہے۔ اللہ نے منافقین کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی (آیت) ” ویقبضون ایدیھم نسوا اللہ فنسیھم “ وہ اپنے ہاتھوں کو سیکڑتے ہیں یعنی بخل سے کام لیتے ہیں انہوں نے اللہ کو فراموش کردیا ہے۔ پس اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے محروم کردیا ہے ، یعنی جہاں مال خرچ کرتے کا موقع آتا ہے ، جہاد کی تیاری ہوتی ہے یا زکوٰۃ وصدقات کی ادائیگی کا موقعہ ہوتا ہے تو ہاتھ روک لیتے ہیں۔ مخل کو بدترین بیماری کہا گیا ہے حضور ﷺ کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا کہ اس میں ایسی ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ مگر وہ بخیل ہے آپ نے فرمایا ” ای داء ادواء من البخل “ یعنی بخل سے بڑھ کر کون سی بیماری ہو سکتی ہے ؟ جو شخص بخیل ہے وہ کسی تعریف کے قابل نہیں ، ترمذی شریف میں ہے کہ بخیل آدمی اللہ سے دور ، مخلوق سے دور اور جنت سے دور ہوتا ہے اور ایسا شخص جہنم سے قریب ہوتا ہے۔ فرمایا (آیت) ” ان المنفقین ھم الفسقون “ منافق لوگ ہی نافرمان ہیں۔ فاسق بھی قرآنی اصطلاح ہے اور اس سے وہ شخص مراد ہے جو ایمان لانے کے باوجود اچھی بات پر عمل نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اور جو شخص مانتا بھی نہیں اور نافرمانی بھی کرتا ہے وہ کافر بھی ہے اور فاسق بھی۔ گویا فاسق کا لفظ عام ہے۔ منافقوں کے لیے سزا : فرمایا (آیت) ” وعداللہ المنفقین والمنفقت والکفار نار جھنم خلدین فیھا “ اللہ نے وعدہ کیا ہے منافق مردوں ، منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ جس طرح کافر ، خدا ، رسول ، کتب سماویہ اور آخرت کے منکر ہیں اسی طرح منافق بھی منکر ہیں اللہ نے ان سے دوزخ کا وعدہ کیا ہے۔ فرمایا (آیت) ” ھی حسبھم “ جہنم میں پہنچنا ہی ان کے لیے کافی ہے ، یہ ان کے لیے بہت بڑی سزا ہے اور اس کے علاوہ (آیت) ” ولعنھم اللہ “ اللہ نے ان پر پھٹکار بھی کی ہے لعنت کا معنی بھی اللہ کی رحمت سے دوری ہے۔ (آیت) ” ولھم عذاب مقیم “ اور ان کے لیے دائمی عذاب ہوگا۔ وہ اس دوزخ اور پھٹکار سے نجات حاسل نہیں کرسکیں گے۔ سابقہ اقوام سے مشابہت :؎ فرمایا ان کی مثال ایسی ہے (آیت) ” کالذین من قبلکم “ جیسا کہ تم سے پہلے لوگ گزرے ہیں۔ وہ بھی ان کی طرح مغرور تھے (آیت) ” کانوا اشد منکم قوۃ “ وہ طاقت میں تم سے زیادہ تھے۔ مکہ والوں کا غرور توڑنے کے لیے بھی اللہ نے انہیں یہی فرمایا تھا (آیت) ” ما بلغوا معشار ما اتینھم “ تمہیں پہلے لوگوں کا عشر عشیر بھی نہیں ملا۔ جو جسمانی قوت اور مال و دولت اللہ نے آشوری ، کلدانی ، بابلی ، ایجنٹا ، الورا اور گندھارا تہذیب کے لوگوں کی دی ، تمہیں تو اس کا دسواح حصہ بھی نہیں ملا۔ اب منافقوں کی بھی یہی بات سمجھائی جا رہی ہے کہ تم سے پہلے لوگ تم سے طاقت میں زیادہ تھے (آیت) ” و اکثر اموالا واولادا اور مال و دولت اور اولاد میں بھی زیادہ تھے (آیت) ” فاستمتعوا بخلاقھم “ پس انہوں نے اپنے حصہ کا فائدہ اٹھایا۔ ان کے لیے اللہ نے اس دنیا میں جتنا حصہ مقرر کیا تھا وہ اس سے مستفید ہوئے مگر آخرت کا خیا ل نہ کیا بلکہ غفلت میں پڑے رہے ، خدا تعالیٰ کو فراموش کردیا۔ اللہ نے فرمایا (آیت) ” فاستمتعتم بخلاقکم “ پس تم بھی اپنے حصے کا فائدہ حاصل کرلو (آیت) ” کما استمتع الذین من قبلکم بخلاقھم “ جیسا کہ ان لوگوں نے اپنے حصے کا فائدہ اٹھایا جو تم سے پہلے تھے۔ (آیت) ” وخضتم کالذین خاضوا “ اور تم بھی باطل باتوں میں گھس گئے جیسا کہ وہ لوگ گھسے تھے ، یعنی جس طرح وہ کھیل کود ، لہو ولعب ، کفر وشرک ، بدعات ، رسوم باطلہ اور حق کی مخالفت میں مصروف تھے اسی طرح تم بھی انہیں امور میں محو ہو ۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے کہ کالذی موصولہ مفرد ہے اور یہ خوض کی طرف جا رہا ہے یعنی جس طریقے سے پہلے لوگ فضولیات میں گھس گئے تھے اسی طرح تم بھی گھس گئے ہو۔ اور بعض فرماتے ہیں کہ کالذی لفظوں میں مفرد ہے مگر معنوں میں جمع ہے اور اس کاروئے سخن ان لوگوں ، قوموں اور گرہوں کی طرف ہے جو باطل میں گھسے تھے مفرد کے بطور جمع استعمال ہونے کی مثال اس عربی شعر میں بھی ملتی ہے ان الذی حانت بقلج دمائھم ھم القوم کل القوم یا ام خالد وہ قوم جن کے خون فلج کے مقام پر گرے ہیں ، وہ بڑے کامل درجے کے لوگ تھے اے ام خالد ! بہرحال یہ لفظ مفرد ہونے کے باوجود جمع کو مطلب بھی دیتا ہے۔ اعمال کا ضیاع : فرمایا (آیت) ” اولئک حبطت اعمالھم فی الدنیا والاخرۃ “ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال ضائع ہوگئے اس دنیا میں اور آخرت میں بھی دنیا میں جس چیز کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے منافقت کا راستہ اختیار کیا ، وحی الٰہی کے ظاہر کردینے کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے ار ان کی ساری کارگزاری ضائع ہوگی۔ اور آخرت میں بھی کفر اور نفاق انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ ان کو نجات نصیب نہیں ہوگی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائیں گے۔ فرمایا (آیت) ” واولئک ھم الخسرون “ اور یہی لوگ ہیں زیاں کار یعنی نقصان اٹھانے والے۔ اگر یہ اپنے سے پہلے لوگوں کے حالات پر غور کرتے تو اس سے عبرت پکڑتے اور خدا تعالیٰ کو فراموش نہ کرتے مگر انہوں نے نفاق اختیار کر کے کچھ فائدہ حاصل نہ کیا۔ سابقہ اقوام کے حالات : اب آگے اللہ تعالیٰ نے بعض پہلی قوموں کا ذکر کیا ہے جن کے واقعات سے منافقین نے کچھ عبرت حاصل نہ کی۔ ا رشاد ہوتا ہے (آیت) ” الم یاتھم نبا الذین من قبلھم “ کیا ان تک ان لوگوں کی خبری نہیں پہنچی جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے پہلی قوموں کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاکت میں ڈال کر ہمارے لیے عبرت کا سامان پیدا کردیا ہے اور یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کی بڑی مہربانی ہے وگرنہ وہ ہمیں بھی ہلاکت میں ڈال کر آئندہ آنے والے لوگوں کے لیے ہمیں بھی باعث عبرت بنانے پر قادر ہے۔ اسی لیے فرمایا ، کیا ان لوگوں کے پاس پہلی قوموں کی خبر نہیں پہنچی اور قومیں کون سی تھیں ؟ فرمایا (آیت) ” قوم نوح “ سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم کا حال دیکھئے۔ انہوں نے نافرمانی کی تو اللہ نے پوری قوم کو پانی میں غرق کردیا۔ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے ہمراہ کشتی میں صرف وہی لوگ بچے جو صاحب ایمان تھے۔ (آیت) ” وعاد وثمود “ قوم عاد اور ثمود کے انجام پر بھی غور کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے کسی پر سخت آندھی بھیج کر ہلاک کیا اور کسی قوم کو زلزلے نے آپکڑا اور چیخ نازل ہوئی۔ ان کے جگر پھٹ گئے ، ہر چیز تہ وبالا ہوگئی اور پوری کی پوری قومیں ہلاک ہوگئیں۔ پھر فرمایا (آیت) ” وقوم ابراہیم “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے حالات پر بھی نظر کریں۔ انہوں نے اللہ کے خلیل کے ساتھ سخت ، بدسلوکی کی اور انہیں ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ آپ کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ مگر کیا وہ ظالم بادشاہ صحیح سلامت رہا ؟ تاریخی کتابوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک مچھر کو مسلط کردیا جو اس کے ناک میں گھس گیا۔ اللہ نے ایسی سزا میں مبتلا کیا کہ مچھر کی تکلیف سے بچنے کے لیے سر پر جوتے مروانے پڑتے ان کی قوم کا حال بھی ایسا ہی ہوا۔ اگرچہ قوم ابراہیم کا تفصیلی ذکر نہیں ملتا تا ہم تباہ شدہ قوموں کی فہرست میں اس قوم کا نام بھی موجود ہے۔ فرمایا (آیت) ” واصحب مدین “ اور مدین والوں کا حال بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ تاجر پیشہ لوگ تھے مگر ناپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے ، اللہ کے نبی نے سمجھانے کی بڑی کوشش کی مگر ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر اللہ نے آسمان سے آگ برسا کر اس قوم کو ہلاک کیا۔ (آیت) ” والمئوتفکت “ اور الٹی بستی والوں کے حال سے بھی عبرت حاصل کرو۔ یہ قوم لوط ہے جو اردن کے رہنے والے تھے۔ اس زمانے میں چار سے چھ لاکھ نفوس پر مشتمل یہ قوم آباد تھی۔ لوط (علیہ السلام) سالہاسال تک تبلیغ کرتے رہے مگر اپنی بیٹیوں کے علاوہ بیوی نے بھی ایمان قبول نہ کیا۔ اس قوم کا حال قرآن میں موجود ہے کہ اس بستی کو الٹ کر پٹخ دیا گیا اور اوپر سے پتھر بھی برسائے گئے۔ ہر پتھر نشان زدہ تھا اور اس پر ہلاک ہونے والے کا نام لکھا ہوا تھا۔ یہ لوگ الٹے کام کرتے تھے تو اللہ نے سزا میں ان کی بستی کو الٹ دیا اور وہ ہلاک کردیے گئے۔ فرمایا کیا ان قوموں کا حال منافقوں کے پاس نہیں پہنچا کہ یہ اس سے عبرت حاصل کرتے۔ مقام عبرت : فرمایا (آیت) ” اتتھم رسلھم بالبینت “ ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے ، اللہ کی طرف سے معجزات لائے اور اللہ کے احکام ان تک پہنچائے مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور آخر کار ہلاک ہوئے فرمایا (آیت) ” فما کان اللہ لیظلمھم “ اللہ نے انہیں ہلاک کر کے ان پر کوئی زیادتی نہیں کی (آیت) ” ولکن کانوا انفسھم یظلمون “ بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ انہوں نے ایسے باطل اعتقادات اختیار کیے اور ایسے برے افعال انجام دیے کہ وہ عذاب الٰہی کے مستحق ہوئے۔ بہرحال پہلی قوموں کا حال بیان کر کے منافقوں کو عبرت دلائی گئی ہے اور جس طرح یہ واقعات منافقوں کے لیے باعث عبرت ہیں اسی طرح ہمارے لیے بھی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے پہلی قوموں کے حالات ہماری عبرت کے لیے بیان فرمائے ہیں اگر ہم بھی غفلت میں پڑے رہیں گے اور عبرت نہیں پکڑیں گے تو کچھ عجب نہیں کہ ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو پہلے لوگوں کے ساتھ ہوا۔
Top