Mutaliya-e-Quran - Al-Ankaboot : 44
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اِنْ تُطِيْعُوا : اگر تم اطاعت کرو الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دیں گے تم کو عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ : اوپر تمہاری ایڑیوں کے فَتَنْقَلِبُوْا : تو لوٹ جاؤ گے تم۔ پلٹ جاؤ گے تم خٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے ہوکر
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اُن لوگوں کے اشاروں پر چلو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے
[یٰٓــاَیـُّــھا الَّذِیْنَ : اے لوگو ! جو ] [اٰمَنُوْآ : ایمان لائے ] [اِنْ تُطِیْعُوا : اگر تم لوگ اطاعت کرو گے ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کی جنہوں نے ] [کَفَرُوْا : کفر کیا ] [یَرُدُّوْکُمْ : تو وہ لوگ لوٹا دیں گے تم کو ] [عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ : تمہاری ایڑیوں پر ] [فَتَنْقَلِبُوْا : نتیجتاً تم لوگ پلٹو گے ] [خٰسِرِیْنَ : خسارہ اٹھانے والے ہوتے ہوئے ] ر ع ب رَعَبَ (ف) رَعْبًا : خوف زدہ ہونا ‘ ڈرنا۔ رُعْبٌ (اسم ذات) : خوف ‘ ہیبت ‘ دہشت۔ (آیت زیر مطالعہ) س ل ط سَلِطَ (س) و سَلُطَ (ک) سَلَاطَۃً : کسی پر غلبہ حاصل کرنا ‘ مسلط ہونا۔ سُلْطَانٌ (فُعْلَانٌ کے وزن پر مبالغہ) : متعدد معانی میں آتا ہے : (1) زبردست قوت (2) اختیار ‘ غلبہ۔ (3) قطعی دلیل ‘ سند۔{ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْاط لَا تَنْفُذُوْنَ اِلاَّ بِسُلْطٰنٍ ۔ } (الرحمٰن) ” اگر تم لوگوں میں استطاعت ہے کہ تم لوگ نکلو آسمانوں اور زمین کی قطاروں سے تو نکلو۔ تم لوگ نہیں نکلو گے مگر کسی قوت سے۔ “ { وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلاَّ اَنْ دَعَوْتُـکُمْ } (ابرٰھیم :22) ” اور نہیں تھا میرے لیے تم لوگوں پر کسی قسم کا کوئی اختیار سوائے اس کے کہ میں نے دعوت دی تم لوگوں کو۔ “ سَلَّطَ (تفعیل) تَسْلِیْطًا : کسی کو کسی پر اختیار دینا ‘ غلبہ دینا۔ { وَّلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ ط } (الحشر :6) ” اور لیکن اللہ غلبہ دیتا ہے اپنے رسولوں کو اس پر جس پر وہ چاہتا ہے۔ “ ء و ی اَوٰی (ض) اِوَائً : کسی کے ساتھ ُ جڑ جانا ‘ ضم ہوجانا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں آتا ہے۔ کسی جگہ اترنا ‘ پناہ لینا وغیرہ۔ { سَاٰوِیْ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَـآئِط } (ھود :43) ” میں ٹھہروں گا کسی پہاڑ پر وہ بچالے گا مجھ کو پانی سے۔ “ مَاْوًی (اسم الظرف) : اُترنے یا ٹھہرنے کی جگہ ‘ منزل ‘ پناہ گاہ۔ (آیت زیر مطالعہ) اٰوٰی (افعال) اِیْوَائً : ٹھہرانا ‘ جگہ دینا۔ { وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَـیْہِ اَخَاہُ } (یوسف :69) ” اور جب وہ لوگ داخل ہوئے یوسف (علیہ السلام) کے پاس تو انہوں نے جگہ دی اپنے پاس اپنے بھائی کو۔ “ ث و ی ثَـوٰی (ض) ثَوَائً : کسی جگہ مستقل قیام کرنا ‘ ٹھکانہ بنانا۔ ثَاوٍ (اسم الفاعل) : قیام کرنے والا۔ { وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِیْ اَھْلِ مَدْیَنَ } (القصص :45) ” اور آپ ﷺ قیام کرنے والے نہیں تھے اہل مدین میں۔ “ مَثْوًی (اسم الظرف) : مستقل قیام کرنے کی جگہ ‘ ٹھکانہ۔ (آیت زیر مطالعہ) ترکیب :” اِنْ “ کا جواب شرط ” یَرُدُّوْکُمْ “ ہے۔ ” فَتَنْقَلِبُوْا “ کا ” فا “ سببیہ ہے۔ ” خٰسِرِیْنَ “ حال ہے۔ ” مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطَنًا “ یہ پورا جملہ ” اَشْرَکُوْا “ کا مفعول ہے۔ ” یُنَزِّلْ “ کی ضمیر فاعلی اللہ کے لیے ہے۔
Top