Mufradat-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 29
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ
فَاَقْبَلَتِ : پھر آگے آئی امْرَاَتُهٗ : اس کی بیوی فِيْ صَرَّةٍ : حیرت سے بولتی ہوئی فَصَكَّتْ : اس نے ہاتھ مارا وَجْهَهَا : اپنا چہرہ وَقَالَتْ : اور بولی عَجُوْزٌ : بڑھیا عَقِيْمٌ : بانجھ
تو ابراہیم کی بیوی چلاتی آئی اور اپنا منہ پیٹ کر کہنے لگی (اے ہے ایک تو) بڑھیا اور (دوسرے) بانجھ
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِيْ صَرَّۃٍ فَصَكَّتْ وَجْہَہَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ۝ 29 إِقْبَالُ التّوجّه نحو الْقُبُلِ ، كَالاسْتِقْبَالِ. قال تعالی: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات/ 50] ، وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف/ 71] ، فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ [ الذاریات/ 29] اقبال اور استقبال کی طرح اقبال کے معنی بھی کسی کے رو برو اور اس کی طرف متوجہ ہو نیکے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات/ 50] پھر لگے ایک دوسرے کو رو ور ود ملا مت کرنے ۔ وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف/ 71] ، اور وہ ان کی طرف متوجہ ہوکر صَرَّةٍ والصَّرَّةُ : الجماعة المنضمّ بعضهم إلى بعض كأنّهم صُرُّوا، أي : جُمِعُوا في وعاء . قال تعالی: فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات/ 29] ، وقیل : الصَّرَّةُ الصّيحةُ. الصرۃ جماعت جس کے افراد باہم ملے جلے ہوں گویا وہ کسی تھیلی میں باندھ دیئے گئے ہیں قرآن میں ہے فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات/ 29] ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی چلاتی آئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ صرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ۔ فصکت :عاطفہ وترتیب کے لئے ہے۔ صلت ماضی واحد مؤنث غائب صک ( باب نصر) مصدر بمعنی کوٹنا۔ زور زور سے پیٹنا۔ اس نے پیٹ لیا۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ عجز والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ عقم أصل الْعُقْمِ : الیبس المانع من قبول الأثر «3» يقال : عَقُمَتْ مفاصله، وداء عُقَامٌ: لا يقبل البرء، والعَقِيمُ من النّساء : التي لا تقبل ماء الفحل . يقال : عَقِمَتِ المرأة والرّحم . قال تعالی: فَصَكَّتْ وَجْهَها وَقالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ [ الذاریات/ 29] ، وریح عَقِيمٌ: يصحّ أن يكون بمعنی الفاعل، وهي التي لا تلقح سحابا ولا شجرا، ويصحّ أن يكون بمعنی المفعول کالعجوز العَقِيمِ «4» وهي التي لا تقبل أثر الخیر، وإذا لم تقبل ولم تتأثّر لم تعط ولم تؤثّر، قال تعالی: إِذْ أَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ [ الذاریات/ 41] ، ويوم عَقِيمٌ: لا فرح فيه . ( ع ق م ) العقم اصل میں اس خشکی کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا اثر قبول کرنے سے مانع ہو چناچہ محاورہ ہے عقمت مفاصلتہ ( اس کے جوڑ بند خشک ہوگئے ) داء عقام لا علاج مرض ۔ العقیم ( بانجھ ) عورت کو مرد کا مادہ قبول نہ کرے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ عقمت المرءۃ اولرحم عورت بانجھ ہوگئی یا رحم خشک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : فَصَكَّتْ وَجْهَها وَقالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ [ الذاریات/ 29] اور اپنا منہ لپیٹ کر کہنے لگی کہ ( اے ہے ایک تو بڑھیادوسرے ) بانجھ ۔ اور ریح عقیم ( خشک ہوا ) میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فعیل بمعنی فاعل ہو ۔ یعنی وہ ہوا جو بادلوں کو ساتھ نہیں لاتی یا درخت کو بار دار نہیں اور یہ بھی ہو ہوسکتا ہے کہ فعیل بمعنی مفعول ہو جیسا کہ العجوز العقیم میں ہے اس صورت میں ریح عقیم کے معنی ہوں گے وہ ہوا جو کسی چیز کا اثر اپنے اندر نہ رکھتی ہو چونکہ ایسی ہوا نہ کسی چیز اثر کو قبول کرتی ہے اور نہ کسی سے متاثر ہوتی ہے اس لئے نہ وہ کچھ دیتی اور نہ ہی کسی چیز پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ أَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ [ الذاریات/ 41] جب ہم نے ان پر خشک ہو اچلائی ۔ یوم عقیم سخت دن جس میں کسی قسم کا سامان فرحت نہ ہو ۔
Top