Al-Qurtubi - An-Nahl : 70
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىكُمْ١ۙ۫ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ۠   ۧ
وَاللّٰهُ : اور اللہ خَلَقَكُمْ : پیدا کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يَتَوَفّٰىكُمْ : وہ موت دیتا ہے تمہیں وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے بعض مَّنْ : جو يُّرَدُّ اِلٰٓى : لوٹایا (پہنچایا) جاتا ہے طرف اَرْذَلِ الْعُمُرِ : ناکارہ۔ ناقص عمر لِكَيْ : تاکہ لَا يَعْلَمَ : وہ بےعلم ہوجائے بَعْدَ : بعد عِلْمٍ : علم شَيْئًا : کچھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور تم میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور (بہت کچھ) جاننے کے بعد ہر چیز سے بےعلم ہوجاتے ہیں۔ بیشک خدا (سب کچھ) جاننے والا (اور) قدرت والا ہے۔
آیت نمبر 70 قولہ تعالیٰ : واللہ خلقکم ثم یتوفکم اس کا معنی پہلے بیان ہوچکا ہے۔ ومنکم من یرد الی ارذل العمر یعنی وہ اسے بدکام بنا دیتا ہے اور اسے کمینہ بنا دیتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : مراد وہ ہے جس کی قوت و طاقت اور عقل کم ہوجاتی ہے، اور وہ اسے بےعقلی تک پہنچا دیتی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس سے مراد أسفل العمر (انتہائی گھٹیا اور ناکاروہ عمر) ہے، یعنی وہ اس بچے کی مثل ہوجاتا ہے جس میں کوئی عقل نہیں ہوتی اور دونوں معنی باہم قریب قریب ہیں۔ اور صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ پناہ مانگتے ہوئے کہتے تھے : اللھم إنی أعوذبک من الکسل وأعوذبک من الجبن وأعوذبک من الھرم وأعوذبک من البخل (اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کاہلی اور سستی سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں بڑھاپے سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے) اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی حدیث میں ہے وأعوذبک أن أردالی أرذل العمر الحدیث (اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں ناکارہ عمر کی طرف لوٹا دیا جاؤں) ۔ اسے امام بخاری نے نقل کیا ہے۔ لکی لا یعلم بعد علم شیئا یعنی وہ بچپنے کی حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ پس وہ ان امور کو بڑھاپے کی زیادتی کی وجہ سے نہیں جان سکتا جن کو اس سے پہلے جانتا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ کیفیت بندہ مومن کو لاحق نہیں ہوتی، کیونکہ مومن سے اس کا علم نہیں چھینا جائے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے تاکہ وہ چیزوں کو جاننے کے بعد ان پر عمل نہ کرسکے، پس عمل کو علم سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ عمل کے لئے عمل کی حاجت اور ضرورت ہوتی ہے ؛ کیونکہ اس کے عمل میں بڑھاپے کی تاثیر اس کے علم میں اس کی تاثیر سے زیادہ ہوتی ہے۔ اور معنی مقصود منکرین بعث پر استدلال کرنا اور حجت پکڑنا ہے، یعنی وہ ذات جو اسے اس حال کی طرف لوٹانے پر قادر ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ وہ اسے مارے اور پھر اسے زندہ کر دے۔
Top