Al-Qurtubi - Hud : 100
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْقُرٰى نَقُصُّهٗ عَلَیْكَ مِنْهَا قَآئِمٌ وَّ حَصِیْدٌ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ الْقُرٰي : بستیوں کی خبریں نَقُصُّهٗ : ہم یہ بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ پر (کو) مِنْهَا : ان سے قَآئِمٌ : قائم (موجود) وَّحَصِيْدٌ : کٹ چکیں
یہ (پرانی) بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض کا تہس نہس ہوگیا۔
آیت نمبر 100 تا 109 قولہ تعالیٰ : ذٰلک من انۘبآء القرٰی نقصہ علیک، ذٰلکمبتدا کے مضمر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے یعنی الامرذالک اور اگر آپ چاہیں تو اسے مبتدا کی حیثیت سے بھی مرفوع بناسکتے ہیں۔ معنی یہ ہوگا : یہ گزشتہ خبر ان بستیوں کی بعض خبروں میں سے جو ہم آپ سے بیان کررہے ہیں۔ منھاقآئم وحصیدحضرت قتادہ نے کہا : قائم سے مراد وہ ہیں جو برباد ہوچکی ہی اور ان کے نشانات ہیں جب کے حصید سے مراد ویہ ہیں جن کا کوئی نشان باقی نہیں ہے۔ ایک قول یہ ہے : قائم سے مراد آباد ہیں جب کہ حصید سے مراد بےآباد اور برباد ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ مجاہد نے کہا : قائم سے مراد وہ ہیں جو اپنے سازو سامان سمیت بربادہوچ کی ہیں اور حصید سے مراد کھیتی کی طرح کٹی ہوئی ہیں۔ شاعر نے کہا : والناس فی قسم المنیۃ بینھم کالزرع منہ قائم و حصید لوگ اپنے اندر موت کی تقسیم میں کھیتی کی طرح ہیں اس میں سے کچھ ہے اور کٹی ہوئی ہے۔ دوسرے شاعر نے کہا : إنما نحن مثل خامۃ زرعٍ فمتی یأن یأت مختصدہ اخفش سعید نے کہا : حصید سے مراد محصود ہے یعنی فعیلبمعنی مفعول اور اس کی جمع حصدی اور حصادآتی ہے جیسے مرضی اور مراض۔ اخفش ہی نے کہا : ذوی العقول کے لیے جمع حصدیآتا ہے جیسے قتیل اور قتلی۔ وماظلمنٰھم لغت میں ظلم کی اصل کسی چیز کو ایسی جگہ رکھنا ہے کو اس کا مقام نہ ہو۔ سورة بقرہ میں یہ تفصیلاً گزرچکا ہے۔ ولٰکن ظلموٓاانفسھم یعنی کفر اور گناہوں کے ذریعے۔ اور سیبویہ نے حکایت کہا ہے کہ ظلم ایاہ کہا جاتا ہے۔ فمآ اغنت یعنی نہ دور کیا۔ عنھم اٰلھتھم التی یدعون من دون اللہ من شیءٍکلام میں حذف ہے، یعنی التی کانوا یدعون اور یدعونکا معنی یعبدون ہے یعنی وہ عبادت کرتے تھے۔ لماجآء امرربک ؕ ومازادوھم غیرتثبیب، کا معنی خسارہ اور بربادی ہے، یہ مجاہد اور قتادہ کا قول ہے۔ لبید نے کہا : قفد بلیت وکل صاحب جدۃ لبلی یعود و ذاکم التتبیب تتبیبٍکا معنی ہلاکت، خسران اور بربادی ہے۔ آیت میں اضمار ہے، یعنی مازادتھم عبادۃ الاصنام غیر تتبیب مضاف کو حذف کردیا گیا مراد یہ ہے کہ ان کے بتوں کی پوجا کرنے نے آخرت کے ثواب کو ضائع کردیا۔ وکذٰلک اخذربک اذآاخذالقرٰی یعنی جس طرح قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود کی بستیوں کو پکڑ لیا گیا اسی طرح تمام ان بستیوں کو پکڑا جائے گا جن کے باسی ظالم ہیں۔ عاصم حجددی اور طلحہ بن مصرف نے وکذالک أخذربک إذاخذالقری پڑھا ہے اور حجدری سے جماعت کی قراءت کی طرحوکذٰلک اخذربک اذآاخذالقرٰیبھی مروی ہے۔ مہدوی نے کہا : جس نے وکذالک أخذربک إذاخذپڑھا ہے تو یہ گزشتہ قوموں کی ہلاکت و بربادی کے سلسلہ میں جو عادت ہے اس کے متعلق خبر ہوگی اور معنی یہ ہوگا : اور اسی طرح تیرے رب نے ہلاک ہونے والی قوموں میں سے جس کو بھی پکڑا اسے پکڑا۔ اور جماعت کی قراءت اخذ کے مصدر ہونے کی بنیاد پر ہے اور معنی یہ ہے : اسی طرح تیرا رب جسے ہلاک کرنا چاہے اس کی پکڑ ہوتی ہے جب بھی وہ اسے پکڑلے۔ اذگزشتہ زمانے کے لیے آتا ہے جب کہ اذامستقبل کے لیے آتا ہے۔ وھی ظالمۃ یعنی اس کے اھلظالم ہیں۔ مضاف کو مضاف کردیا گیا جیسے وسئل القریۃ (یوسف :82) مرادواسأل اھل القریۃ ہے۔ ان اخذہٓ الیم شدید یعنی مشرکین کو اس کی طرف سے ملنے والی سزا دردناک اور سخت ہے۔ صحیح مسلم اور ترمذی میں حضرت ابوموسیٰ ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے حتی کہ جب اسے پکڑتا ہے تو اسے نہیں چھوڑتا “۔ پھر آپ نے کذٰلک اخذربک اذآاخذالقرٰیکی تلاوت فرمائی۔ ابوعیسیٰ ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ان فی ذٰلک الاٰیۃًآیت سے مراد عبرت اور نصیحت ہے۔ لمن خاف عذاب الاٰخرۃ اس کے لیے جو عذاب آخرت سے ڈرتا ہے۔ ذٰلک یومیہ مبتدا اور خبر ہیں۔ مجموع یوم کی صفت ہے۔ لہ الناس مجموعکا نائب فاعل ہے، اسی وجہ سے مجموعون نہیں فرمایا گیا۔ اگر آپ الناسکو مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع مانیں اور مجموع لہکو بطور خبر تو پھر مجموعونہونا چاہے، کیونکہ لہفاعل کے قائم مقام ہے اور جمع سے مراد حشر ہے یعنی اس دن کے لیے جمع کیے جائیں گے۔ وذٰلک یوم مشھود یعنی نیک اور بدکار اس کی گواہی دیتا ہے اور آسمان والے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اور ہم (قرطبی) نے یہ دونوں اسماء اور ان کے علاوہ قیامت کے دیگر اسماء کو کتاب ” التذکرہ “ میں ذکر کیا ہے اور ان دونوں کی وضاحت کی ہے۔ والحمد للہ قولہ تعالیٰومانؤخرہٓیعنی اس دن کو ہم مؤخر نہیں کریں گے الالاجلٍ معدودٍیعنی اس مدت کے لیے جس کے متعلق ہمارا فیصلہ ہوچکا ہے، وہ ہمارے نزدیک معدود ہے۔ یوم یاتیاس کو یوم یات بھی پڑھا گیا ہے کیونکہ جب یا کا ماقبل مسکور ہو تو یا کو حذف کردیا جاتا ہے، جیسے آپ لا ادر کہتے ہیں۔ اس کو قشیری نے ذکر کیا ہے۔ نحاس نے کہا : اہل مدینہ، ابوعمرو اور کسائی نے ادراج کی صورت میں یا کے اثبات کے ساتھ پڑھا ہے اور وقف کی صورت میں اسے حذف کردیا ہے۔ اور حضرت ابی اور حضرت ابن مسعود ؓ نے وقف و وصل دونوں صورتوں میں یوم یاتییا کے اثبات کے ساتھ ہی پڑھا ہے۔ اعمش اور حمزہ نے وقف ووصل میں بغیر یا کے یوم یاتپڑھا ہے۔ ابوجعفر نحاس نے کہا : اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر وقف نہ کیا جائے اور یا کے اثبات کے ساتھ وصل کیا جائے۔ کیونکہ نحویوں کی ایک جماعت نے کہا ہے : یا کو حذف نہ کیا جائے اور بغیر جازم کے کسی چیز کو جزم نہ دی جائے، جہاں تک بغیر یا کے وقف کی بات ہے تو اس میں کسائی کا قول ہے۔ اس نے کہا : اس کی وجہ یہ ہے کہ فعل سالم پر مجزوم کی طرح وقف کیا جاتا ہے لہٰذا یا کو حذف کردیا جائے گا جس طرح ضمہ کو حذف کردیا جاتا ہے اور جہاں تک حمزہ کی قراءت کا تعلق ہے تو وصل وقف میں یا کے حذف پر ابوعبید نے دو دلیلیں ذکر کی ہیں۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ ان کا خیال ہے کہ انہوں نے مصحف عثمان ؓ میں اس کو بغیر یا کے دیکھا ہے۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ انہوں نے حکایت کی ہے کہ یہ ہذیل کی لغت ہے وہ ما ادرکہتے ہیں۔ نحاس نے کہا : ان کی جو مصحف عثمان ؓ والی دلیل ہے یہ تو ایسی دلیل ہے جس کو اکثر علماء نے رد کیا ہے۔ حضرت مالک بن انس (رح) نے کہا : میں نے مصحف عثمان ؓ کے بارے میں پوچھا تو مجھے کہا گیا کہ وہ تو چلا گیا ہے اور جہاں تک ما ادر کے ان کے قول کے ذریعے دلیل پکڑنے کی بات ہے تو اس میں کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اس حذف کو تو قدیم نحویوں نے حکایت کیا ہے، اس کی علت بھی ذکر کی ہے اور اس کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ فراء نے یا کے حذف پر شعر بھی پڑھا ہے : کفاک کف ما تلیق درھما جودًا وأخری تعط بالسیف الدما اس میں تعطاصل میں تعطی ہے اور سیبویہ اور خلیل نے حکایت کی عرب لا ادرکہتے ہیں یا کو حذف کرتے ہیں یا کو حذف کرتے ہیں اور کسرہ کے ساتھ اسے پڑھتے ہیں مگر ان کا خیال یہ ہے کہ یہ کثرت استعمال کی وجہ سے ہے۔ زجاج نے کہا : نحو میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ یا ثابت رکھا جائے۔ انہوں نے کہا : جو اس کو مصحف کا اتباع اور قراء کا اجماع خیال کرتا ہے، (تو اس اعتبار سے بھی) کیونکہ قراءت سنت ہے اور اس طرح بھی کلام عرب میں وارد ہوا ہے۔ لا تکلم نفس الاباذنہٖاصل تتکلم ہے تخفیفاً ایک تا کو حذف کردیا گیا ہے اور اس کلام میں اضمار ہے، یعنی لاتتکلم فیہ نفس الابالما ذون فیہ من حسن الکلام اور ایک قول یہ ہے : اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی کسی دلیل کے بارے میں گفتگو کرسکے گا اور نہ ہی شفاعت کے متعلق۔ ایک قول یہ ہے کہ حشر میں اس کی اجازت کے بغیر ان کے لیے ایک ایسا وقت ہوگا جس میں اس کی اجازت کے بغیر ان پر کلام کرنے کی ممانعت ہوگی۔ اور یہ وہ آیت ہے جس کے بارے میں دین میں ملحداکثر سوال کرتے ہیں، وہ کہتے ہی کہ لاتکلم نفس الا باذنہٖ ۔ ھٰذایوم لاینطقون۔ۙ ولا یؤذن لھم فیعتذرون۔ (المرسلات) کیوں کہا گیا ہے حالانکہ قیامت کے ذکر میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : واقبل بعضھم علیٰ بعضٍ یتسآءلون۔ (الصافات) کہ وہ ایک دوسرے کی طرف ملامت کرتے ہوئے متوجہ ہوں گے۔ یوم تاتی کل نفسٍ تجادل عن نفسھا (النحل :111) جس دن ہر نفس اپنے بارے میں جھگڑتے ہوئے آرہا ہوگا۔ وقفوھم انھم مسؤلون۔ (الصافات) اور (اب ذرا) روک لو انہیں ان سے باز پرس کی جائے گی۔ فیومئذٍلایسئل عن ذنبہٖٓ انس ولاجآن۔ (الرحمٰن) تو اس روز کسی انسان اور جن سے اس کے گناہ کے بارے میں نہ پوچھا جائے گا۔ اس کا جواب وہی ہے جو ہم نے ذکر کردیا ہے کہ وہ ایسی حجت کے بارے میں نہیں بولیں گے جو انہیں لازم ہوگی بلکہ اپنے گناہوں کے اقرار، ایک دوسرے کو ملامت کرنے، اور ایک دوسرے پر گناہ کا الزام ڈالنے کے حوالے سے گفتگو کریں گے البتہ انہیں حجت اور دلیل کے متعلق گفتگو اور کلام کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور یہ اسی طرح ہے کہ جیسے اکثر آپ کو مخاطب کرتا ہو اور اس کا خطاب حجت و دلیل سے خالی ہو تو اسے آپ کہتے ہیں : تو نے کوئی کلام کیا ہی نہیں، تو بولا ہی نہیں۔ لہٰذا جو آدمی بغیر حجت و دلیل کے بولا اسے کہا گیا کہ وہ بولا ہی نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے : وہ دن بہت لمبا ہوگا اور اس میں ٹھہرنے کے لیے کئی مقامات ہوں گے، جن میں سے بعض میں گفتگو کی ممانعت ہوگی اور بعض مقامات میں اجازت ہوگی۔ پس یہ صورت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کوئی نفس اس کی اجازت کے بغیر کلام نہیں کرے گا۔ فمنھم شقی و سعید یعنی نفوس میں سے یا لوگوں میں سے کچھ بدنصیب ہیں اور کچھ سعادت مند۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کو ارشاد یوم مجموع ۙ لہ الناس میں ذکر فرمایا ہے۔ شقی وہ ہے جس پر بد نصیبی لکھ دی گئی ہو اور سعید وہ ہے جس پر سعادت لکھ دی گئی ہو۔ لبید نے کہا : فمنھم سعید آخذ بنصیبہ ومنھم شقئ بالمعیشۃ قانع ان میں سے کوئی سعادت مند ہے جو اپنا حصہ وصول کررہا ہے اور کوئی بدنصیب ہے زندگی پر قناعت کرنے والا ہے۔ امام ترمذی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا : حضرت ابن عمر ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے آپ نے فرمایا : جب یہ آیتفمنھم شقی وسعیدنازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا میں نے عرض کی : اے اللہ کے نبی ! ہم کس چیز کے مطابق عمل کرتے ہیں ؟ کیا اس کے مطابق جن کا موں سے فراغت ہوگئی ہے یا جن سے فراغت نہیں ہوئی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” بلکہ جس چیز سے فراغت ہوگئی ہے، اے عمر اس کے مطابق قلم لکھ چکے ہیں لیکن جس کے لیے بندے کو پیدا کیا گیا ہے وہ کام اس کے لیے آسان کردیا گیا ہے “۔ ھذا حدیث حسن غریب من ھذا الوجہ۔ ہم اس کو صرف حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث سے ہی جانتے ہیں۔ سورة اعراف میں یہ گزرچکی ہے۔ فاما الذین شقوایہ مبتدا ہے۔ ففی الناریہ محل خبر میں ہے اور اسی طرح لھم فیھا زفیروشھیق ابوالعالیہ نے کہا : زفیرسینے سے (نکلی ہوئی آواز) ہے اور شھیقحلق سے (نکلی ہوئی آواز) ہے۔ انہیں سے اس کے برعکس بھی مروی ہے۔ زجاج نے کہا : زفیررونے کی شدت میں سے ہے اور شھیقبہت زیادہ بلند آواز سے رونے کی آواز ہے۔ زجاج ہی نے کہا ہے : کوفی اور بصری اہل لغت کا خیال یہ ہے کہ زفیرگدھے کے ہینگنے کی ابتدائی آواز ہے اور شھیق اس کی آخری آواز ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس کے برعکس ارشاد فرمایا ہے : آپ نے فرمایا زفیرسخت آواز جب کہ شھیقکمزور آواز ہے۔ ضحاک اور مقاتل نے کہا : زفیرگدھے کے ہینگنے کی ابتدائی آواز کی طرح ہے اور شھیق اس کی آخری آواز ہے جب وہ ہینگنا ختم کرتا ہے۔ شاعر نے کہا : حشرج فی الجوف سحیلا أو شھق حتی یقال ناھق وما نھق سحیل اس آواز کو کہتے ہیں جو گدھے کے سینے میں گھومتی ہے اور شہق حلق سے نکلی ہوئی آواز ہے۔ ایک قول یہ ہے : زفیر سانس کا نکلنا ہے اور وہ یہ ہے کہ پیٹ غم سے بھرا ہوا ہوتا ہے تو سانس کے ذریعے وہ نکلتا ہے اور شہیق اس کا واپس لوٹانا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : زفیر شدت غم سے سانس کو لوٹانا ہے یہ زفر سے ماخوذ ہے اور یہ پیٹھ پر بوجھ ہے اور شہیق لمبا کھنچا ہوا سانس ہے۔ یہ عربوں کے قول جبل شاھق سے ماخوذ ہے، یعنی لمبا اور بلند پہاڑ اور زفیر اور شہیق دونوں پریشان لوگوں کی آوازوں میں سے ہیں۔ قولہ تعالیٰ : خٰلدین فیھامادامت السمٰوٰت والارض، مادامتظرف ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے۔ مراد دوام السموات والارض ہے اور تقدیر وقت ذالک ہے یعنی اس کا وقت آسمانوں اور زمین کا دوام ہے۔ اس کی تاویل میں اختلاف ہے، ایک گروہ نے کہا جس میں ضحاک بھی ہیں : معنی یہ ہے کہ جب تک جنت و دوزخ کے آسمان اور ان کی زمینیں ہیں۔ السماء ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو تیرے اوپر ہے اور تیرے اوپر سایہ کیے ہوئے ہیں اور الارضجس پر تیرے قدم قرار حاصل کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے : واورثناالارض نتموا من الجنۃ حیث نشآء (زمر :74) اور وارث بنا دیا ہمیں اس (پاک) زمین کا اب ہم ٹھہریں گے جنت میں جہاں چاہیں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے : ان مراد دنیا کے آسمان و زمین ہی ہیں اور عربوں کی عادت کے مطابق کسی چیز کے دوام اور ابدیت کے متعلق خبر دی جارہی ہے۔ جس طرح ان کا قول : میں تمہارے پاس نہیں آؤں گا جب تک رات ہے، یا پانی بہہ رہا ہے، جب تک رات اور دن کا اختلاف ہے، جب تک کبوتری کی آواز ہے، جب تک آسمان اور زمین ہیں، اور اس جیسے دیگر جملے جن سے وہ لامتناہی اور لمبا وقت مراد لیتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اگرچہ آسمانوں اور زمین کے زوال کے ذریعے خبر دی مگر کفار کے ہمیشہ اس میں رہنے کی خبر دے دی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ پیدا ہونے والی تمام چیزوں کی اصل عرش کے نور سے ہے، اور آخرت میں آسمان اور زمین اسی نور کی طرف واپس لوٹ جائیں گے جس نور سے انہیں لیا گیا تھا، لہذا یہ دونوں عرش کے نور میں ہمیشہ دائمی ہیں۔ الاماشآء ربکیہ محل نصب میں ہے، کیونکہ یہ استثنا منقطع ہے، اس کے بارے میں دس اختلافی اقوال ہیں۔ پہلا قول یہ ہے کہ یہ ففی النار سے استثنا ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سوائے اس کے کہ تیرا پروردگار کسی قوم سے اس کو مؤخر کرنا چاہے۔ اس قول کو ابونضرہ نے حضرت ابوسعید خدری یا حضرت جابر ؓ سے روایت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے من شاء نہیں فرمایا کیونکہ مراد تعداد ہے اشخاص نہیں، جس طرح نکاح کے باب میں ماطاب لکم فرمایا جتنی تمہیں پسند آئیں۔ ابونضرہ عن رسول اللہ ﷺ روایت ہے۔” مگر جنکو چاہے اللہ تعالیٰ داخل نہ کرے اگرچہ وہ نافرمانی کیوجہ سے بدنصیب ہی کیوں نہ ہوں “۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ استثنانافرمان مومنین کے لیے ہے کہ انہیں دوزخ میں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد نکال لیا جائے گا۔ اس اعتبار سے فاما الذین شقواکفار کا قول ہے۔ صحیح میں حضرت انس مومنوں کے لیے عام حکم ہوگا اور خالدین سے ہی استثناء ہوگی۔ یہ حضرت قتادہ، ضحاک اور ابوسنان وغیرہ کا قول ہے۔ صحیح میں حضرت انس بن مالک کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کچھ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے حتی کہ جب وہ راکھ اور کوئلہ ہوجائیں گے تو انہیں اس سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا تو کہا جائے گا کہ یہ جہنمی ہیں “ ، سورة النساء میں یہ گذرچکا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ استثنا زفیر اور شہیق سے ہے، یعنی ” لھم فیھازفیروشھیق الاماشاء ربک “ ان کے لیے زفیر اور شہیق ہے مگر جتنا تیرا پروردگار چاہے گا ان کے لیے عذاب کی وہ اقسام ہوں گی جن کو اللہ نے ذکر نہیں کیا، اسی طرح اہل جنت کے لیے وہ نعمتیں ہوں گی جن کا اس نے ذکر کیا اور جن کا ذکر نہیں کیا۔ اس کو ابن انباری نے حکایت کیا ہے۔ چوتھا : حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : خٰلدین فیھامادامت السمٰوٰت الارض اس میں نہ وہ مریں گے، اور نہ ہی انہیں اس سے نکالا جائے گا۔ الاماشآء ربک اور وہ یہ ہے کہ وہ آگ کو حکم دے گا تو وہ انہیں کھا جائے گی اور فنا کر دے گی، پھر اللہ تعالیٰ دوبارہ نئے سرے سے ان کی تخلیق فرمائے گا۔ میں (قرطبی) نے کہا : یہ قول کافر کے ساتھ خاص ہے اور اس کے لیے کھانے اور نئی تخلیق میں استثنا ہے۔ پانچواں : الابمعنی سوائے جس طرح آپ کلام میں کہتے ہیں : مامعی رجل إلازیدا ورلیٰ علیک الفادرھم الا الالف التی لی علیک میرے ساتھ کوئی آدمی نہیں سوائے زید کے اور میرا تیرے اوپر دوہزار درہم ہے سوائے اس ایک ہزار کے جو میرا تیرے اوپر ہے۔ یہ کہا گیا ہے : معنی یہ ہے کہ جب تک آسمان اور زمین ہیں سوائے اس کے جتنا تیرا رب خلود میں سے چاہے گا۔ چھٹا : یہ اخراج سے استثنا ہے اور وہ نہیں شاہتا کہ انہیں جہنم سے نکالے، جس طرح آپ گفتگو میں کہتے ہیں : أردت أن أفعل ذالک إلاإن شاء غیرہ اور حال یہ ہے کہ آپ اس فعل پر قائم ہیں۔ معنی یہ ہوگا کہ اگر اس نے انہیں نکالنا چاہا تو وہ انہیں نکال لے گا، لیکن اس نے انہیں بتادیا ہے کہ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے، یہ دو قول زجاج نے اہل لغت سے نقل کرکے ذکر کیے ہیں، اور کہا کہ اہل معافی کے دو اور قول بھی ہیں : خٰلدین فیھامادامت السمٰوٰت والارض الاماشآء ربک یعنی ان کی قبروں کے سرہانے پر ان کے موقف کی مقدار میں سے اور محاسبہ کے لیے، اور دنیا اور برزخ ان کے ٹھہرنے کی مقدار اور حساب کے لیے وقوف کی مقدار میں سے جتنا تیرا پروردگار چاہے گا، دوسرا قول یہ ہے کہ استثنا کا وقوع نعمت اور عذاب پر زیادتی میں ہے تقدیر یہ ہوگئی : وہ دوزخ میں رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں مگر تیرا پروردگار چاہے گا اہل جنت کے لیے تعمتوں کی زیادتی اور اہل دوزخ کے لیے عذاب کی زیادتی میں سے۔ میں (قرطبی) نے کہا : دنیا میں آسمان اور زمین کے ہونے کی مدت کی مقدار خلود سے زیادتی میں یہ استثنا ہے اور اس کو ترمذی حکیم ابوعبداللہ محمد بن علی نے اختیار کیا ہے۔ یعنی آسمان اور زمین کے دوام کی مقدار وہ جہنم میں رہیں گے، اور یہ دنیا کی موت ہے جب کہ آسمان اور زمین کے لیے ایسا وقت بھی ہے جس میں یہ تبدیل ہوجائیں گے، اللہ کا ارشاد ہے : یوم تبدل الارض غیرالارض (ابراہیم :48) اس دن زمین دوسری زمین سے تبدیل کردی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آدمی اور ان کے عامل پیدا کیے، ان میں سے کچھ کی جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلے میں خریدا، اور اس پر میثاق والے دن ان سے عہد لیا، جس نے عہد پورا کیا اس کے لیے جنت ہے، اور جو اپنی جان لے کر چلا گیا وہ دوزخ میں آسمان اور زمین کے دوام کی مقدار رہے گا، یہ دونوں معاملہ کے لیے رہیں گے، اسی طرح اہل جنت کا جنت میں خلود اس کی مقدار کے مطابق ہوگا، جب یہ معاملہ مکمل ہوجائے گا تو سارے کے سارے اللہ کی مشیت میں آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وماخلقناالسمآء والارض ومابینھمالٰعبین۔ (الانبیاء) ماخلقنٰھمآالابالحق (الدخان :39) پس جنت و دوزخ دونوں کے باسی آسمان و زمین کے دوام کی مقدار رہیں گے، اس مقدار کے ساتھ یہ حق ربوبیت ہے، پھر ان کے لیے ہمیشہ ہمیشہ یہی دونوں دار لازم فرمادے گا اور یہ حق احدیث کی وجہ سے ہے، پس جو اس کی احدیث کی وجہ سے موجد ہو کر اسے ملا تو وہ ہمیشہ اپنے دار میں باقی رہے گا، اور اس کی احدیث کے ساتھ کسی اور معبود کو شریک ٹھہراتے ہوئے اسے ملا وہ ہمیشہ قید میں باقی رہے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بندوں کو خلود کی مقدار کے بارے میں بتادیا، تو فرمایا : الاماشآء ربک یعنی مدت کی اس زیادتی کے بارے میں جو اللہ چاہے گا جس زیادتی کا ادراک انسانی قلوب واذہان کرنے سے عاجز ہیں کیونکہ اس کی کوئی انتہا اور غایت نہیں۔ اعتقادمی اعتبار سے ہمیشہ کے لیے دارین میں ان کا خلود دائمی ہوگا اور یہ بھی کہا گیا کہ الابمعنی واؤ ہے۔ یہ فراء اور بعض اہل نظر کا قول ہے اور آٹھواں قول ہے۔ معنی یہ ہوگا : دنیا میں آسمان و زمین کے دوام کی مدت پر خلود میں اضافے اور زیادتی میں سے جتنا تیرا رب چاہے گا۔ قرآن مجید میں إلابمعنی واؤ استعمال ہوا ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ان للذین ظلموا (الطور :47) یعنی وألذین ظلموا اور شاعر نے کہا : وکل أخ مفارقہ أخوہ لعمر أبیک إلا الفرقدان یہاں بھی الا الفرقدانبمعنیوالفرقدان ہے۔ ابو محمد مکی نے کہا : بصریوں کے نزدیک یہ بڑے دور کی بات ہے کہ الا بمعنی واؤ ہو۔ سورة بقرہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ ایک قول یہ ہے اس کا معنی ہے کماشاء ربک یعنی جس طرح تیرا رب چاہے گا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی : ولاتنکحوامانکح اٰبآؤکم من النسآء الاماقدسلف (النساء :22) یعنی کما سلفیہ نواں قول ہے۔ دسواں : دسواں قول یہ ہے کہ الاماشآء ربک میں استثنا کا استعمال صرف ایسے ہی ہے جیسا کہ ہر کلام میں اس کا استعمال مستحب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لتدخلن المسجدالحرام ان شآء اللہ اٰمنین (الفتح :27) اب یہ واجب میں استثناء ہے، اور استثناء اسی طرح شرط کے حکم میں بھی ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ان شاء ربک اور اس کی صفت نہ متصل سے اور نہ ہی منقطع سے بیان کی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : عطآءًغیرمجذوذٍاس کی تائید کرتا ہے اور اسے تقویت دیتا ہے اور اس قسم کی دلیل ابوعبید سے بھی منقول ہے اس نے کہا : اس سے پہلے دارین میں فریقین کے خلود کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کی عزیمت گزرچکی ہے۔ فوراً بعد استثنا کا لفظ وارد ہوگیا ہے، جب کہ عزیمت خلود میں گزر چکی ہے۔ ابوعبید نے پھر کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : لتدخلن المسجدالحرام ان شآء اللہ اٰمنین (الفتح : 27) کی طرح ہے کہ یہ بات معلوم ہے کہ وہ حتمی اور یقینی طور پر داخل ہوں گے۔ لہذا ان دونوں مقامات پر استثنا خیار کو ثابت نہیں کرتی، کیونکہ دارین میں خلود کے بارے میں اور مسجد حرام میں دونوں کے بارے میں مشیت عزیمت کے ساتھ گزرچکی ہے، فراء سے بھی اس طرح منقول ہے۔ اور گیارہواں قول یہ ہے کہ اشقیاء ہی سعداء ہی اشقیاء ہیں ان کے علاوہ نہیں، دو مقامات پر استثنا انہیں کی طرف راجع ہے، اور اس کی وضاحت اور بیان یہ ہے کہ مابمعنی من ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے والوں میں سے استثناء ان لوگوں کی کی ہے جو نبی کریم ﷺ کی امت میں سے اپنے ایمان کی وجہ سے ان جہنمیوں میں سے نکل جائیں گے، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوں گے پھر دوزخ سے نکل کر جنت میں داخل ہوجائیں گے پس یہی لوگ جن پر دوسری استثنا واقع ہوئی ہے، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سو وہ جو بد نصیب ہیں وہ آگ میں ہوں گے ان کے (مقدر میں) وہاں چیخنا اور چلانا ہوگا وہ دوزخ میں رہیں گے جب تک آسمان اور زمین قائم ہیں مگر جس کو آپ کا پروردگار چاہے گا تو اسے وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رکھے گا، یعنیفاما الذین شقواففی النارلھم فیھازفیرو شھیق۔ۙ خٰلدین فیھامادامت السمٰوٰت والارض الاماشآء ربک (ہود :107) الایخلدہ فیھا اور یہ وہ لوگ ہیں جو امت محمد ﷺ میں سے اپنے ایمان اور محمد کریم ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے جہنم سے نکلیں گے۔ لہٰذا جہنم میں ان کے داخل ہونے کی وجہ سے انہیں شقی اور بدنصیب کہا گیا اور جنت میں ان کے داخلہ کی وجہ سے سعید اور خوش نصیب کہلائے، جس طرح ضحاک نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا : جو لوگ خوش بخت اور سعادت مند ہیں وہ دوزخ میں داخل ہونے کی وجہ سے بد نصیب اور شقی ہوگئے پھر دوزخ سے نکلنے اور جنت میں داخل ہونے کی وجہ سے سعادت مند ہوگئے۔ اعمش، حفص، حمزہ اور کسائی نے واما الذین سعدواسین کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو عمرو نے کہا : اس کے سعدوا ہونے پر دلیل یہ ہے کہ پہلاشقوا ہے اشقوا نہیں۔ نحاس نے کہا : میں نے علی بن سلیمان کو دیکھا کہ وہ کسائی کی قراءت سعدوا پر تعجب کا اظہار کرتے حالانکہ عربی کو جانتے تھے، اگر یہ بولنے کی طرز تھی تو درست نہیں، کیونکہ سعد فلان واسعدہ اللہ، وأسعدبروزن امرض کہا جاتا ہے، کسائی نے ان کے قول مسعود سے استدلال کیا ہے حالانکہ اس میں ان کے لیے کوئی حجت نہیں، کیونکہ مکان مسعود فیہ کہا جاتا ہے پھر اس میں سے فیہکو حذف کردیا جاتا اور مسعود نام بن گیا۔ مہدوی نے کہا : سعدہ اللہ نہیں کہا جاتا بلکہ صرف ” أسعدہ اللہ “ کہا جاتا ہے۔ ثعلبی نے کہا : سعدواسین کے ضمہ کے ساتھ کا مطلب ہے رزقوا السعادۃ کہ انہیں سعادت عطا فرمائی گئی۔ سعد اور اسعد ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ باقی لوگوں نے سعدواکو شقوا پر قیاس کرتے ہوئے کرتے ہوئے سین کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابوعبیدہ اور ابوحاتم نے اسے ہی اختیار کیا ہے۔ جوہری نے کہا : سعادت، شقاوت کے خلاف ہے۔ آپسعدالرجل فھوسعیدکہتے ہیں جیسے سلم اور سلیم ہے اور سعدفھومسعود اس میں مسعد نہیں کیا جاتا، گو یا وہ مسعود کے ذریعے اس سے مستغنی ہوگئے۔ ابونصرعبدالرحیم قشیری نے کہا : سعدہ اللہ فھو مسعود اور اسعدہ اللہ فھومسعد بھی وارد ہوا ہے، یہ کو فیوں کے قول کو تقویت دیتا ہے۔ سیبیویہ نے کہا : جس طرح شقی فلان نہیں کہا جاتا اسی طرح سعدفلان بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ متعدی نہیں۔” عطامجذوذ، غیرمجذوذ “ سے مراد غیرمقطوع ہے یعنی نہ ختم ہونے والی عطا، یہ جذیجذ سے ہے جس کا معنی ہے اس نے کاٹا، نابغہ نے کہا : تجذ السو المضاعف نسجہ وتوقد بالصفاح نار الحباحب تجذکا مطلب ہے وہ کاٹتی ہے۔ قولہ تعالیٰ : فلاتکنہی کی وجہ سے مجذوم ہے اکثرت استعمال کی وجہ سے نون کو حذف کردیا گیا ہے۔ فی مریۃٍیعنی شک میں۔ ممایعبدھٰؤلآء یعنی اے سننے والے ! جن معبودوں کی یہ عبادت کرتے ہیں ان کے باطل ہونے میں تو شک میں مبتلا نہ ہوجا۔ اور اس سے خوبصورت اور عمدہ بات یہ ہے۔ اے محمد ! ﷺ ہر اس آدمی کو فرمادیجئے جو شک میں ہے : فلاتک فی مریۃً مماتعبدھٰؤلآء کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بات کا حکم نہیں دیا۔ پس یہ ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد نے ان کی عبادت کی تو یہ ان کی تقلید کرتے ہیں۔ وانالموفوھم نصیبھم غیر منقوص ان کے بارے میں تین قول ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ رزق میں ان کا حصہ مراد ہے۔ یہ ابوالعالیہ کا قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ عذاب میں ان کا حصہ مراد ہے۔ یہ ابن زید کا قول ہے۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ خیر اور شر میں سے جن کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے وہ مراد ہے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔
Top