Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 4
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِلزَّكٰوةِ : زکوۃ (کو) فٰعِلُوْنَ : ادا کرنے والے
اور وہ جو زکوٰۃ ادا کرتے رہنے والے ہیں
وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ ۔ (المومنون : 4) (اور وہ جو زکوٰۃ ادا کرتے رہنے والے ہیں۔ ) زکوٰۃ دوسرا ستون ہے اصحابِ ایمان کی تیسری صفت زکوٰۃ کی صورت میں بیان کی جارہی ہے۔ قرآن کریم میں ہم دیکھتے ہیں کہ پروردگار نے مسلمانوں کی تعمیرِ کردار، شیرازہ بندی، اللہ تعالیٰ اور دین سے گہری وابستگی اور انتہا درجے کا نظم وضبط، پیدا کرنے کے لیے نماز کا جابجا حکم دیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں بیشتر مواقع پر نما ز کے ساتھ زکوٰۃ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین کا دوسرا ستون ہے۔ انبیائے کرام کی دعوتی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم نے بالعموم یہ بات ضرور کہی ہے کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے یعنی نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر ضرور کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسانی کمزوریوں میں ہوائے نفس نے جو مظاہر پیدا کیے ہیں اس کی اکثر صورتوں کا علاج تو نماز سے ہوجاتا ہے۔ لیکن جہاں تک حبِّ مال اور اس کے نتیجے میں انسانی حقوق سے لاپرواہی بلکہ بےرحمی اور شقاوت کا تعلق ہے اسے دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا حکم دیا ہے کیونکہ جو شخص زکوٰۃ کی حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرتا ہے وہ مال کی محبت میں غیر متوازن نہیں ہوتا۔ اسی طرح مالی طور پر محتاج لوگوں کی جو ضرورتیں امراء کی دولت سے متعلق ہیں ان سے صرف نظر نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ جس طرح اپنے دل و دماغ اور اعضاء وجوارح کی ترجیحات کا جواب اللہ کے سامنے دینا ہے اسی طرح بندوں کے حقوق اور ان کے تعلق کے حوالے سے بھی سخت باز پرس کا اندیشہ ہے اور اسلام کا اصل حسن ہی یہ ہے کہ وہ جس طرح اپنے ماننے والوں کو اللہ کے آستانے پر جھکا کر اللہ کے دامن سے وابستہ کردیتا ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کے ذریعے مالداروں کو غریبوں کے ساتھ مربوط بھی کرتا ہے۔ اس طرح ایک مسلمان خلق اور خالق دونوں سے صحیح بنیادوں پر اپنے تعلق کو استوار کرلیتا ہے۔ زکوٰۃ سے مراد انفاق فی سبیل اللہ ہے یہ سورة چونکہ مکی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ زکوٰۃ قانونی اور اصطلاحی حیثیت سے مدینہ منورہ میں فرض ہوئی۔ اس لیے اس سورة میں زکوٰۃ کا لفظ اصطلاحی معنوں میں مراد نہیں لیا جاسکتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن کریم نے مکی سورتوں میں بھی بیشتر مواقع پر زکوٰۃ کا ذکر فرمایا اور اس کی ترغیب بھی دی تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد اصطلاحی زکوٰۃ نہیں بلکہ انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ جس طرح نماز باجماعت اجتماعیت کی روح اور اللہ سے مضبوط تعلق کو پیدا کرتی ہے اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ غریبوں اور امیروں کو اجتماعیت کا درس دیتا اور باہمی روابط کو مضبوط کرتا ہے۔ اگر چند آدمی اکٹھے بیٹھ کر اللہ کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان میں سے صاحب استطاعت غریب اور محتاج کو اپنے کھانے میں شریک نہیں کرتے تو ان کے اندر حقیقی وحدت پیدا نہیں ہوسکتی اور وہ کبھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتے کہ ہم ایک امت کے افراد ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے اعضاء کی مانند ٹھہرا یا ہے۔ اس لیے یہاں انفاق فی سبیل اللہ اصحابِ ایمان کی صفت کے طور پر بیان فرماکر ان کی حقیقی قوت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ زکوٰۃ کا ایک اور مفہوم بعض اہل علم کا گمان یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں اصحابِ ایمان کے لیے صفت کے طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو قرآن کریم کے مختلف مواقع پر مستعمل الفاظ یُؤْ تُوْنَ الزَّکٰوۃَ کی صورت میں اس صفت کو ذکر فرمایا جاتا۔ نئی تعبیر اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ جبکہ دونوں تعبیروں کے معنی میں بہت اختلاف ہے۔ پیش نظر تعبیر میں معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کو بطور مصدر کے استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اصحابِ ایمان وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے لیے کوشش کرنے والے لوگ ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ زکوٰۃ کے طریقے پر عمل کرنے والے لوگ ہیں۔ زکوٰۃ کا لفظی معنٰی ” پاک اور صاف کرنا “ ہے۔ عربی زبان میں زکوٰۃ کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے۔ ایک ہے ” پاکیزگی “ اور دوسرا ہے ” نشو و نما “۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ صاحب ایمان اپنے ایمان کے جوہر کو جب ترقی دینا چاہتا ہے تو کچھ قوتیں ہیں جو اس کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ ہوائے نفس اپنا زور لگاتی ہے، مفادات کی ماری ہوئی عقل اپنے لیے راستہ نکالنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر شخص کے دل میں بیٹھی ہوئی مفادات کی ہوس پائوں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ جو شخص ایمان کے مطابق اپنی زندگی کو اس راستے پر چلانا چاہتا ہے جس کی طرف اس کا ایمان راہنمائی کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے ان رکاوٹوں سے اپنے ایمان کو پاکیزہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے زکوٰۃ کا تعلق صرف مال و دولت سے نہیں بلکہ نفس، اخلاق، زندگی اور ایسی ہی دوسری ہی چیزوں سے بھی ہے۔ ان تمام کو اس جوہرِ ایمان سے آراستہ کرنا اور مخالف قوتوں سے ان کو بچانا بلکہ انھیں ان کے سامنے زیر کردینا یہ پہلا مرحلہ ہے جس سے ایمان کا راستہ آسان ہوجاتا ہے اور دوسرا معنی ہے جوہرِ ایمان کو نشو و نما دینا۔ یعنی قرآن وسنت سے ایمان کے جو تقاضے ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک ایک کو جلا دینا اور پروان چڑھانا ہے۔ اس میں فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ قیام لیل اور دن کی مختلف نمازیں بھی شامل ہیں۔ فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانا ہے۔ اپنے باطن کی صفائی کے لیے صیام رمضان کے ساتھ ساتھ نفلی روزوں کی عادت ڈالنا بھی ہے۔ لوگوں کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ہر طرح کی مروت، ہمدردی اور غمگساری بھی شامل ہے۔ جس میں عیادتِ مریض بھی ہے، حقِ ہمسائیگی بھی ہے، حقِ قرابت بھی ہے، گرے ہوئے لوگوں کی ہر طرح مدد کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ اس لحاظ سے یہ اصلاح کا ایک وسیع سلسلہ ہے جس میں اپنی ذات، اپنے احباب، اپنے اقربا اور گردوپیش کی ساری زندگی شامل ہے۔ ان تمام کو لادینیت اور بدعملی کی آلائشوں سے پاک کرنا اور اسلامی اقدار اور ایمانی انوار کو فروغ دینا اصحابِ ایمان کی وہ صفت ہے جسے زکوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
Top