Mutaliya-e-Quran - Al-Muminoon : 4
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِلزَّكٰوةِ : زکوۃ (کو) فٰعِلُوْنَ : ادا کرنے والے
زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں
وَالَّذِيْنَ [ اور وہ لوگ ] هُمْ [ جو ] لِلزَّكٰوةِ [ زکوۃ کے لئے ] فٰعِلُوْنَ [ عمل کرنے والے ہیں ] نوٹ۔ 1: قرآن کریم میں عام طور پر لفظ زکوۃ اصطلاحی معنی میں آتا ہے یعنی مال کا ایک خاص حصہ کچھ شرائط کے ساتھ صدقہ کرنے کو زکوۃ کہتے ہیں ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 4 ۔ میں اس لفظ کے اصطلاحی معنی لینے سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ ہے جبکہ زکوۃ مدینہ میں فرض ہوئی ۔ اس کا جواب ابن کثیر اور دیگر مفسرین کی طرف سے یہ ہے کہ زکوۃ کی فرضیت مکہ ہی میں ہوچکی تھی ۔ سورة مزمل بالاتفاق مکی ہے ۔ اس میں بھی آیت ، اقیموا الصلوۃ اتوالزکوۃ کا ذکر موجود ہے مگر سرکاری طور پر اس کے وصول کرنے کا انتظام اور نصابات وغیرہ کی تفصیلات مدینہ جانے کے بعد جاری ہوئیں ، عام طور پر قرآن کریم میں جہاں زکوۃ کا ذکر آیا ہے تو اس کو فعل اتی ، یؤتی کے کسی صیغہ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے لیکن یہاں عنوان بدل کر للزلوۃ فاعلون فرمانا اس کا قرینہ ہے کہ یہاں زکوۃ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں ہے ۔ اس بنیاد پر بعض مفسرین نے اس جگہ زکوۃ کا مضمون عام لغوی معنی میں اپنے نفس کو پاک کرنا قرار دیا ہے ۔ (معارف القرآن ) اس جگہ پر زکوۃ کے ساتھ فاعلون کے لفظ سے میرا ذہن اس کے ایک پہلو کی طرف منتقل ہوتا ہے جو آج کل ہم لوگوں کے ذہن سے بڑی حد تک اوجھل ہوچکا ہے ۔ اس کے نتیجے میں کچھ ایسی NGOs اور فلاحی ادارے وجود میں آگئے ہیں جو ناچ گانے کی محفلیں اور کلچرل شو منعقد کرکے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں ، پھر رمضان میں زکوۃ لینے اور بقر عید میں قربانی کی کھالیں جمع کرنے بھی آجاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ لوگ زکوۃ کے پیسے خرچ کرتے وقت اس کے ان مصارف کا خیال رکھیں گے جن کا فیصلہ اللہ نے کسی نبی یا رسول پر بھی نہیں چھوڑا بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کا تعین فرمایا ۔ (دیکھیں سورة توبہ ۔ آیت ۔ 60 کا نوٹ ۔ 1) اس لئے ضروری ہے کہ اس جگہ پر زکوۃ کے ساتھ فاعلون لانے کی اہمیت کے مذکورہ پہلو کو سمجھ کر ہم لوگ ذہن نشین کرلیں ۔ اتی ، یؤتی ، ایتاء کے اصل معنی ہیں کسی چیز کو کسی تک پہنچا نا ۔ پھر دینا یا ادا کرنا اس کے مجازی معنی ہیں ۔ قرآن مجید میں زکوۃ کے ساتھ بالعموم اسی لفظ کا کوئی صیغہ یا فعل امر استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے ہم سے کہا ہے کہ ہم خود زکوۃ کو مستحقین تک پہنچائیں ۔ اب ظاہر ہے ۔ یہ ایک کام ہے اور اس عمل کا تقاضہ کرتا ہے کہ مستحقین کو تلاش کیا جائے ۔ پھر ان سے رابطہ کیا جائے اور زکوۃ ان کو پہنچائی جائے ۔ اس فرض کی ادائیگی کے اس پہلو کو اجاگر کرنے کے لئے غالبا اس جگہ پر زکوۃ کے ساتھ فاعلون کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ (واللہ اعلم) پہلے اسلامی حکومتیں اس عمل کا تقاضہ پورا کرتی تھیں اس لئے ان کے کارندوں کو لوگ زکوۃ ادا کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے تھے ۔ لیکن آج کل اسلامی جمہوریہ پر اس ضمن میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے ہمارے لئے محفوظ ترین راستہ یہ ہے کہ ہم خود زکوۃ ایسے مستحقین کو دین جن کو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں ۔ اگر کسی ادارے کو دینا ہو تو کم از کم اتنا ضرور دیکھ لیں کہ وہ لوگ زکوۃ خرچ کرنے کے مسائل سے واقف ہوں، ان کا پورا لحاظ رکھتے ہوں اور اس ضمن میں روشن خیال نہ ہوں ، اتنا سا تردد کئے بغیر ہی اگر ہم کسی ادارے کو زکوۃ دیتے ہیں تو یہ زکوۃ پھینکنے والی بات ہے ۔ زکوۃ پہنچانے والی بات نہیں ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ دنیا میں ہم سمجھتے رہیں کہ ہم نے زکوۃ ادا کردی ہے اور میدان حشر میں پتہ چلے کہ ادا تو کی تھی لیکن پہنچائی نہیں تھی ۔ اللہ تعالیٰ ایسے پچھتاوے سے ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔
Top