Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ
: اب کہیں گے
السُّفَهَآءُ
: بیوقوف
مِنَ
: سے
النَّاسِ
: لوگ
مَا
: کس
وَلَّاهُمْ
: انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا
عَنْ
: سے
قِبْلَتِهِمُ
: ان کا قبلہ
الَّتِيْ
: وہ جس
کَانُوْا
: وہ تھے
عَلَيْهَا
: اس پر
قُلْ
: آپ کہہ دیں
لِلّٰہِ
: اللہ کے لئے
الْمَشْرِقُ
: مشرق
وَالْمَغْرِبُ
: اور مغرب
يَهْدِیْ
: وہ ہدایت دیتا ہے
مَنْ
: جس کو
يَّشَآءُ
: چاہتا ہے
إِلٰى
: طرف
صِرَاطٍ
: راستہ
مُّسْتَقِيمٍ
: سیدھا
احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ؟ تم کہہ دو کہ مشرق و مغرب سب خدا ہی کا ہے وہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے پر چلاتا ہے
آیت نمبر
142
اس میں گیارہ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سیقول السفھاء من الناس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مومنین کے شام سے کعبہ کی طرف پھرنے میں وہ کہیں گے کہ انہیں کسی چیز نے پھیرا ہے۔ اور سیقول بمعنی قال ہے اور داخل کی جگہ مضارع کو رکھاتا کہ اس کی ہمیشگی پر دلالت کرے اور وہ اس قول پر ہمیشہ رہیں گے۔ من الناس کے قول کے ساتھ خاص فرمایا کیونکہ بیوقوف جمادات و حیوانات میں بھی ہوتے ہیں اور السفھآء سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے ماء لاھم کہا۔ السفھاء جمع ہے اس کا واحد سفیہ ہے جس کی عقل کم ہو۔ یہ عربوں کے اس قول سے ہے ثوب سفیہ جب کپڑا کمزور بنا ہوا ہو۔ یہ پہلے گزر چکا ہے اور النساء سفائہ استعمال ہوتا ہے۔ المورج نے کہا : السفیہ وہ ہوتا ہے جو بہت زیادہ بہتان لگائے والا ہو، جھوٹ بولنے والا ہو اور اپنے علم کے خلاف کا ارادہ کرنے والا ہو۔ قطرب نے کہا : السفیہ سے مراد بہت زیادہ ظلم کرنے والا، جاہل ہے۔ السفھاء سے مراد یہاں مدینہ طیبہ کے یہود ہیں۔ یہ مجاہد کا قول ہے۔ سدی نے کہا منافقون ہیں۔ زجاج نے کہا : قریش کے کفار ہیں جب انہوں نے تحویل قبلہ کا انکار کیا تو کہا : محمد ﷺ اپنی پیدائش کی جگہ کا اشتیاق رکھتا ہے۔ عن قریب تمہارے دین کی طرف لوٹ آئے گا، یہود نے کہا : اس پر معاملہ ملتبس ہوگیا ہے اور یہ حیران ہے۔ منافقوں نے کہا : ماولھم عن قبلتھم اور مسلمانوں سے استہزاء کیا۔ ولھم کا معنی ہے : انہیں پھر یا۔ مسئلہ نمبر
2
: ائمۃ نے روایت کیا ہے اور یہ لفظ امام مالک کے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے لوگ صبح کی نماز میں قباء میں تھے اچانک ایک آنے والا آتا اور کہا : رسول اللہ ﷺ پر آج رات قرآن نازل ہوا ہے اور انہیں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس تم کعبہ کی طرف منہ کرلو۔ ان صحابہ کے چہرے پہ کے شام کی طرف تھے تو وہ کعبہ کی طرف پھرگئے۔ امام بخاری نے حضرت براء سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سولہ ماہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور آپ پسند فرماتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہو۔ آپ ﷺ نے پہلی نماز جو کعبہ کی طرف منہ کرکے پڑھی وہ عصر کی نماز تھی اور صحابہ کرام نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تھی ان میں ایک کسی اور مسجد والوں کے پاس سے گزرا جبکہ وہ رکوع میں تھے تو اس نے کہا : میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے تو وہ صحابہ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے اور تحویل قبلہ سے پہلے فوت ہوگئے تھے اور شہید ہوگئے تھے ہم نہیں جانتے کہ ان کے بارے میں کیا کہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی وما کان اللہ لیضیع ایمانکم (البقرہ :
143
) اس روایت میں نماز عصر کا ذکر ہے۔ امام مالک کی روایت میں صبح کی نماز کا ذکر ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : نبی کریم ﷺ پر تحویل قبلہ کا حکم بنی سلمہ کی مسجد میں نازل ہوا تھا جبکہ آپ ظہر کی نماز میں دو رکعت پٖڑھ چکے تھے تو آپ نماز میں ہی پھرگئے تھے اس مسجد کو مسجد قبلتین کہا جاتا ہے۔ ابو الفرج نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عباد بن نہیک نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ یہ نماز پڑھی تھی۔ ابو عمر نے ” التمہید “ میں حضرت نویلہ بنت اسلم ؓ سے روایت کیا ہے اور یہ مبایعات (بیعت کرنے والیوں) میں سے تھیں فرماتی ہیں : ہم ظہر کی نماز میں تھے۔ عباد بن بشر بن قیظی آیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے قبلہ کی طرف منہ کرلیا ہے یا کہا : بیت حرام کی طرف منہ کرلیا ہے۔ پس مرد عورتوں کی جگہ پھرگئے اور عورتیں، مردوں کی جگہ پھر گئیں۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت نماز کے علاوہ حالت میں نازل ہوئی۔ یہ اکثرت کا قول ہے۔ کعبۃ کی طرف پہلی نماز، نماز عصر پڑھی گئی۔ واللہ اعلم روایت ہے کہ جب قبلہ کی تحویل ہوئی تو پہلی نماز جس نے کعبہ کی طرف پڑھی وہ ابو سعید بن معلیٰ تھے۔ حضرت ابو سعید مسجد سے گزر رہے تھے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ منبر پر لوگوں کو تحویل قبلہ کے بارے خطبہ دے رہے تھے اور آپ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے۔ قد نریٰ ۔۔۔۔ فی السماء (البقرہ :
144
) حتیٰ کہ آپ آیت سے فارغ ہوئے تو میں (ابو سعید) نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ ہم رسول اللہ ﷺ کے منبر سے اترنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لیں۔ پس ہم پہلے کعبہ کی طرف نماز پڑھنے والے ہوں گے۔ پس ہم نے جانوروں کو چھپا دیا اور ہم نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر رسول اللہ ﷺ اترے اور اس دن آپ نے لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی۔ ابو عمر نے کہا ابو سعید بن معلیٰ کے لئے اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں ہے حالانکہ سورة فاتحہ کی فضیلت میں کنت اصلی والی حدیث موجود ہے جو بخاری نے نقل کی ہے، یہ پہلے گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر
3
: مدینہ طیبہ تشریف لانے کے کتنے عرصہ بعد تحویل قبلہ ہوا ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : سولہ ماہ یا سترہ ماہ بعد قبلہ تبدیل ہوا۔ جیسا کہ بخاری میں ہے۔ دار قطنی نے بھی یہ حدیث حضرت براء سے نقل کی ہے۔ فرمایا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ آنے کے بعد سولہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھئ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی خواہش دیکھی تو یہ آیت نازل ہوئی : قد نری تقلب وجھک فی السمآء (البقرہ :
144
) اس روایت میں بغیر شک کے ت سولہ ماہ کا ذکر ہے۔ مالک نے یحییٰ بن سعید عن سعید بن مسیب کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ تحویل قبلہ غزوہ بدر سے دو ماہ پہلے ہوا تھا۔ ابراہیم بن اسحاق نے کہا ہجرت کے دوسرے سال رجب میں قبلہ کی تبدیلی ہوئی تھی۔ ابو حاتم سبتی نے کہا : مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف سترہ ماہ اور تین دن متواتر نماز پڑھی۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ ﷺ مدینہ طیبہ بارہ ربیع الاول کو آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے استقبال کعبہ کا حکم منگل کے دن پندرہ شعبان کو دیا تھا۔ مسئلہ نمبر
4
: علماء کا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کی کیفیت میں تین مختلف اقوال ہیں : (
1
) حسن نے کہا کہ یہ رائے اور اجتہاد سے تھا۔ عکرمہ اور ابو العالیہ کا یہ قول ہے۔ (
2
) دوسرا قول یہ ہے کہ آپ کو بیت المقدس اور کعبہ کے درمیان اختیار دیا گیا تھا تو آپ نے یہود کے ایمان لانے اور ان کے مائل کرنے کے لئے بیت المقدس کو اختیار فرمایا۔ یہ طبری کا قول ہے۔ زجاج نے کہا : مشرکین کی آزمائش کے لئے بیت المقدس کی طرف منہ کیا کیونکہ وہ کعبہ سے الفت رکھتے تھے۔ (
3
) تیسرا قول یہ ہے، یہ جمہور کا قول ہے اور حضرت ابن عباس وغیرہ کا قول ہے۔ اللہ تعالیٰ کے امر اور اس کی وحی کے ساتھ بیت المقدس کی طرف منہ کیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ کردیا اور کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اور جمہور نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : وما جعلنا۔۔۔۔۔ علی عقبیہ الآیۃ (اور نہیں مقرر کیا ہم نے بہت المقدس کو قبلہ جس پر آپ (اب تک) رہے مگر اس لئے کہ ہم دیکھ لیں کہ کون پیروی کرتا ہے (ہمارے) رسول کی (اور) کون مڑتا ہے الٹے پاؤں) ۔ مسئلہ نمبر
5
: اس میں اختلاف ہے کہ جب ابتداء میں نماز مکہ میں فرض ہوئی تو کیا بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم تھا یا مکہ کی طرف منہ کرنے کا حکم تھا ؟ علماء کی ایک جماعت نے کہا : بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم تھا اور مدینہ طیبہ میں بھی سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف قبلہ پھیر دیا۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : ابتدا میں نماز کعبہ کی طرف منہ کرکے پڑھان فرض کی گئی تھی آپ مکہ میں رہائش کے درمیان کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے، جس پر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کی نماز تھی۔ جب آپ مدینہ طیبہ آئے تو سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ ابو عمر نے کہا : یہ میرے نزدیک اصح قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : نبی کریم ﷺ جب مدینہ طیبہ آئے تو آپ نے یہود کی الفت چاہی تو آپ ﷺ ان کے قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ یہ چیز ان کو اسلام کیطرف بلانے کا باعث ہو جب ان کا عناد ظاہر ہوا اور آپ ان سے مایوس ہوگئے تو آپ نے کعبہ کی طرف پھرنا پسند کیا۔ آپ آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور آپ کی محبت کعبہ کی طرف تھی کیونکہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ تھا، یہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : کیونکہ یہ عربوں کو اسلام کی طرف بلانے کا زیادہ باعث تھا۔ بعض نے فرمایا : اس میں یہود کی مخالفت تھی، یہ مجاہد سے مروی ہے۔ ابو العالیہ الریاحی سے مروی ہے، فرمایا : حضرت صالح (علیہ السلام) کی مسجد اور ان کا قبلہ کعبہ تھا، فرمایا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کعبہ کی طرف صخرہ کی جانب نماز پڑھتے تھے یہ تمام انبیاء کا قبلہ تھا۔ صلواٹ اللہ علیہم اجمعین۔ مسئلہ نمبر
6
: اس آیت میں واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ناسخ و منسوخ ہیں۔ اس پر امت کا اجماع ہے مگر جس نے علیحدہ راہ اختیار کی۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور علماء کا اجماع ہے کہ قبلہ اول قرآن سے منسوخ کیا گیا اور یہ دو مرتبہ منسوخ ہوا۔ ایک قول کے مطابق جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر
7
: یہ آیت قرآن کے ساتھ سنت کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے بہت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی، جبکہ یہ قرآن میں حکم نہیں تھا اور یہ حکم سنت کی جہت سے تھا پھر یہ قرآن کے ساتھ حکم منسوخ ہوا اور اس عتبار سے کنت علیھا بمعنی انت علیھا ہوگا۔ مسئلہ نمبر
8
: اس میں خبر واحد کے ساتھ قطعی علم کے جواز پر دلیل ہے، کیونکہ بیت المقدس کی طرف منی کرنا صحابہ کے نزدیک قطعی تھا پھر اہل قباء کے پاس آنے والا آیا اور انہیں بتایا کہ قبلہ مسجد حرام کی طرف پھر گیا ہے، تو انہوں نے اس کا قول قبول کیا اور وہ کعبہ کی طرف پھرگئے پس خبر واحد کے ساتھ انہوں نے متواتر کو ترک کردیا حالانکہ خبر واحد ظنی ہوتی ہے۔ علماء کا اس کے عقلاً جواز میں اور اس کے وقوع میں اختلاف ہے۔ ابو حاتم نے کہا : مختار اس کا عقلا جواز ہے اگر اس کے ساتھ شرع مکلف کرے، اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں قباء کے قصہ کی دلیل کے ساتھ اس کا وقوع بھی ہوا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک شخص کو کسی علاقہ کا والی بنا کر بھیجتے تھے اور وہ ناسخ و منسوخ کا حکم پہنچاتے تھے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد ممنوع ہے کیونکہ صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن اور متواتر معلوم، خبر واحد کے ساتھ نہیں اٹھایا جائے گا۔ سلف و خلف میں سے کوئی بھی اس کے جواز کا قائل نہیں ہے اور جو منع کرتے ہیں انہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ یہ چیز محال تک پہنچاتی ہے اور وہ ہے ظن کے ساتھ قطعی امر کا اٹھانا۔ رہا اہل قبا کا قصہ اور نبی کریم ﷺ کا والی بھیجنا وہ علم کے افادہ کے قراء ن پر یا تو نقلاً اور تحقیقاً محمول ہے یا احتمالا اور تقدیرا اس سوال و جواب کی مکمل تفصیل اصل فقہ میں موجود ہے۔ مسئلہ نمبر
9
: اس میں دلیل ہے کہ جس کو ناسخ نہ پہنچا ہو تو وہ پہلے حکم کا مکلف ہے، بخلاف اس کے جس نے کہا کہ پہلا حکم ناسخ کے وجود کے ساتھ ساتھ اٹھ جاتا ہے نہ کہ علم کے ساتھ۔ پہلا قول اصح ہے کیونکہ اہل قبا بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ آنے والا اور اس نے انہیں ناسخ کے متعلق بتایا تو وہ کعبہ کی طرف پھرگئے۔ پس ناسخ کا وجود پایا گیا تو وہ لامحالہ اٹھانے والا ہے لیکن اس کے علم کی شرط کے ساتھ۔ لیکن ناسخ خطاب ہے اور وہ اس کے حق میں خطاب نہیں ہوتا جسے خطاب نہ پہنچا ہو۔ اس اختلاف کا فائدہ عبادات میں ظاہر ہوتا ہے جو نسخ کے بعد ادا کی گئیں اور نسخ کے پہنچے سے پہلے ادا کی گئیں، کیا ان کا اعادہ ہوگا یا نہیں ؟ اس پر مبنی ہے وکیل کے تصرف کا مسئلہ جو مؤکل کے معزول کرنے کے بعد تصرف کرتا ہے یا مؤکل کے مرف کے بعد تصریف کرتا ہے یا اسے علم پہنچنے سے پہلے تصریف کرتا ہے۔ اس کے متعلق دو قول ہیں : اسی طرح مضاریت کا مسئلہ ہے اور ھاکم جس کو والی بنائے جب وہ مر جائے یا معزول کیا گیا ہو تو صحیح یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے ہر ایک کا فعل نافذ ہوگا اور اس کا حکم رد کیا جائے گا۔ قاضی عیاض نے کہا : اس شخص کے احکام میں کوئی اختلاف نہیں جس کو آزار کیا گیا ہو اور اسے آزادی کے علم نہ ہو اس کے اور لوگوں کے درمیان احکام آواز والے ہوں گے اور اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اس کے احکام جائز ہوں گے۔ اور اس میں اختلاف نہیں کہ آزاد کی گئی عورت آزادی کے بعد پڑھی گئی کے بارے میں جس پر کوئی ایسا موجب طاری ہو جو اس کی عبادت کے حکم کو تبدیل کر دے جب کہ وہ اس کی عبادت میں ہو، قبا کے مسئلہ پر قیاس کرتے ہوئے۔ پس جس نے ایک حال پر نماز پڑھی پھر نماز مکمل کرنے سے پہلے اس کی وہ حالت بدل گئی تو وہ اپنی نماز کو مکمل کرے اور توڑے نہیں اور اس کی پہلی نماز ہوچکی ہے۔ اسی طرح جس نے برہنہ نماز پڑھی پھر نماز کے اندر ہی اسے کپڑا مل گیا یا حالت صحت میں نماز شروع کی پھر وہ مریض ہوگیا یا مریض تھا پھر صحیح ہوگیا یا بیٹھا تھا پھر قیام پر قادر ہوگیا یالونڈی نماز کے اندر ہی آزاد ہوگئی تو وہ اپنا پردہ لے لے اور سابقہ نماز پر بناء کرے۔ میں کہتا ہوں : جیسے کوئی تیمم کرکے نماز میں داخل ہوا پھر اسنے پانی پالیا تو وہ نماز کو نہ توڑے جیسا کہ امام مالک اور امام شافعی نے کہا ہے۔ بعض نے فرمایا : وہ نما زتوڑ دے یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر
10
: اس میں خبر واحد کے قبول پر دلیل ہے اور اس پر سلف کا اجماع ہے اور نبی کریم ﷺ کی عادت سے تو اتر کے ساتھ معلوم ہے کیونکہ آپ والیوں کو اور مبلغین کو بھجتے تھے جو ایک ایک ہوتے تھے تاکہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں اور انہیں رسول اللہ ﷺ کے اوامرو نواہی بتائیں۔ مسئلہ نمبر
11
: اسمیں دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن تھوڑا تھوڑا اترتا رہا اور ایک حال کے بعد دوسرے حال میں ضرورت کے مطابق اترتا رہا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دین مکمل کیا جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الیوم اکملت کم دینکم (مائد :
3
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل للہ المشرق والمغرف حجت قائم فرمائی یعنی مشارق و مغارب کی ملکیت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ پس اس کے لائق ہے جس جہت کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یھدی من یشآء یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قبلہ کی طرف ہدایت دی۔ الصرط سے مراد راستہ ہے المستقیم جس میں ٹیڑھا پن نہ ہو۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔
Top