Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 101
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب نُفِخَ : پھونکا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں فَلَآ اَنْسَابَ : تو نہ رشتے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَئِذٍ : اس دن وَّلَا يَتَسَآءَلُوْنَ : اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے
پھر جب پھونک ماریں صور میں تو نہ قرابتیں ہیں ان میں اس دن اور نہ ایک دوسرے کو پوچھے
خلاصہ تفسیر
پھر جب (قیامت کا روز ہوگا اور) صور پھونکا جاوے گا تو (ایسی ہول وہیبت میں گرفتار ہوں گے کہ) ان میں (جو) باہمی رشتے ناتے (تھے) اس روز (وہ بھی گویا) نہ رہیں گے (یعنی کوئی کسی کی ہمدردی نہ کرے گا جیسے اجنبی اجنبی ہوتے ہیں) اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا (کہ بھائی تم کس حالت میں ہو، غرض نہ رشتہ ناتا کام آوے گا نہ دوستی اور تعارف، پس وہاں کام کی چیز ایک ایمان ہوگا جس کی عام شناخت کے لئے کہ سب پر ظاہر ہوجاوے ایک ترازو کھڑی کی جاوے گی اور اس سے اعمال و عقائد کا وزن ہوگا) سو جس شخص کا پلہ (ایمان کا) بھاری ہوگا (یعنی وہ مومن ہوگا) تو ایسے لوگ کامیاب (یعنی نجات پانے والے) ہوں گے (اور مذکور ہول وہیبت کے حالات کہ نہ کسی کا رشتہ کام آوے نہ دوستی اور نہ کوئی کسی کو پوچھے کہ کس حال میں ہو، یہ ان مومنین کو پیش نہ آئیں گے لقولہ تعالیٰ لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ۔ الایة) اور جس شخص کا پلہ (ایمان کا) ہلکا ہوگا (یعنی وہ کافر ہوگا) سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا اور جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے ان کے چہروں کو (اس جہنم کی) آگ جھلسی ہوگی اور اس (جہنم) میں ان کے منہ بگڑے ہوں گے (اور ان سے حق تعالیٰ بالواسطہ یا بلا واسطہ ارشاد فرما ویں گے کہ) کیوں کیا میری آیتیں (دنیا میں) تم کو پڑھ کر سنائی نہیں جایا کرتی تھیں، اور تم ان کو جھٹلایا کرتے تھے (یہ اس کی سزا مل رہی ہے) وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب (واقعی) ہماری بدبختی نے ہم کو (ہمارے ہاتھوں) گھیر لیا تھا اور (بیشک) ہم گمراہ لوگ تھے (یعنی ہم جرم کا اقرار اور اس پر ندامت و معذرت کا اظہار کر کے درخواست کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب ہم کو اس (جہنم) سے (اب) نکال دیجئے (اور دوبارہ دنیا میں بھیج دیجئے لقولہ تعالیٰ فی الم السجدة فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا) پھر اگر ہم دوبارہ (ایسا) کریں تو ہم بیشک پورے قصور وار ہیں (اس وقت ہم کو خوب سزا دیجئے اور اب چھوڑ دیجئے) ارشاد ہوگا کہ اسی (جہنم) میں راندے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات مت کرو (یعنی ہم نہیں منظور کرتے، کیا تم کو یاد نہیں رہا کہ) میرے بندوں میں ایک گروہ (ایمانداروں کا) تھا جو (بیچارے ہم سے) عرض کیا کرتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو ہم کو بخش دیجئے اور ہم پر رحمت فرمائیے اور آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں سو تم نے (محض اس بات پر جو ہر طرح قابل قدر تھی) ان کا مذاق مقرر کیا تھا (اور) یہاں تک (اس کا مشغلہ کیا) کہ ان کے مشغلہ نے تم کو ہماری یاد بھی بھلا دی اور تم ان سے ہنسی کیا کرتے تھے (سو ان کا تو کچھ نہ بگڑا چند روز کی کلفت تھی کہ صبر کرنا پڑا جس کا یہ نتیجہ ملا کہ) میں نے ان کو آج ان کے صبر کا یہ بدلہ دیا، کہ وہی کامیاب ہوئے (اور تم اس ناکامی میں گرفتار ہوئے مطلب جواب کا یہ ہوا کہ تمہارا قصور اس قابل نہیں کہ سزا کے وقت اقرار کرنے سے معاف کردیا جاوے کیونکہ تم نے ایسا معاملہ کیا جس سے ہمارے حقوق کا بھی اتلاف ہوا اور حقوق العباد کا بھی۔ اور عباد بھی کیسے ہمارے مقبول اور محبوب جو ہم سے خصوصیت خاصہ رکھتے تھے کیونکہ ان کو سخریہ بنانے میں ان کی ایذاء کہ اضاعة حق العبد ہے اور تکذیب حق جو منشا سخریہ کا ہے کہ اضاعة حق اللہ ہے دونوں لازم آئے پس اس کی سزا کے لئے دوام اور تمام ہی مناسب ہے اور مومنین کو ان کے سامنے جنت کی نعمتوں سے کامیاب کرنا یہ بھی ایک سزا ہے کفار کیلئے کیونکہ اعداء کی کامیابی سے روحانی ایذا ہوتی ہے یہ تو جواب ہوگیا ان کی درخواستوں کا آگے تنبیہ ہے ان کے بطلان اعتقاد و مشرب پر تاکہ ذلت پر ذلت و حسرت پر حسرت ہونے سے عقوبت میں شدت ہو، اس لئے) ارشاد ہوگا کہ (اچھا یہ بتلاؤ) تم برسوں کے شمار سے کس قدر مدت زمین میں رہے ہوگے (چونکہ وہاں کے ہول وہیبت سے ان کے ہوش و حواس گم ہوچکے ہوں گے اور اس دن کا طول بھی پیش نظر ہوگا) وہ جواب دیں گے کہ (برس کیسے، بہت رہے ہوں گے تو) ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ہم رہے ہوں گے (اور سچ یہ ہے کہ ہم کو یاد نہیں) سو گننے والوں سے (یعنی فرشتوں سے کہ اعمال و اعمار سب کا حساب کرتے تھے) پوچھ لیجئے، ارشاد ہوگا کہ (یوم اور بعض یوم تو غلط ہے مگر اتنا تو تمہارے اقرار سے جو کہ صحیح بھی ہے ثابت ہوگیا کہ) تم (دنیا میں) تھوڑی ہی مدت رہے (لیکن) کیا خوب ہو تاکہ تم (یہ بات اس وقت) سمجھتے ہوتے (کہ دنیا کی بقا ناقابل اعتبار ہے اور اس کے سوا اور کوئی دار القرار ہے مگر وہاں تو بقاء کو دنیا ہی میں منحصر سمجھا اور اس عالم کا انکار کرتے رہے وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ ، اور اب جو غلطی ظاہر ہوئی اور صحیح سمجھے تو بیکار، اور غلطی اعتقاد پر تنبیہ کے بعد آگے پھر اس اعتقاد پر زجر ہے، جو بطور خلاصہ مضمون فرد قرار داد جرم کے ہے کہ) ہاں تو کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تم کو یوں ہی مہمل (خالی از حکمت) پیدا کردیا ہے اور یہ (خیال کیا تھا) کہ تم ہمارے پاس نہیں لائے جاؤ گے (مطلب یہ کہ جب ہم نے آیات میں جن کا صدق دلائل صحیحہ سے ثابت ہے قیامت اور اس میں اعمال کے بدلے کی خبر دی تھی تو معلوم ہوگیا تھا کہ مکلفین کی تخلیق کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کا منکر ہونا کتنا بڑا امر منکر تھا)۔

معارف و مسائل
فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ ، قیامت کے روز صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا نفخہ اولیٰ یعنی پہلے صور کا یہ اثر ہوگا کہ سارا عالم زمین و آسمان اور جو اس کے درمیان ہے فنا ہوجائے گا اور نفخہ ثانیہ سے پھر سارے مردے زندہ ہو کر کھڑے ہوجائیں گے قرآن کریم کی آیت ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ اس آیت میں صور کا نفخہ اولیٰ مراد ہے یا نفخہ ثانیہ، اس میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس سے بروایت ابن جبیر منقول ہے کہ اس آیت میں مراد نفخہ اولیٰ ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا اور بروایت عطا یہی بات حضرت ابن عباس سے بھی منقول ہے کہ مراد اس جگہ نفخہ ثانیہ ہے۔ تفسیر مظہری میں اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول یہ ہے کہ قیامت کے روز ایک ایک بندے مرد و عورت کو محشر کے میدان میں لایا جائے گا اور تمام اولین و آخرین کے اس بھرے مجمع کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ایک منادی یہ نداء کرے گا کہ یہ شخص فلاں بن فلاں ہے اگر کسی کا کوئی حق اس کے ذمہ ہے تو سامنے آجائے اس سے اپنا حق وصول کرلے۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ بیٹا اس پر خوش ہوگا کہ میرا حق باپ کے ذمہ نکل آیا، اور باپ کا کوئی حق بیٹے پر ہوا تو باپ خوش ہوگا کہ اس سے وصول کروں گا اسی طرح میاں بیوی اور بھائی بہن جس کا جس پر کوئی حق ہوگا یہ منادی سن کر اس سے وصول کرنے پر آمادہ اور خوش ہوگا، یہی وہ وقت ہے جس کے متعلق اس آیت مذکورہ میں آیا ہے فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ ، یعنی اس وقت باہمی نسبی رشتے اور قرابتیں کام نہ آئیں گی کوئی کسی پر رحم نہ کرے گا، ہر شخص کو اپنی اپنی فکر لگی ہوگی یہی مضمون اس آیت کا ہے يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ ، وَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ ، وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيْهِ ، یعنی وہ دن جس میں ہر انسان اپنے بھائی سے، ماں اور باپ سے، بیوی اور اولاد سے دور بھاگے گا۔
محشر میں مومنین اور کفار کے حالات میں فرق
مگر یہ حال کافروں کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ اوپر اس کا ذکر موجود ہے مومنین کا یہ حال نہیں ہوگا کیونکہ مومنین کا حال خود قرآن نے یہ ذکر کیا ہے اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ، یعنی مومنین صالحین کی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ (بشرط ایمان) اپنے آباء صالحین کے ساتھ لگا دیں گے اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز جس وقت محشر میں سب پیاسے ہوں گے تو مسلمان بچے جو نابالغی کی حالت میں مر گئے تھے وہ جنت کا پانی لئے ہوئے نکلیں گے لوگ ان سے پانی مانگیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو اپنے ماں باپ کو تلاش کر رہے ہیں یہ پانی ان کے لئے ہے (رواہ ابن ابی الدنیا عن عبداللہ بن عمر و عن ابی ذر۔ مظہری)
اسی طرح ایک صحیح حدیث میں جس کو ابن عساکر نے بسند صحیح حضرت ابن عمر سے نقل کیا ہے یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہر نسبی تعلق یا زوجیت کے تعلق سے جو رشتے پیدا ہوں گے وہ سب منقطع ہوجائیں گے (کوئی کسی کے کام نہ آوے گا) بجز میرے نسب اور میری زوجیت کے رشتہ کے، علماء نے فرمایا کہ اس نسب نبوی میں ساری امت کے مسلمان بھی داخل ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ امت کے باپ اور آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ رشتہ اور دوستی کا کوئی تعلق کسی کے کام نہ آنا یہ حال محشر میں کافروں کا ہوگا مومنین ایک دوسرے کی شفاعت اور مدد کریں گے اور ان کے تعلقات ایک دوسرے کے کام آئیں گے۔
وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ، یعنی آپس میں کوئی کسی کی بات نہ پوچھے گا اور دوسری ایک آیت میں جو یہ مذکور ہے وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ ، یعنی محشر میں لوگ باہم ایک دوسرے سے سوالات کریں گے اور حالات پوچھیں گے۔ اس کے بارے میں حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ محشر میں مختلف موقف ہوں گے ہر موقف کا حال مختلف ہوگا۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ کوئی کسی کو نہ پوچھے گا پھر کسی موقف میں جب وہ ہیبت اور ہول کا غلبہ کم ہوجائے گا تو باہم ایک دوسرے کا حال بھی دریافت کریں گے۔ (مظھری)
Top