Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 149
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اِنْ تُطِيْعُوا : اگر تم اطاعت کرو الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دیں گے تم کو عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ : اوپر تمہاری ایڑیوں کے فَتَنْقَلِبُوْا : تو لوٹ جاؤ گے تم۔ پلٹ جاؤ گے تم خٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے ہوکر
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم ان لوگوں کے اشارے پر چلوگے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹاپھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہوجاؤگے۔
آیات کے اس مجموعے کو اگر گہری نظر سے دیکھاجائے تو یہ اپنے اندر زندگی سے بھرپور مناظر کی ایک بڑی مقدار کو لئے ہوئے ہے اور ان مناظر کے علاوہ انسانی زندگی اور اسلامی تصور حیات دونوں کے نہایت ہی اساسی حقائق اس میں ثبت کئے گئے ہیں ۔ نیز اس میں کائنات کے بعض اٹل اصول بھی بیان کئے گئے ہیں ۔ جہاں تک اس معرکہ کا تعلق ہے ‘ اس کی جھلکیاں زندگی سے بھرپور ‘ بڑی تیزی کے ساتھ اور بڑی گہرائی کے ساتھ پیش کی گئی ہیں ‘ اس معرکے کا کوئی اہم پہلو نہیں چھوڑا گیا اور وہ اس انداز میں فلم بند ہوا ہے کہ اسے پڑھ کر شعور اور جذبات میں ایک طلاطم برپا ہوجاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری طرح زندہ ‘ جزئیات پر مشتمل فضائے جنگ اور اس کے حالات وواقعات ان میں ریکارڈ کئے گئے ہیں ۔ اس کے اندر انسانی ضمیر میں پیدا ہونے والے خلجان اور شعوری اور لاشعوری حرکات کی طرف بھی اشارے کئے گئے ہیں ۔ جن کی وجہ سے سیرت النبی کی مفصل کتابوں میں بیان کردہ تمام واقعات مستحضر ہوجاتے ہیں اور اس تبصرے کے نتیجے میں اسلامی تصور حیات کے اصلی حقائق ‘ زندہ شکل میں ‘ حرکت کرتے ہوئے اور مسلمانوں کے لئے صحیح تصور حیات تعمیر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اس معرکے کے تمام مشاہدات اور پورے حقائق کو الفاظ وفقرات کی اس مختصر مقدار میں ‘ زندگی سے بھرپور انداز میں ‘ حرکات اور اشارات کے اس مخصوص انداز میں ثبت کردینا ‘ کسی انسانی تعبیر کے لئے نہ ممکن ہے اور نہ ہی تاریخ آداب انسانی میں اس کی کوئی مثال ہے اور اس کا ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جسے اسلوب ادا کے اسرار اور انسان کی قوت ادا کی حدود کا علم ہوتا ہے ‘ خصوصاً وہ لوگ جن کو مشکل تعبیرات سے واسطہ پڑتا ہے اور جو فن تعبیر میں درک رکھتے ہیں۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ (149) بَلِ اللَّهُ مَوْلاكُمْ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ ” اے لوگوجو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم ان لوگوں کے اشاروں پر چلوگے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے تو تم نامراد ہوجاؤگے ۔ حقیقت یہ ہے اللہ ہی تمہارا حامی و مددگار ہے اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے ۔ “ جنگ احد میں مسلمانوں کو جو شکست ہوئی ‘ ایک بڑی تعداد ماری گئی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی ۔ اس سے مدینہ کے کفار ‘ منافقین اور یہودیوں کو یہ موقعہ مل گیا کہ وہ از سر نو اٹھیں اور مسلمانوں کو حضرت محمد ﷺ کا ساتھ دینے کے نتائج سے ڈرائیں ۔ انہیں جنگ کی ہولناکیوں سے آگاہ کریں اور خصوصاً مکہ کے مشرکین اور قریش کے حلفاء کے ساتھ مزید معرکہ آرائی کے نتائج سے انہیں خائف کریں ۔ ظاہر ہے کہ شکست وریخت کی یہ فضاء دلوں و متزلزل کرنے ‘ اسلامی صفوں کو منتشر کرنے اور اسلامی قیادت کے خلاف بداعتمادی پیدا کرنے اور اپنے مقابلے میں زیادہ طاقتور قوتوں کے ساتھ ٹکرانے پر اصرار کرنے کی پالیسی کو جاری رکھنے کے فوائد کو مشکوک بنانے اور اس پالیسی سے نکل آنے کی افادیت ظاہر کرنے ‘ اور کامیاب ہونے والوں کے ساتھ مصالحت کی احادیث ظاہر کرنے اور اس سلسلے میں انفرادی درد وغم کو برانگیختہ کرنے کے لئے بہت زیادہ موزوں تھی ۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ اس فضا سے فائدہ اٹھاکر اسے جماعت مسلمہ کی بیخ کنی کے لئے استعمال کیا جائے ۔ اس کے بعد اسلامی نظریہ حیات کی بیخ کنی تک اسے پہنچایا جائے اور اہل اسلام کو اس پر آمادہ کرلیا جائے کہ وہ اپنے سے قوی لوگوں کے سامنے جھک جائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر سے سخت الفاظ سے ڈرا کر منع فرمایا کہ وہ پالیسی کے معاملات میں اہل کفر کی اطاعت نہ کریں۔ اس معاملہ میں اگر وہ ان کی پیروی کریں گے تو اس کا نتیجہ لازماً خسارے کی شکل میں سامنے آئے گا ۔ اس میں کوئی نفع اور کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ البتہ یہ ہوگا کہ وہ الٹے پاؤں پھر دوبارہ کفر میں داخل ہوجائیں گے ۔ مومن کے لئے دوہی راستے ہیں ‘ یا تو وہ کفر اور اہل کفر کے ساتھ مسلسل برسر جنگ رہے گا ‘ باطل اور اہل باطل کے ساتھ برسر پیکار رہے گا اور یا پھر الٹے پاؤں پھر کر مرتد ہوجائے گا ۔ نعوذ باللہ منھا۔ ان دونوں راستوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے کہ وہ علیحدہ ہو کر غیر جانبدار کھڑا ہوجائے ‘ بین بین رہے اور اپنے موقف پر بھی جما رہے اور اپنے دین کی حفاظت کررہا ہو ۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی سوچ میں یہ بات آتی ہو خصوصاً اس معرکے میں شکست کی فضا میں ‘ چوٹ اور زخم کھاکر وہ یہ سوچ رہا ہو کہ مومن کے لئے ممکن ہے کہ وہ غالب قوتوں کے ساتھ اس معرکہ آرائی سے نکل آئے ‘ ان کے ساتھ مصالحت کرے ‘ ان کی پیروی کرے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دین کی حفاظت بھی کرتا ہو ‘ اس کا عقیدہ اپنی جگہ درست ہو ‘ اس کا ایمان قائم ہو ‘ اس کا وجود بھی قائم رہے لیکن یہ سوچ ایک خطرناک واہمہ ہے اس لئے کہ وہ حق و باطل کے اس معرکے میں جو آگے نہیں بڑھتا وہ لازماً پیچھے کو پلٹتا ہے ۔ اور جو شخص کفر ‘ شر ‘ باطل ‘ گمراہی اور نافرمانی کے خلاف جدوجہد نہیں کرتا وہ لازماً ذلیل و خوار ہوگا ‘ الٹے پاؤں پھرے گا اور کفر ‘ شر ‘ گمراہی ‘ باطل اور نافرمانی میں داخل ہوجائے گا ۔ جسے اس کا ایمان نہ بچاسکے گا ‘ اس کا نظریہ حیات نہ بچاسکے گا ‘ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ کفار کی پیروی کررہا ہو ‘ ان کی بات سن رہا ہو اور ان پر اعتماد کررہا ہو تو درحقیقت اس شخص نے اپنے ایمان اور نظریہ حیات کا موقف چھوڑ دیا ہے ۔ وہ روحانی طور پر شکست کھاچکا ہے کیونکہ جب ایک نظریاتی شخص اپنے مخالفین کے سامنے جھکتا ہے تو وہ روحانی طور پر ٹوٹ چکا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اب وہ ان کی وسوسہ اندازی سے متاثر ہوتا ہے۔ ان سے ہدایات لیتا ہے ۔ یہی تو ہے شکست ۔ اب کسی بھی وقت دوبارہ عقیدہ کفر کی طرف پلٹ سکتا ہے ۔ اسے اس اخری شکست سے بچانے والا کوئی نہیں ہے ۔ اگرچہ ابتدا میں اسے احساس نہیں ہوتا کہ وہ ایک ایسی راہ پر پڑگیا ہے جس کا انجام حسرتناک ہوگا۔ صحیح مومن تو وہ ہوتا ہے جو اپنے عقیدے اور اپنی قیادت کی وجہ سے اپنے نظریاتی دشمنوں اور اپنی قیادت کے دشمنوں سے بےنیاز ہوجاتا ہے اور جب بھی وہ ان دشمنوں کی طرف کان دھرے گا گویا اس نے الٹے پاؤں سفر کا آغاز کردیا ہے ۔ یہ ایک فطری حقیقت اور عملی حقیقت ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے اہل ایمان کو آگاہ فرماتے ہیں ‘ متنبہ کرتے ہیں اور پکارتے ہیں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ…… ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم ان لوگوں کے اشاروں پر چلوگے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہوجاؤگے ۔ “ اس سے بڑا خسارہ کیا ہوسکتا ہے کہ انسان الٹے پاؤں پھرے اور ایمان کے بعد کفر کی راہ کو از سرنو اختیار کرے ۔ اگر ایمان چلاجائے تو پھر کون فائدہ اس کی کمی کو پورا کرسکتا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ تم کفار کی طرف مائل اس لئے ہوسکتے ہو کہ تم ان سے حمایت کی امید رکھتے ہو گے اور یہ کہ ان کو اس وقت فتح حاصل ہے ۔ یہ بہت بڑا وہم ہے جس میں تم مبتلا ہو ‘ اس لئے اس وہم کو رد کرنے کے لئے اچانک روئے سخن اس طرف مڑتا ہے کہ منبع نصرت وحمایت کہاں ہے بَلِ اللَّهُ مَوْلاكُمْ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ……………” حقیقت یہ ہے کہ تمہارا حامی و مددگار صرف اللہ ہے اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔ “ مسلمانوں کی ولایت کا مرجع اللہ ہے ۔ وہ اسی سے نصرت طلب کرسکتے ہیں اور جس کا مددگار اللہ ہو تو اسے کسی دوسرے مددگار کی ضرورت کیا رہتی ہے ؟ جس کا ناصر اللہ ہو اسے بندوں کی جانب سے کسی نصرت کی ضرورت ہی کیا ہے ؟
Top