Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Noor : 2
اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيَةُ
: بدکار عورت
وَالزَّانِيْ
: اور بدکار مرد
فَاجْلِدُوْا
: تو تم کوڑے مارو
كُلَّ وَاحِدٍ
: ہر ایک کو
مِّنْهُمَا
: ان دونوں میں سے
مِائَةَ جَلْدَةٍ
: سو کوڑے
وَّلَا تَاْخُذْكُمْ
: اور نہ پکڑو (نہ کھاؤ)
بِهِمَا
: ان پر
رَاْفَةٌ
: مہربانی (ترس)
فِيْ
: میں
دِيْنِ اللّٰهِ
: اللہ کا حکم
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ
: تم ایمان رکھتے ہو
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: اور یوم آخرت
وَلْيَشْهَدْ
: اور چاہیے کہ موجود ہو
عَذَابَهُمَا
: ان کی سزا
طَآئِفَةٌ
: ایک جماعت
مِّنَ
: سے۔ کی
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع) مسلمان
بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب ان کی بدکاری ثابت ہوجائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو اور اگر تم خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو شرع خدا (کے حکم) میں تمہیں ہرگز ترس نہ آئے اور چاہیے کہ انکی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو
مسئلہ نمبر
1
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ الزانیۃ و الزانی زنا لغت میں شریعت سے پہلے بھی معروف تھا جیسے سرقہ (چوری) اور قتل کے اسم پہلے موجود تھے۔ زنا کا مطلب ہے مرد کا عورت کی فرج (شرمگاہ) میں بغیر نکاح اور بغیر شبہ نکاح کے عورت کی رضا کے ساتھ جماع کرنا۔ اگر تو چاہے تو یوں بھی کہہ سکتا ہے فرج کا طبعا مشتبی فرج میں داخل کرنا جو شرعاً حرام ہو۔ جب ایسی صورت ہو تو حد واجب ہوتی ہے۔ زنا کی حد اور اس کی حقیقت اور اس کے متعلق علماء کے اقوال گزر چکے ہیں یہ آیت حبس کی آیت اور اذیت والی آیت جو سورة نساء میں ہے ان کے لیے بالا تفاق ناسخ ہے۔ مسئلہ نمبر
2
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مائۃ جلدۃ۔ یہ آزاد، بالغ، غیر شادی شدہ زنا کرنے والے کی حد ہے۔ اسی طرح آزاد، بالغہ غیر شادی شدہ عورت کی حد ہے اور سنت سے ایک سال کی جلا وطنی بھی ثابت ہے۔ اس جلا وطنی میں اختلاف ہے اور لونڈیاں اگر زنا کریں گی تو ان پر پر پچاس درے ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان اتین بفا حشۃ فعلیھن نصف ما علی المحصنت من العذاب (النساء :
25
) یو لونڈی کے بارے میں ہے۔ اور غلام بھی اسی کے معنی میں ہے۔ رہا آزاد لوگوں میں شادی شدہ تو اس پر کوڑے نہیں رجم ہوگا۔ اور بعض علامء یہ کہتے ہیں کہ پہلے اسے سو کوڑے مارے جائیں گے پھر اس رجم کیا جائے گا یہ سب چھ سورة النساء میں تفصیلا گزر چکا ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ نمبر
3
۔ جمہور نے الزانیۃ والزانی کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ عیسیٰ بن عمر ثقفی نے الزانیۃ نصب کے ساتھ پڑھا ہے ؛ یہ سببویہ کے نزدیک زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ ان کے نزدیک تیرے اس قول کی طرح ہے : زیداضرب اور سیبویہ کے نزدیک رفع کی وجہ یہ ہے کہ یہ مبتدا کی خبر ہے تقدیر اس طرح ہوگی فیما یتلی علیکم حکم الزانیۃ والزانی۔ رفع پر علماء کا اجماع ہے اگرچہ سیبویہ کے نزدیک قیاس نصب تھا فراء، مبرد اور زجاج کے نزدیک رفع زیادہ بہتر ہے اور خبر فاجلدوا کے قول میں ہے کیونکہ اس کا معنی ہے الزانیۃ والزائی مجلودان بحکم اللہ۔ بدکارہ عورت اور بدکار مرد کو اللہ کے حکم سے کوڑے لگائے جائیں گے۔ یہ عمدہ قول ہے اور یہ اکثر نحویوں کا قول ہے۔ اگر تو چاہے تو خبر مقدر کرے ینبغی ان یجلدا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے الزان بغیر یاء کے پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر
4
۔ اللہ تعالیٰ نے مذکر اور مونث کا ذکر کیا حالانکہ الزانی کا لفظ دونوں طرف سے کافی تھا۔ بعض علماء نے کہا : دونوں کا ذکر تاکید کے لیے ہے جیسے فرمایا : والسارق والسارقہ فاقطعوا ایدیھما (المائدہ :
38
) یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں کا ذکر اس لیے فرمایا تاکہ کوئی گمان کرنے والا یہ گمان نہ کرے کہ مرد وطی کرنے والا تھا اور عورت محل وطی تھی اس لیے وہ وطی کرنے والی نہیں اس لیے اس پر حد واجب نہ ہوگی تو اس اشکال کو دور کرنے کے لیے دونوں کا ذکر فرمایا : یہ اشکال علماء کی ایک جماعت نے وارد کیا ہے۔ جن میں امام شافعی بھی ہیں انہوں نے کہا : رمضان میں عورت پر وطی کی صورت میں کفارہ نہیں ہے۔ کیونکہ ایک شخص نے کہا میں نے رمضان شریف میں دن کے وقت اپنی بیوی سے مجامعت کی ہے تو نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا کفر تو کفارہ دے۔ اس کو آپ نے کفارہ کا حکمدیا۔ عورت نہ مجامعت کرنے والی ہے اور نہ وطی کرنے والی ہے۔ مسئلہ نمبر
5
۔ الزانیۃ کو مقدم کیا گیا ہے کیونکہ اس زمانہ میں عورتوں کا زنا عام تھا عربوں کی لونڈیوں اور فاحشتہ عورتوں کے گھروں پر جھنڈے لگے ہوتے تھے اور وہ سر عام زنا کرتی تھیں۔ بعض علماء نے کہا : چونکہ عورت میں زنازیادہ عار کا باعث ہے یہ اسی کی وجہ سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ بعض نے کہا : عورت میں شہوت زیادہ ہوتی ہے اور اس پر شہوت غالب ہوتی ہے اس کا پہلے ذکر کیا تاکہ وہ شہوت سے رک جائے اگرچہ عورت میں حیاء رکھا گا ہے۔ لیکن جب وہ زنا کرتی ہے تو اس کا حیاء ختم ہوجاتا ہے نیز عورتوں کی وجہ سے عارزیادہ لا حق ہوتی ہے کیونکہ ان کو موضوع پر دہ اور حفاظت ہے اس لیے تغلیظان اور اہتماماان کا پہلے ذکر کیا۔ مسئلہ نمبر
6
۔ الزانیۃ اور الزانی پر الف لام جنس کے لیے ہے۔ یہ عام ہے اور تمام بدکاروں کو شامل ہے اور جنہوں نے رجم کے ساتھ درعوں کا قول کیا ہے انہوں نے کہا : سنت میں حکم کی زیادتی آئی ہے پس کوڑوں کے ساتھ رجم بھی ہوگا۔ ؛ یہ اسحاق بن راہویہ، حسن بن ابی الحسن کا قول ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے شراحہ سے ایسا ہی کیا تھا۔ اس کا بیان سورة النساء میں گزر چکا ہے۔ جمہور علماء نے کہا : یہ غیر شادی شدہ کے ساتھ خاص ہے۔ انہوں نے غلاموں اور لونڈیوں کے خروج کی وجہ سے اس کے غیر عام ہونے پر استدلال کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
7
۔ اللہ تعالیٰ نے اس سزا پر نص قائم فرمائی جو بدکاری کرنے والوں پر واجب ہوگی جب ان کے خلاف گواہی قائم ہوجائے گی جیسا کہ آگے آئے گا۔ علماء کا اس قول پر اجماع ہے اور اس میں اختلاف ہے ایک شخص ایک عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں پایا جائے تو اس کیا واجب ہے ؟ اسحاق بن راہو یہ نے کہا : ان میں سے ہر ایک کو سو سوکوڑے لگائے جائیں گے ؛ یہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے۔ یہ ان دونوں حضرات سے ثابت نہیں ہے۔ عطا اور سفیان نوری نے کہا : ان کو ادب سکھایا جائے گا ؛ یہی امام مالک اور امام احمد کا قول ہے جیسا کہ ادب میں ان کے مذاہب کی قدر پر ابن المنذر نے کہا : اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جو اس حالت میں پایا جائے اس پر ادب ہے۔ اس میں جو مختار ہے وہ سورة ہود میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر
8
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاجلدو فاء داخل ہوئی ہے کیونکہ یہ امر کی جگہ ہے اور امر شرط کے لیے مضارع ہے۔ مبرد نے کہا : اس میں جزا کا معانی ہے، یعنی اگر زنا کرنے والا زنا کرے و اس کے ساتھ ایسا کرو، اسی وجہ سے فا داخل ہوئی اسی طرح والسارق والسار قۃ فاقطعو ایدیھما (المائدہ :
38
) ہے۔ مسئلہ نمبر
9
۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس امر کے ساتھ مخاطب امام اور اس کا نائب ہے۔ امام مالک اور امام شافعی نے فرمایا : ہر کوڑے اور قطع میں یہ حکم ہے۔ امام مالک نے فرمایا کوڑوں میں ہے۔ قطع میں یہ حکم نہیں۔ بعض نے کہا : یہ خطاب مسلمانوں کے لیے ہے کیونکہ دین کے مراسم کو قائم کرنا مسلمانوں پر واجب ہے پھر امام ان کے قائم مقام ہوتا ہے۔ کیونکہ حدود کے قائم کرنے پر اجتماع ممکن نہیں۔ مسئلہ نمبر
10
۔ علماء کا اجماع ہے کوڑے مارنا دُرّے کے ساتھ واجب ہے اور وہ کوڑا درمیانی صورت میں ہوگا نہ بہت سخت اور نہ بہت زیادہ نرم۔ امام مالک نے حضرت زید بن آم سے روایت کیا ہے (
1
) کہ ایک شخص نے عہد رسالت میں زنا کا اعتراف کیا تو آپ ﷺ نے اس کے لیے ایک کوڑا منگوایا تو آپ کے پاس ٹوٹا ہوا کوڑا لایا گیا آپ نے فرمایا : ” اس سے بہتر ہو “۔ پھر ایک نیا کوڑا لایا گیا جو زیادہ تیز تھا۔ آپ نے فرمایا : ” اس سے کم ہو “ پھر کوڑا لایا گیا آپ نے فرمایا : ” اس سے بہتر ہو “۔ پھر ایک نیا کوڑا لایا گیا جو زیادہ تیز تھا۔ آپ نے فرمایا :” اس سے کم ہو “ پھر کوڑا لایا گیا جو درمیانی قسم کا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے ساتھ مارنے کا حکم دیا۔ ابو عمر نے کہا : مئو طا کے تمام رواۃ نے اس حدیث کو اسی طرح مرسل روایت کیا ہے، میں نہیں جانتا کہ اس لفظ کے ساتھ متصل سند سے مروی ہے۔ معمر نے یحییٰ بن کثیر سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی مثل روایت کیا ہے۔ سورة المائدہ میں حضرت عمر ؓ کا قدامہ کو شراب پینے کی وجہ سے مکمل کوڑے سے مارنا گزر چکا ہے، یعنی متوسط کوڑے سے مارا۔ مسئلہ نمبر
11
۔ علماء کا اختلاف ہے کہ زنا میں سزا پانے والے کے کپڑے اتارے جائیں گے یا نہیں ؟ امام مالک، امام ابوحنیفہ وغیرہ ہما کا قول ہے کہ اس کے کپڑے اتارے جائیں گے اور عورت پردہ لباس رہنے دیا جائے گا جو باعث پردہ ہو نہ کہ وہ جو اسے ضرب سے بچائے۔ امام اوزاعی نے فرمایا : امام کو اختیار رہے چاہے تو اس کے کپڑے اتارے چاہے تو نہ اتارے۔ شعبی اور نخفی نے کہا : اس کے کپڑے نہیں اتارے جائیں گے لیکن اس پر قمیص چھوڑی جائے گی۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا : اس امت میں کپڑے اتارنا اور لمبا کرنا نہیں ہے ؛ یہی ثوری کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر
12
۔ علماء کر مردوں اور عورتوں کو ضرب لگانے کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے فرمایا : مرد اور عورت تمام حدود میں برابر ہیں۔ ان میں کوئی کھڑا نہیں کیا جائے گا اور یہ صرف پیٹھ پر لگائی جائے گی۔ اصحاب الرائے اور امام شافعی کا خیال ہے کہ مرد کو کھڑا کر کے کوڑے لگائیں جائیں گے، یہی حضرت علی بن ابی طالب کا قول ہے۔ لیث بن سعد، امام ابوحنیفہ اوعر امام شافعی نے کہا : تمام حدود میں اور تعزیر میں لٹائے بغیر کھڑا کر کے کپڑے اتار کر سزادی جائے گی۔ سوائے حد قذف کے۔ اسے مارا جائے گا جب کہ اس پر کپڑے ہوں گے ؛ یہ مہدوی نے التحصیل میں امام مالک سے روایت کیا ہے اس سے پوستین اور جیکٹ وغیرہ اتار لی جائے گی۔ امام شافعی نے فرمایا : اگر اس کو لٹانے میں صلاح ہو تو اسے لٹایا جائے گا۔ مسئلہ نمبر
13
۔ ان مواضع میں اختلاف ہے حدود میں انسان کو جہاں مارا جائے گا ؟ امام مالک نے کہا : ساری حدود کی سزا پیٹھ پر دی جائے گی اور یہی حکم تعزیز کا بھی ہے (
1
) ۔ امام شافعی اور ان کے اصحاب نے کہا : چہرے اور شرمگاہ کو بچایا جائے گا اور باقی تمام اعضاء پر مارا جائے گا۔ (
2
) ۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے۔ حضرت ابن عمیر ؓ نے لونڈی کی ٹانگوں کی طرف اشارہ کیا جسے زنا میں کوڑے لگنے تھ۔ ابن عطیہ نے کہا : اس پر اجماع ہے کہ چہرے، شرمگاہ اور ایسی جگہ پر نہیں مارا جائے گا۔ جس کی وجہ سے مرنے کا اندیشہ ہو، سر پر مارنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ جمہور نے کہا : سر کو بچایا جائے گا حضرت عمر نے صبیغ بن گصل کو سر پر مارا اور یہ تعزیز تھی، حد نہیں تھی۔ امام مالک کی حجت میں سے یہ ہے جس پر لوگوں کو انہوں نے پایا اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ” دلیل پیش کرو ورنہ پیتھ پر حد لگے گی “ (
3
) ۔ مسئلہ نمبر
14
۔ ایسی ضرب لگانا واجب ہے جو تکلیف تو پہنچائے مگر زخمی نہ کرے نہ عضو کو کاٹے اور مارنے والا اپنا ہاتھ اپنی بغل کے نیچے سے نہ نکالے، یہی جمہور کا قول ہے یہی حضرت علی، حضرت ابن مسعود ؓ کا قول ہے۔ حضرت عمر ؓ کے پاس حد کے سلسلہ میں ایک شخص کو لایا گیا تو آپنے درمیانہ کوڑا منگوایا اور مارنے والے کو کہا : تو اسے مار لیکن تیری بغل نظر نہ آئے اور ہر عضو کو اس کا حق دے۔ حضرت عمر ؓ کے پاس حد کے سلسلہ میں ایک شخص کو لایا گیا آپ نے درمیانہ کوڑا منگوایا اور مارنے والے کو کہا : تو اسے مار لیکن تیری بغل نظر نہ آئے اور ہر عضو کو اس کا حق دے۔ حضرت عمر ؓ کے ایک شرابی لایا گیا آپ نے فرمایا : میں تجھے ایسے شخص کے پاس بھیجوں گا جسے تم پر نرمی نہ آئے گی تو حضرت عمر ؓ نے کہا : اس کو مطیع بن اسود عدوی کی طرف بھیجا اور فرمایا جب تو کل صبح کرے تو اسے حد لگانا۔ حضرت عمر ؓ آئے تو وہ اسے سخت کوڑے مار رہا تھا حضرت عمر ؓ نے کہا : تو نے آدمی کو قتل کردیا، تو انے اسے کتنی ضربیں لگائی ہیں ؟ اس نے کہا ؛ ساٹھ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : بیس باقی ہیں ان کے بدلے میں اس شدت کو کردے جو تو نے اسے پہنچائی ہے اور مزید بیس کوڑے نہ لگائو۔ اس حدیث سے یہ سجھ آتا ہے کہ شراب پینے والے کو سخت کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔ حدود میں سخت ضرب کس حد تک ہوگی ؟ اس میں علما میں اختلاف ہے۔ مسئلہ نمبر
15
۔ امام مالک اور ان کے اصحاب اور لیث بن سعد نے کہا : تمام حدود میں ضراب برابر ہے۔ وہ ضرب زخمی کرنے والی نہ ہوگی۔ اور درمیانی ضرب ہوگی ؛ یہی امام شافعی کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب نے کہا : تعزیر کی ضرب سخت ترین ضرب ہے اور زنا کی ضرب شراب کی ضرب سے سخت ہے اور شراب پینے والے کی ضرب قذف کی ضرب سے سخت ہے (
4
) ۔ ثوری نے کہا : زنا کی ضرب قذف کی ضرب سے سخت ہے اور قذف کی ضرب شراب کی ضرب سے سخت ہے۔ (
5
) ۔ امام مالک نے کوڑوں کی تعداد پر توقیف کے ورود سے حجت پکڑی ہے۔ اور حدود میں سے کسی حد میں تخفیف اور تثقیل وارد نہیں ہے۔ اس شخص کے متعلق جس کے لیے تسلیم ثابت ہے۔ امام ابوحنیفہ نے حضرت عمر ؓ کے فعل سے حجت پکڑی ہے کہ تعزیر میں جرب، زنا کی ضرب سے شدید ہوگی۔ ثوری نے اس حجت پکڑی ہے کہ زنا میں جب کوڑوں کی تعداد زیادہ ہے تو یہ محال ہے کہ قذف تکلیف میں زیادہ ہو اسی طرح شراب ہے کیونکہ شراب میں حد اجتہاد سے ثابت ہے اور مسائل اجتہاد مسائل توقیف سے زیادہ قوت والے نہیں ہوتے۔ مسئلہ نمبر
16
۔ وہ حد جو اللہ تعالیٰ نے زنا، شراب اور قذف میں واجب کی ہے مناسب ہے کہ وہ حکام کے سامنے لگائی جائے اور اسے فضلاء اور خیار لوگ قائم کریں جن کو امام منتخب کرے اسی طرح صحابہ کرام کرتے تھے جب ان کے لیے کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا تھا اس کا سبب یہ ہے کہ یہ قاعدہ شرعیہ اور قربت تعبدیہ کے ساتھ قائم کیجاتی ہے پس اس کے فعل۔ اس کی مقدار، محل اور حال پر محافظت واجب ہے تاکہ اپنی شروط اور احکام سے کوئی چیز تجاوز نہ کرے کیونکہ مسلم کا خون اور اس کی حرمت بہت زیادہ ہے پس جتنا ممکن ہو سکے اس کی رعایت کرنا واجب ہے۔ صحیح میں حضین بن منذرابی ساسان سے مروی ہے فرمایا : میں عثمان بن عفان کے پاس موجود تھا، ولید کو لایا گیا اس نے صبح لی دو رکعتیں پڑھائیں پھر کہا : کیا میں تمہیں زیادہ پڑھائوں۔ ولید کے خلاف دو آدمیوں نے گواہی دی ایک نے گواہی دی کہ اس نے شراب پی تھی، دوسرے نے گواہی دی اس نے اس کو قئی کرتے دیکھا حضرت عثمانؓ نے فرمایا : اس نے قی نہیں کہ حتی اس نے شراب پی تھی۔ حضرت عثمان ؓ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا : اٹھو اور اسے کوڑے لگائو۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : اے حسن ! اٹھو اور اسے کوڑے لگائو، جس نے کہا : یہ کام اس کے سپرد کرو جن کو یہ خلافت اچھی لگتی ہے، گویا حضرت حسن نا راضگی کا اظہار کیا۔ حضرت علی ؓ نے کہا : اے عبداللہ بن جعفر ! تم اٹھو اور اس کو کوڑے لگائو۔ پس حضرت عبداللہ بن جعفر نے اسے کوڑے لگائے اور حضرت علی ؓ نے انہیں شمار کیا (
1
) ۔ سورة المائدہ میں یہ حدیث گزر چکی ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے حضرت علی ؓ کو فرمایا : اٹھو اور اسے کوڑے لگائو۔ مسئلہ نمبر
17
۔ اللہ تعالیٰ نے قذف اور زنا میں کوڑوں کی تعداد پر نص قائم فرمائی ہے اور شراب میں اسی کوڑوں پر تمام صحابہ کی موجودگی میں حضرت عمرؓ کے فعل سے توقیف ثابت ہے۔ پس ان میں حد سے زیادہ تجاوز نہیں کیا جائے گا۔ ابن عربی نے کہا : یہ اس وقت تک ہے جو لوگ شرمین مگن نہ ہوں اور انہیں گناہ میں لذت نہ ہو لیکن جب وہ گناہوں کو عادت بنا لیں اور بار بار گناہ کریں حد کو آسان سمجھیں اور وہ برائی سے باز نہ آئیں تو پھر شدت متعین ہوجائے گی اور گناہ کی زیادتی کی وجہ سے حد زیادہ کی جائے گی۔ حضرت عمر ؓ کے پاس رمضان میں ایک نشئی کو لایا گیا تو آپ نے اس سے کوڑے لگائے، اسی شراب کی حد کے طور پر اور بیس رمضان کی حرمت توڑنے پر پس جنایات کی تغلیظ اور حرمات کی ہتک پر سزائیں مرکب کروانا واجب ہے۔ ایک شخص نے بچے کے ساتھ بدمعاشی کی تو والی نے اسے تین سو کوڑے مارے۔ امام بالک کو جب اس کی خبر پہنچی تو آپ نے اسے تبدیل نہیں کیا پھر اگر امام ہمارے زمانہ میں حرمات کی ہتک اور گناہوں کی بھر مار اور برائیوں پر تعاون اور حدود کی بیع اور قضاۃ کے منصب پر غلاموں کا فائز ہونا دیکھتے تو غم و غصہ کی وجہ سے فوت ہوجاتے اور کسی کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہ کرتے ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہتر کارساز ہے۔ میں کہتا ہوں : اسی وجہ سے شراب کی حد میں زیادتی کی گئی حتٰی کہ اس کوڑوں تک پہنچ گئی۔ دار قطنی نے روایت کیا ہے ہمیں قاضی ھسین بن اسماعیل نے بیان کیا انہوں نے کہا ہمیں یعقوب بن ابراہیم دورقی نے بیان کیا انہوں نے کہا ہمیں صفوان بن عیسیٰ نے بیان کیا انہوں نے کہا ہمیں اسامہ بن زید نے بیان کیا انہوں نے زہری سے روایت کیا انہوں نے کہا مجھے عبدالرحمن بن زہر نے بتایا انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو جنگ حنین کے دن دیکھا آپ لوگوں کے درمیان تھے آپ خالد بن ولید کی منزل کے بارے میں پوچھ رہے تھے پھر نشہ کی حالت میں ایک شخص لایا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس موجود لوگوں کو فرمایا : ” اسے اس چیز کے ساتھ مارو جو تمہارے پاس ہے “ فرمایا : رسول اللہ ﷺ اس پر مٹی ڈالی۔ فرمایا : پھر حضرت ابوبکر ؓ کے پاس ایک نشی کو لایا گیا، فرمایا : اس دن انہوں نے ضربات کو طلب کیا اور اسے چالیس کوڑے لگائے (
1
) ازہری نے کہا پھر حمید بن عبدالرحمن نے مجھے بتایا انہوں نے ابن وبرہ کلبی سے روایت کیا فرمایا مجھے خالد بن ولید نے حضرت عمر ؓ کی طرف بھیجا فرمایا : میں ان کے پاس آیا تو ان کے پاس حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ﷺ موجود تھے اور وہ ان کے ساتھ مسجد میں سہارا لے کر بیٹھے تھے میں نے کہا : مجھے خالد بن ولید نے آپ کی طرف بھیجا ہے وہ آپ کو سلام کہتے ہیں اور کہتے ہیں لوگ شراب پینے میں مبالغہ کر رہے ہیں اور اس کی سزا کو حقیر سمجھ رہے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : یہ لوگ تمہارے پاس ہیں ان سے پوچھو۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : ہم دیکھتے ہیں جب شرابی شراب پیتا ہے تو ہزیان بکتا ہے اور جب ہزیان بکتا ہے تو تہمت لگاتا ہے اور تہمت لگانے والے پر اسی کوڑے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا : یہی پیغام خالد بن ولید کو پہنچا دو جو حضرت علی ؓ نے کہا ہے۔ فرمایا : حضرت خالد نے اسی کوڑے لگائے اور حضرت عمر ؓ نے بھی اسی کوڑے لگائے۔ فرمایا حضرت عمر ؓ کے پاس جو کوئی کمزور شخص لایا جاتا اور اس سے لغزش ہوئی ہوتی تو اسے چالیس کوڑے لگائے۔ فرمایا حضرت عثمان ؓ نے بھی اسی کوڑے اور چالیس کوڑے لگائے۔ اسی مفہوم سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔ ” اگر چاند موخر ہوتا تو میں تمہارے لیے زیادتی کرتا (
2
) “ جیسے کوئی نا پسند کرنے والا کہتا ہے جب صحابہ کرام صوم وصال رکھنے سے نہ رکے تھے۔ ایک روایت میں ہے : ” اگر ہمارے لیے مہینہ لمبا ہوتا تو میں متواتر صوم و صال رکھتا حتیٰ کہ شدت کرنے والے اپنی شدت کو ترک کردیتے “ (
3
) ۔ حامد بن یحییٰ نے سفیان سے انہوں نے مسعر سے انہوں نے عطاء بن ابی مروان سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی نے نحاشی کو شراب پینے کی وجہ سے سوکوڑے لگائے۔ ابو عمر نے اس کو ذکر کیا ہے اور اس کا سبب ذکر نہیں کیا۔ مسئلہ نمبر
18
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تاخذ کم بھمارافۃ فی دین اللہ۔ محدود پر حد قائم کرنے سے شفقت کی بنا پر نہ رکو، ضرب میں تخفیف نہ کرو تاکہ اسے تکلیف ہی نہ ہو ؛ یہ اہل تفسیر کی ایک جماعت کا قول ہے۔ شعبی، نخعی اور سعید بن جبیر نے کہا : لا تا خذ کم بھما رافۃ یعنی ضرب لگانے اور کوڑے لگانے میں تمہیں رحم نہ آئے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : کسی جگہ حد قائم کرنا وہاں کے لوگوں کے لیے چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے پھر یہ آیت پڑھی الرافۃ میں رحمت سے زیادہ نرمی ہے۔ رافۃ الف کے فتحہ کے ساتھ فعلۃ کے وزن پر پڑھا گیا ہے اور رافۃ فعالہ کے وزن پر بھی پڑھا گیا ہے۔ یہ تین لغات ہیں یہ تمام مصادر ہیں زیادہ مشہور پہلا ہے یہ روئف سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے نرمی کرنا اور حم کرنا کہا جاتا ہے : رأُفۃ ورآفۃ جیسے کا بہ و کا بۃ۔ وقد رافت بہ ورئوفت بہ۔ الردف اللہ تعالیٰ کی صفات سے ہے۔ العطوف کا معنی الرجیم ہے۔ مسئلہ نمبر
19
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ فی دین اللہ یعنی اللہ کے حکم میں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ما کان لیا خذ اخاہ فی دین الملک (یوسف :
76
) یعنی فی حکمہ۔ بعض نے کہا : فی دین اللہ کا مطلب ہے فی طاعۃ اللہ و شرعہ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں حدود کے قائم کرنے کا جو حکم دیا ہے اس میں اس کی شریعت اوعر اس کی طاعت میں، پھر انہیں تثبت اور ابھار نے کے معنی پر ان کنتم تو منون باللہ کے قول سے قائم فرمایا : یہ اس طرح ہے جیسے تو کسی شخص کو ابھارتے ہوئے کہتا ہے : اگر تو مرد ہے تو ایسا کر یعنی یہ مردوں کے کام ہیں۔ مسئلہ نمبر
20
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولیشحد غذا بھما طائفۃ من المومنین۔ بعض علماء نے کہا : اس کا مطلب ہے انہیں تعذیب دینے کے لیے وہ حاضر ہوں جو تادیب کے مستحق ہوں۔ مجاہد نے کہا : ایک آدمی سے لے کر ہزار آدمیوں تک۔ ابن زید نے کہا : چار آدمیوں کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے زنا کی شہادت پر قیاس کیا ہے۔ یہ اس کا ایک باب ہے ؛ یہی امام مالک، لیث اور امام شافعی کا قول ہے۔ عکرمہ اور عطا نے کہا : دو آدمیوں کا ہونا ضروری ہے (
1
) ۔ یہ امام مالک کا مشہور قول ہے، پس انہوں نے اس کو شہادت کی جگہ دیکھا۔ زہری نے کہا : تین آدمی ہوں کیونکہ یہ جمع کا کم از کم فرد ہے۔ حسن نے کہا : ایک یا ایک سے زائد ہوں، ان سے مروی ہے کہ دس ہوں۔ ربیع نے کہا : تین سے زائدہ ہوں مجاہد کی حجت یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ فلو لا نفر من ملک فر قۃ منہم طائفۃ (التوبہ :
122
) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وان طائفتان اگر دو گروہ، یہ دو آدمیوں کے لڑنے کے متعلق نازل ہوئی، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولیشھد عذابھما طائفۃ من المومنین۔ ایک کو بھی طائفہ کہا جاتا ہے۔ اور ہزار تک افراد کو طائفہ کہا جاتا ہے ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور ابراہیم کا قول ہے۔ حضرت ابو برزہ اسلمی نے ایک لونڈی کے بارے میں حکم دیا جس نے بدکاری کی تھی اور بچہ جنم دیا تھا انہوں نے اس لونڈی پر کپڑا ڈال دیا تھا اور پھر اپنے بیٹے کو اسے پچاس ایسی ضربیں مارنے کو کہا جو زخمی کرنے والی نہ ہوں اور نہ اتنی ہلکی ہوں کہ تکلیف محسوس نہ ہو اور انہوں نے ایک جماعت کو بلایا پھر یہ آیت پڑھی ولیشھد عذابھما طائفۃ من المومنین۔ مسئلہ نمبر
21
۔ جماعت کے حضور سے مراد کیا ہے ؟ اس میں اختلاف ہے کیا اس سے مقصود بدکاروں پر سختی اور موجود لوگوں کو تو بیخ ہے ؟ یہ محدود کو روکتا ہے اور جو موجودہ ہوتے ہیں انہیں نصیحت ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے جھڑک ہوتی ہے اس کی بات کی تشہیر ہوجاتی ہے اور بعد والے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں یا انکے لیے تو بہ اور رحمت کی دعا کرتے ہیں اس میں علماء کے دو قول ہیں۔ مسئلہ نمبر
22
:۔ حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” اے لوگو ! زنا سے بچو کیونکہ اس میں چھ خصال ہیں تین دنیا میں اور تین آخرت میں جو دنیا میں ظاہر ہوتی ہیں وہ یہ ہیں۔ چہرے کی رونق ختم ہوجاتی ہے، فقر اور غربت آجاتی ہے اور عمر کم ہوجاتی ہے۔ اور وہ جو آخرت میں ظاہر ہوں گی۔ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوگی، حساب برا ہوگا اور ہمیشہ کے لیے دوزخ میں جلنا ہوگا “۔ حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ہر جعمہ میں مجھ پر میری امت کے اعمال دو مرتبہ پیش کیے جاتے ہیں پس زنا کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب سخت ہوتا ہے “ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے فرمایا : ” جب پندرہ شعبان کی رات ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ میری امت پر کرم کی نظر فرماتا ہے۔ اور ہر اس مومن کو بخش دیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھراتا مگر پانچ افراد کی بخشش نہیں ہوتای، جادو گر، کاہن، والدین کا نافرمان، ہمشیہ شراب پینے والا اور زنا پر اصرار کرنے والا “ (
1
)
Top