Al-Qurtubi - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے السُّفَهَآءُ : بیوقوف مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَا : کس وَلَّاهُمْ : انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا عَنْ : سے قِبْلَتِهِمُ : ان کا قبلہ الَّتِيْ : وہ جس کَانُوْا : وہ تھے عَلَيْهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں لِلّٰہِ : اللہ کے لئے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب يَهْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہتا ہے إِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيمٍ : سیدھا
احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ؟ تم کہہ دو کہ مشرق و مغرب سب خدا ہی کا ہے وہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے پر چلاتا ہے
آیت نمبر 142 اس میں گیارہ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سیقول السفھاء من الناس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مومنین کے شام سے کعبہ کی طرف پھرنے میں وہ کہیں گے کہ انہیں کسی چیز نے پھیرا ہے۔ اور سیقول بمعنی قال ہے اور داخل کی جگہ مضارع کو رکھاتا کہ اس کی ہمیشگی پر دلالت کرے اور وہ اس قول پر ہمیشہ رہیں گے۔ من الناس کے قول کے ساتھ خاص فرمایا کیونکہ بیوقوف جمادات و حیوانات میں بھی ہوتے ہیں اور السفھآء سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے ماء لاھم کہا۔ السفھاء جمع ہے اس کا واحد سفیہ ہے جس کی عقل کم ہو۔ یہ عربوں کے اس قول سے ہے ثوب سفیہ جب کپڑا کمزور بنا ہوا ہو۔ یہ پہلے گزر چکا ہے اور النساء سفائہ استعمال ہوتا ہے۔ المورج نے کہا : السفیہ وہ ہوتا ہے جو بہت زیادہ بہتان لگائے والا ہو، جھوٹ بولنے والا ہو اور اپنے علم کے خلاف کا ارادہ کرنے والا ہو۔ قطرب نے کہا : السفیہ سے مراد بہت زیادہ ظلم کرنے والا، جاہل ہے۔ السفھاء سے مراد یہاں مدینہ طیبہ کے یہود ہیں۔ یہ مجاہد کا قول ہے۔ سدی نے کہا منافقون ہیں۔ زجاج نے کہا : قریش کے کفار ہیں جب انہوں نے تحویل قبلہ کا انکار کیا تو کہا : محمد ﷺ اپنی پیدائش کی جگہ کا اشتیاق رکھتا ہے۔ عن قریب تمہارے دین کی طرف لوٹ آئے گا، یہود نے کہا : اس پر معاملہ ملتبس ہوگیا ہے اور یہ حیران ہے۔ منافقوں نے کہا : ماولھم عن قبلتھم اور مسلمانوں سے استہزاء کیا۔ ولھم کا معنی ہے : انہیں پھر یا۔ مسئلہ نمبر 2: ائمۃ نے روایت کیا ہے اور یہ لفظ امام مالک کے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے لوگ صبح کی نماز میں قباء میں تھے اچانک ایک آنے والا آتا اور کہا : رسول اللہ ﷺ پر آج رات قرآن نازل ہوا ہے اور انہیں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس تم کعبہ کی طرف منہ کرلو۔ ان صحابہ کے چہرے پہ کے شام کی طرف تھے تو وہ کعبہ کی طرف پھرگئے۔ امام بخاری نے حضرت براء سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سولہ ماہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور آپ پسند فرماتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہو۔ آپ ﷺ نے پہلی نماز جو کعبہ کی طرف منہ کرکے پڑھی وہ عصر کی نماز تھی اور صحابہ کرام نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تھی ان میں ایک کسی اور مسجد والوں کے پاس سے گزرا جبکہ وہ رکوع میں تھے تو اس نے کہا : میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے تو وہ صحابہ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے اور تحویل قبلہ سے پہلے فوت ہوگئے تھے اور شہید ہوگئے تھے ہم نہیں جانتے کہ ان کے بارے میں کیا کہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی وما کان اللہ لیضیع ایمانکم (البقرہ : 143) اس روایت میں نماز عصر کا ذکر ہے۔ امام مالک کی روایت میں صبح کی نماز کا ذکر ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : نبی کریم ﷺ پر تحویل قبلہ کا حکم بنی سلمہ کی مسجد میں نازل ہوا تھا جبکہ آپ ظہر کی نماز میں دو رکعت پٖڑھ چکے تھے تو آپ نماز میں ہی پھرگئے تھے اس مسجد کو مسجد قبلتین کہا جاتا ہے۔ ابو الفرج نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عباد بن نہیک نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ یہ نماز پڑھی تھی۔ ابو عمر نے ” التمہید “ میں حضرت نویلہ بنت اسلم ؓ سے روایت کیا ہے اور یہ مبایعات (بیعت کرنے والیوں) میں سے تھیں فرماتی ہیں : ہم ظہر کی نماز میں تھے۔ عباد بن بشر بن قیظی آیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے قبلہ کی طرف منہ کرلیا ہے یا کہا : بیت حرام کی طرف منہ کرلیا ہے۔ پس مرد عورتوں کی جگہ پھرگئے اور عورتیں، مردوں کی جگہ پھر گئیں۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت نماز کے علاوہ حالت میں نازل ہوئی۔ یہ اکثرت کا قول ہے۔ کعبۃ کی طرف پہلی نماز، نماز عصر پڑھی گئی۔ واللہ اعلم روایت ہے کہ جب قبلہ کی تحویل ہوئی تو پہلی نماز جس نے کعبہ کی طرف پڑھی وہ ابو سعید بن معلیٰ تھے۔ حضرت ابو سعید مسجد سے گزر رہے تھے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ منبر پر لوگوں کو تحویل قبلہ کے بارے خطبہ دے رہے تھے اور آپ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے۔ قد نریٰ ۔۔۔۔ فی السماء (البقرہ : 144) حتیٰ کہ آپ آیت سے فارغ ہوئے تو میں (ابو سعید) نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ ہم رسول اللہ ﷺ کے منبر سے اترنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لیں۔ پس ہم پہلے کعبہ کی طرف نماز پڑھنے والے ہوں گے۔ پس ہم نے جانوروں کو چھپا دیا اور ہم نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر رسول اللہ ﷺ اترے اور اس دن آپ نے لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی۔ ابو عمر نے کہا ابو سعید بن معلیٰ کے لئے اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہیں ہے حالانکہ سورة فاتحہ کی فضیلت میں کنت اصلی والی حدیث موجود ہے جو بخاری نے نقل کی ہے، یہ پہلے گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر 3: مدینہ طیبہ تشریف لانے کے کتنے عرصہ بعد تحویل قبلہ ہوا ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : سولہ ماہ یا سترہ ماہ بعد قبلہ تبدیل ہوا۔ جیسا کہ بخاری میں ہے۔ دار قطنی نے بھی یہ حدیث حضرت براء سے نقل کی ہے۔ فرمایا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ آنے کے بعد سولہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھئ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی خواہش دیکھی تو یہ آیت نازل ہوئی : قد نری تقلب وجھک فی السمآء (البقرہ : 144) اس روایت میں بغیر شک کے ت سولہ ماہ کا ذکر ہے۔ مالک نے یحییٰ بن سعید عن سعید بن مسیب کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ تحویل قبلہ غزوہ بدر سے دو ماہ پہلے ہوا تھا۔ ابراہیم بن اسحاق نے کہا ہجرت کے دوسرے سال رجب میں قبلہ کی تبدیلی ہوئی تھی۔ ابو حاتم سبتی نے کہا : مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف سترہ ماہ اور تین دن متواتر نماز پڑھی۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ ﷺ مدینہ طیبہ بارہ ربیع الاول کو آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے استقبال کعبہ کا حکم منگل کے دن پندرہ شعبان کو دیا تھا۔ مسئلہ نمبر 4: علماء کا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کی کیفیت میں تین مختلف اقوال ہیں : (1) حسن نے کہا کہ یہ رائے اور اجتہاد سے تھا۔ عکرمہ اور ابو العالیہ کا یہ قول ہے۔ (2) دوسرا قول یہ ہے کہ آپ کو بیت المقدس اور کعبہ کے درمیان اختیار دیا گیا تھا تو آپ نے یہود کے ایمان لانے اور ان کے مائل کرنے کے لئے بیت المقدس کو اختیار فرمایا۔ یہ طبری کا قول ہے۔ زجاج نے کہا : مشرکین کی آزمائش کے لئے بیت المقدس کی طرف منہ کیا کیونکہ وہ کعبہ سے الفت رکھتے تھے۔ (3) تیسرا قول یہ ہے، یہ جمہور کا قول ہے اور حضرت ابن عباس وغیرہ کا قول ہے۔ اللہ تعالیٰ کے امر اور اس کی وحی کے ساتھ بیت المقدس کی طرف منہ کیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو منسوخ کردیا اور کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اور جمہور نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : وما جعلنا۔۔۔۔۔ علی عقبیہ الآیۃ (اور نہیں مقرر کیا ہم نے بہت المقدس کو قبلہ جس پر آپ (اب تک) رہے مگر اس لئے کہ ہم دیکھ لیں کہ کون پیروی کرتا ہے (ہمارے) رسول کی (اور) کون مڑتا ہے الٹے پاؤں) ۔ مسئلہ نمبر 5: اس میں اختلاف ہے کہ جب ابتداء میں نماز مکہ میں فرض ہوئی تو کیا بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم تھا یا مکہ کی طرف منہ کرنے کا حکم تھا ؟ علماء کی ایک جماعت نے کہا : بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم تھا اور مدینہ طیبہ میں بھی سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف قبلہ پھیر دیا۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : ابتدا میں نماز کعبہ کی طرف منہ کرکے پڑھان فرض کی گئی تھی آپ مکہ میں رہائش کے درمیان کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے، جس پر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کی نماز تھی۔ جب آپ مدینہ طیبہ آئے تو سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ ابو عمر نے کہا : یہ میرے نزدیک اصح قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : نبی کریم ﷺ جب مدینہ طیبہ آئے تو آپ نے یہود کی الفت چاہی تو آپ ﷺ ان کے قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ یہ چیز ان کو اسلام کیطرف بلانے کا باعث ہو جب ان کا عناد ظاہر ہوا اور آپ ان سے مایوس ہوگئے تو آپ نے کعبہ کی طرف پھرنا پسند کیا۔ آپ آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور آپ کی محبت کعبہ کی طرف تھی کیونکہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ تھا، یہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : کیونکہ یہ عربوں کو اسلام کی طرف بلانے کا زیادہ باعث تھا۔ بعض نے فرمایا : اس میں یہود کی مخالفت تھی، یہ مجاہد سے مروی ہے۔ ابو العالیہ الریاحی سے مروی ہے، فرمایا : حضرت صالح (علیہ السلام) کی مسجد اور ان کا قبلہ کعبہ تھا، فرمایا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کعبہ کی طرف صخرہ کی جانب نماز پڑھتے تھے یہ تمام انبیاء کا قبلہ تھا۔ صلواٹ اللہ علیہم اجمعین۔ مسئلہ نمبر 6: اس آیت میں واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ناسخ و منسوخ ہیں۔ اس پر امت کا اجماع ہے مگر جس نے علیحدہ راہ اختیار کی۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور علماء کا اجماع ہے کہ قبلہ اول قرآن سے منسوخ کیا گیا اور یہ دو مرتبہ منسوخ ہوا۔ ایک قول کے مطابق جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 7: یہ آیت قرآن کے ساتھ سنت کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے بہت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی، جبکہ یہ قرآن میں حکم نہیں تھا اور یہ حکم سنت کی جہت سے تھا پھر یہ قرآن کے ساتھ حکم منسوخ ہوا اور اس عتبار سے کنت علیھا بمعنی انت علیھا ہوگا۔ مسئلہ نمبر 8: اس میں خبر واحد کے ساتھ قطعی علم کے جواز پر دلیل ہے، کیونکہ بیت المقدس کی طرف منی کرنا صحابہ کے نزدیک قطعی تھا پھر اہل قباء کے پاس آنے والا آیا اور انہیں بتایا کہ قبلہ مسجد حرام کی طرف پھر گیا ہے، تو انہوں نے اس کا قول قبول کیا اور وہ کعبہ کی طرف پھرگئے پس خبر واحد کے ساتھ انہوں نے متواتر کو ترک کردیا حالانکہ خبر واحد ظنی ہوتی ہے۔ علماء کا اس کے عقلاً جواز میں اور اس کے وقوع میں اختلاف ہے۔ ابو حاتم نے کہا : مختار اس کا عقلا جواز ہے اگر اس کے ساتھ شرع مکلف کرے، اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں قباء کے قصہ کی دلیل کے ساتھ اس کا وقوع بھی ہوا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک شخص کو کسی علاقہ کا والی بنا کر بھیجتے تھے اور وہ ناسخ و منسوخ کا حکم پہنچاتے تھے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد ممنوع ہے کیونکہ صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن اور متواتر معلوم، خبر واحد کے ساتھ نہیں اٹھایا جائے گا۔ سلف و خلف میں سے کوئی بھی اس کے جواز کا قائل نہیں ہے اور جو منع کرتے ہیں انہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ یہ چیز محال تک پہنچاتی ہے اور وہ ہے ظن کے ساتھ قطعی امر کا اٹھانا۔ رہا اہل قبا کا قصہ اور نبی کریم ﷺ کا والی بھیجنا وہ علم کے افادہ کے قراء ن پر یا تو نقلاً اور تحقیقاً محمول ہے یا احتمالا اور تقدیرا اس سوال و جواب کی مکمل تفصیل اصل فقہ میں موجود ہے۔ مسئلہ نمبر 9: اس میں دلیل ہے کہ جس کو ناسخ نہ پہنچا ہو تو وہ پہلے حکم کا مکلف ہے، بخلاف اس کے جس نے کہا کہ پہلا حکم ناسخ کے وجود کے ساتھ ساتھ اٹھ جاتا ہے نہ کہ علم کے ساتھ۔ پہلا قول اصح ہے کیونکہ اہل قبا بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ آنے والا اور اس نے انہیں ناسخ کے متعلق بتایا تو وہ کعبہ کی طرف پھرگئے۔ پس ناسخ کا وجود پایا گیا تو وہ لامحالہ اٹھانے والا ہے لیکن اس کے علم کی شرط کے ساتھ۔ لیکن ناسخ خطاب ہے اور وہ اس کے حق میں خطاب نہیں ہوتا جسے خطاب نہ پہنچا ہو۔ اس اختلاف کا فائدہ عبادات میں ظاہر ہوتا ہے جو نسخ کے بعد ادا کی گئیں اور نسخ کے پہنچے سے پہلے ادا کی گئیں، کیا ان کا اعادہ ہوگا یا نہیں ؟ اس پر مبنی ہے وکیل کے تصرف کا مسئلہ جو مؤکل کے معزول کرنے کے بعد تصرف کرتا ہے یا مؤکل کے مرف کے بعد تصریف کرتا ہے یا اسے علم پہنچنے سے پہلے تصریف کرتا ہے۔ اس کے متعلق دو قول ہیں : اسی طرح مضاریت کا مسئلہ ہے اور ھاکم جس کو والی بنائے جب وہ مر جائے یا معزول کیا گیا ہو تو صحیح یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے ہر ایک کا فعل نافذ ہوگا اور اس کا حکم رد کیا جائے گا۔ قاضی عیاض نے کہا : اس شخص کے احکام میں کوئی اختلاف نہیں جس کو آزار کیا گیا ہو اور اسے آزادی کے علم نہ ہو اس کے اور لوگوں کے درمیان احکام آواز والے ہوں گے اور اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اس کے احکام جائز ہوں گے۔ اور اس میں اختلاف نہیں کہ آزاد کی گئی عورت آزادی کے بعد پڑھی گئی کے بارے میں جس پر کوئی ایسا موجب طاری ہو جو اس کی عبادت کے حکم کو تبدیل کر دے جب کہ وہ اس کی عبادت میں ہو، قبا کے مسئلہ پر قیاس کرتے ہوئے۔ پس جس نے ایک حال پر نماز پڑھی پھر نماز مکمل کرنے سے پہلے اس کی وہ حالت بدل گئی تو وہ اپنی نماز کو مکمل کرے اور توڑے نہیں اور اس کی پہلی نماز ہوچکی ہے۔ اسی طرح جس نے برہنہ نماز پڑھی پھر نماز کے اندر ہی اسے کپڑا مل گیا یا حالت صحت میں نماز شروع کی پھر وہ مریض ہوگیا یا مریض تھا پھر صحیح ہوگیا یا بیٹھا تھا پھر قیام پر قادر ہوگیا یالونڈی نماز کے اندر ہی آزاد ہوگئی تو وہ اپنا پردہ لے لے اور سابقہ نماز پر بناء کرے۔ میں کہتا ہوں : جیسے کوئی تیمم کرکے نماز میں داخل ہوا پھر اسنے پانی پالیا تو وہ نماز کو نہ توڑے جیسا کہ امام مالک اور امام شافعی نے کہا ہے۔ بعض نے فرمایا : وہ نما زتوڑ دے یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 10: اس میں خبر واحد کے قبول پر دلیل ہے اور اس پر سلف کا اجماع ہے اور نبی کریم ﷺ کی عادت سے تو اتر کے ساتھ معلوم ہے کیونکہ آپ والیوں کو اور مبلغین کو بھجتے تھے جو ایک ایک ہوتے تھے تاکہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں اور انہیں رسول اللہ ﷺ کے اوامرو نواہی بتائیں۔ مسئلہ نمبر 11: اسمیں دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن تھوڑا تھوڑا اترتا رہا اور ایک حال کے بعد دوسرے حال میں ضرورت کے مطابق اترتا رہا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دین مکمل کیا جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الیوم اکملت کم دینکم (مائد : 3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل للہ المشرق والمغرف حجت قائم فرمائی یعنی مشارق و مغارب کی ملکیت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ پس اس کے لائق ہے جس جہت کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یھدی من یشآء یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قبلہ کی طرف ہدایت دی۔ الصرط سے مراد راستہ ہے المستقیم جس میں ٹیڑھا پن نہ ہو۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔
Top