Mualim-ul-Irfan - Al-Muminoon : 101
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب نُفِخَ : پھونکا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں فَلَآ اَنْسَابَ : تو نہ رشتے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَئِذٍ : اس دن وَّلَا يَتَسَآءَلُوْنَ : اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے
پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ تو ان میں قرابتیں رہیں گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاذا نفخ فی الصور اس نسخہ ثانی ہے۔ فلا انساب بینمھم یو میذ و لا یتسآ لو ن۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وہ آخرت میں نہیں پوچھیں گے نسب کے بارے میں جیسے دنیا میں پوچھتے ہیں یعنی تو کس قبیلہ سے ہے ؟ نہ پوچھیں گے کہ کس نسب سے تعلق رکھتا ہے قیامت کی ہولناکی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے تعارف نہیں طلب کریں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے : نہ نفخہ اولی میں ہوگا جب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہے سب پر غشی طاری ہوجائے گی۔ مگر جسے اللہ چاہے گا (2) ۔ ان کے درمیان اس دن کوئی نسب و رشتہ داری نہ رہے گی اور نہ وہ ایک دوسرے کے متعلق پوچھیں گے پھر اس میں دوسرا صور پھونکا جائے گا۔ جب وہ کھڑے دیکھ رہے ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے طرف سوال کرتے ہوئے متوجہ ہوں گے۔ ایک شخص نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت اور فاقبل بعضھم علی بعض یتسآع لون۔ (الصافات) کے متعلق پوچھا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : پہلے نفخہ میں وہ نہیں پوچھے گے کیونکہ زمین پر کوئی زندہ باقی نہیں رہے گا پس نہ نسب ہوگا نہ سوال ہوگا۔ ربا فاقبل بعضھم علی بعض یتسآء لون۔ تو جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تو ایک دوسرے کے متعلق پوچھیں گے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : اس آیت میں نفخہ ثانی مراد ہے۔ ابو عمر زاذان نے کہا : میں حضرت ابن مسعود کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ اصحاب خیرو برکت مجھ سے ان کی بارگاہ میں سبقت لے گئے ہیں میں نے بلند آواز سے کہا : اے عبداللہ بن مسعود ! یہ اس وجہ سے ہے کہ میں عجمی ہوں آپ نے ان کو قریب کیا ہے اور مجھے دور کیا ہے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : قریب ہو، میں قریب ہو، میں قریب ہوا حتی کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی بیٹھنے والا نہ تھا میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا : بندے یا بندی کا ہاتھ قیامت کے دن پکڑا جائے گا اوّلین و آخرین کے سروں پر اسے کھڑا کیا جائے گا پھر ندادینے والا ندا دے گا : یہ فلاں بن فلاں ہے جس کے لیے حق ہو وہ اپنے حق کی طرف آئے عورت خوش ہوگی کہ اس کے لیے حق اس کے باپ پر یا اس کے خاوند پر یا اس کے بھائی پر یا اس کے بیٹے پر پھیرا جائے گا، پھر حضرت ابن مسعود نے یہ پڑھا : فلا انساب بینھم یو میذو لا یتساء لون۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ان کے حقوق لائو، وہ کہیں گے : یا رب ! دنیا فنا ہوگئی ہے۔ پس میں ان کے حقوق کہاں سے لائوں ؟ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا۔ اس کی نیکیوں سے لے لو اور ہر انسان کو اس کے مطالبہ کی مقدار دے دو ۔ اگر وہ اللہ کا ولی ہوگا ایک رائی کے دانہ کی مقدار نیکیاں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ سے اسے کئی گنا بڑھا دے گا حتیٰ کہ اس کے ذریعے اسے جنت میں داخل کرے گا۔ پھر حضرت ابن مسعود نے یہ پڑھا۔ ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ ج ان تک حسنۃ یضعفھا و یوت من لدنہ اجرا عظیما۔ (النساء) اگر وہ شقی ہوگا تو فرشتے کہیں گے یا رب ! اس کی نیکیاں ختم ہوگئی ہیں اور مطالبہ کرنے والے باقی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : حق طلب کرنے والے کے برے اعمال میں سے لے کر اس کی برائیوں کے ساتھ ملا لو اور اس کے لیے جہنم کا پروانہ لکھ دو (1) ۔
Top