Tafseer-e-Baghwi - An-Noor : 2
اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيَةُ : بدکار عورت وَالزَّانِيْ : اور بدکار مرد فَاجْلِدُوْا : تو تم کوڑے مارو كُلَّ وَاحِدٍ : ہر ایک کو مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے مِائَةَ جَلْدَةٍ : سو کوڑے وَّلَا تَاْخُذْكُمْ : اور نہ پکڑو (نہ کھاؤ) بِهِمَا : ان پر رَاْفَةٌ : مہربانی (ترس) فِيْ : میں دِيْنِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَلْيَشْهَدْ : اور چاہیے کہ موجود ہو عَذَابَهُمَا : ان کی سزا طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنَ : سے۔ کی الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مسلمان
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد ان میں سے ہر ایک کو سو درے مارو اور اللہ کے دین میں ان دونوں کے بارے میں تمہیں رحمت نہ پکڑے اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور ان کی سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت حاضر رہے۔
شرعی حدود میں سختی کیوں ہے اس کے بعد زنا کرنے والے مرد اور زنا کرنے والی عورت کی سزا بیان فرمائی اور فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ سزا جاری کرنے میں تمہیں ان پر رحم نہ آئے۔ اللہ کے قانون کے سامنے کسی کی رو رعایت اور کسی پر کوئی رحم کرنا ترس کھانا درست نہیں ہے اللہ تعالیٰ ارحم الرحمین ہے جب اس نے سزا کا حکم دیدیا گو وہ سزا تمہاری نظروں میں سخت ہے تو اسے نافذ ہی کرنا ہے، اس نے انسان کو پیدا کیا وہ انسان کے مزاج عادت و خصلت کو پوری طرح جانتا ہے اسے معلوم ہے کہ انسان اپنی طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے کون سی سزا سے زنا کاری کے جرم سے رک سکتا ہے چونکہ اس میں رانی مرد اور زانیہ عورت کی سزا کے ساتھ دوسروں کو عبرت دلانا بھی مقصود ہے اس لیے یہ بھی حکم دیا کہ جب ان کو زنا کی سزا دی جائے تو اس وقت مومنین کی ایک جماعت حاضر رہے، بہت لوگ حاضر ہوں گے تو انہیں بھی عبرت حاصل ہوگی اور سزا کا واقعہ اپنی مجلسوں اور قبیلوں میں باہر سے آنے جانے والے مسافر کی ملاقاتوں میں ذکر کریں گے تو سب میں عبرت ناک سزا کا چرچا ہوگا جس سے عمومی طور پر پورے ملک میں عفت و عصمت کی فضا بنے گی اور لوگ زنا کاری سے باز رہیں گے۔ حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ دور اور نزدیک اللہ کی حدود قائم کرو اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اللہ کے حکم کے بارے میں تمہیں نہ پکڑے (رواہ ابن ماجہ) تمہیں کسی کی ملامت نہ پکڑے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو نافذ کیا کرو، دشمن اعتراض کریں گے اس کو نہ دیکھو۔ آج کل حکومتیں مخلوق کے طعن وتشنیع سے ڈرتی ہیں اور دشمنوں کے اعتراضات کا خیال کر کے شرعی حدود قائم نہیں کرتیں۔ شرعی حدود قائم کرنے میں بہت بڑی خیر ہے حدود قائم ہوں گی تو گناہ ختم ہوں گے یا کم ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوگی رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ زمین میں ایک حد قائم کی جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ چالیس دن بارش برستی رہے۔ (رواہ ابن ماجہ) یعنی چالیس دن بارش ہونے کا جو نفع ہے اس سے کہیں زیادہ خیرات و برکات کا نزول ہوگا جبکہ اللہ کی ایک حد قائم کردی جائے گی۔ موجودہ حکومتوں نے رضا مندی سے زنا کرنے کو تو قانونی طور پر جائز ہی کر رکھا ہے اور فاحشہ عورتوں کو یہ پیشہ اختیار کرنے پر لائسنس دیتی ہیں اور تھوڑی بہت جو قانونی گرفت ہے وہ زنا بالجبر پر ہے۔ لیکن بالجبر زنا کرنے والا بھی پکڑا نہیں جاتا اور اگر پکڑا گیا تو مختصر سی جیل میں رہنے کی سزا دی جاتی ہے اس سزا سے بھلا زنا کار اپنی عادت بد کہاں چھوڑ سکتا ہیں۔ جو حکومتیں ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو مسلمان ہونے کے مدعی ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ مجرمین پر شرعی سزائیں نافذ کرو، ڈاکوؤں کو قتل کرو، چوروں کا ہاتھ کاٹو، زنا کار مرد اور عورت کو زنا کاری کی سزا دو ، (غیر محصن ہیں تو سو کوڑے لگاؤ اگر محصن ہیں تو سنگسار کر دو ) تو اس پر ان لوگوں کو چوروں اور ڈاکوؤں اور زنا کاروں پر رحم آجاتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرما دیا ہے (وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ ) (اور تمہیں اللہ کے دین کے بارے میں ان دونوں کے ساتھ رحم کے برتاؤ کا جذبہ نہ پکڑے) اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ جو سراپا کفر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جاری فرمودہ حدود کو ظالمانہ اور وحشیانہ سزائیں کہہ دیتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ پھر بھی مسلمانی کے دعویدار ہیں، مجرمین کو شرعی سزائیں نہیں دی جاتی ہیں اس کی وجہ سے ڈاکہ اور زنا کی کثرت ہے چوریاں بھی بہت ہو رہی ہیں زنا کاری کے اڈے بھی کھلے ہوئے ہیں اور ان اڈوں کے علاوہ جگہ جگہ زنا کاری ہوتی رہتی ہے۔ اور اپنے عوام کو اور دشمنان اسلام کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔ اور حکومت باقی رکھنے کے جذبات لیے پھرتے ہیں جب یہ صورت حال ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد کیسے آئے فَتَذَکَّرُوْا یَآ اُولِی الْاَلْبَابِ ۔ چند مسائل متعلقہ حد زنا مسئلہ : جو مرد و عورت آزاد ہو یعنی کسی کا مملوک نہیں عاقل ہو بالغ ہو مسلمان ہو اس کا نکاح شرعی ہوا ہو پھر آپس میں میاں بیوی والا کام بھی کیا ہو تو ایسے مرد و عورت کو محصن کہتے ہیں اگر ان میں سے کوئی زنا کرے تو اس کی سزا رجم یعنی سنگسار کرنا (یعنی پتھر مار مار کر) ہلاک کردینا ہے اور جو مرد و عورت محصن نہ ہو اگر وہ زنا کرے تو ان کی سزا سو کوڑے ہیں۔ مسئلہ : کوڑے لگاتے وقت یہ خیال کرلیا جائے کہ اگر مرد کوڑے لگائے جا رہے ہیں تو ستر عورت کے لیے جتنے کپڑے کی ضرورت ہے وہ اس پر باقی رہے باقی کپڑے اتار دیئے جائیں، اور اگر عورت کو کوڑے لگاتے جائیں تو اس کے عام کپڑے نہ اتارے جائیں ہاں اگر اس نے لحاف اوڑھ رکھا ہے یا کوئی اور ایسی چیز پہن رکھی ہے جو مارنے کی تکلیف سے بچا سکتی ہے تو اس کے بدن سے نکال لی جائے گی۔ مسئلہ : مرد کو کھڑا کر کے اور عورت کو بٹھا کر کوڑے لگائے جائیں۔ مسئلہ : ایسے کوڑے سے مارا جائے گا جس کے آخر میں گرہ لگی ہوئی نہ ہو اور یہ مارنا درمیانی درجہ کا ہو اور ایک ہی جگہ کوڑے نہ مارے جائیں بلکہ متفرق طور پر اعضائے جسم پر مارے جائیں البتہ سر چہرہ اور شرم گاہ پر کوئی کوڑا نہ مارا جائے۔ مسئلہ : جس زنا کار مرد یا عورت کو رجم یعنی سنگسار کرنا ہے اسے باہر میدان میں لے جائیں جن لوگوں نے زنا کی گواہی دی تھی پہلے وہ پتھر ماریں پھر المومنین پتھر مارے اور اس کے بعد دوسرے لوگ ماریں اگر گواہ ابتداء کرنے سے انکاری ہوجائیں تو جرم ساقط ہوجائے گا اگر زانی کے اقرار کی وجہ سے سنگسار کیا جانے لگے تو پہلے امیر المومنین پتھر مارے اس کے بعد دوسرے لوگ اور عورت کو رجم کرنے لگیں تو اس کے لیے گڑھا کھود کر اس میں کھڑی کر کے رجم کریں تو یہ بہتر ہوگا۔ مسئلہ : جب کسی مرد یا عورت کے بارے میں چار شخص گواہی دیدیں کہ اس نے زنا کیا ہے اور یوں کہیں کہ ہم نے ان کو یہ عمل کرتے ہوئے اس طرح دیکھا جیسے سرمہ دانی میں سلائی ہو تو امیر المومنین یا قاضی ان چاروں گواہوں کے بارے میں تحقیق اور تفتیش کرے گا اگر ان کا سر اور علانیۃ عادل اور صالح سچا ہونا ثابت ہوجائے تو امیر المومنین یا قاضی زنا کرنے والے پر حد شرعی حسب قانون (کوڑے یا سنگسار) نافذ کر دے اگر چار گواہ نہ ہوں یا چار تو ہوں لیکن ان کا فاسق ہونا ثابت ہوجائے تو اس پر حد جاری نہ ہوگی جس کے بارے میں ان لوگوں نے زنا کی گواہی دی۔ بلکہ ان لوگوں کو حد قدف لگائی جائے گی جنہوں نے گواہی دی۔ (حد قدف سے مراد تہمت لگانے کی سزا ہے جو اسی (80) کوڑے ہیں) چند اوراق کے بعد اسی رکوع میں انشاء اللہ تعالیٰ اس کا ذکر آئے گا۔ مسئلہ : زانی کے اپنے اقرار سے بھی زنا کا ثبوت ہوجاتا ہے (مرد ہو یا عورت) جب اقرار کرنے والا عاقل بالغ ہو اور چار مجلسوں میں چار مرتبہ اقرار کرے تو قاضی اس سے دریافت کرے کہ زنا کیا ہوتا ہے اور تو نے کس سے زنا کیا اور کہاں زنا کیا اقرار کرنے والا جب یہ باتیں بتادے تو قاضی اس پر بھی حسب قواعد شرعیہ حد نافذ کر دے گا۔ دور حاضر کے مدعیان علم کی جاہلانہ باتیں آج کل بہت سے مدعیان علم ایسے نکلے ہیں جو اپنی جہالت کے زور پر شریعت اسلامیہ میں تحریف کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ دشمنان اسلام اور بہت سے اصحاب اقتدار ان کی سر پرستی کرتے ہیں اور ان کو رشوت دے کر ان سے ایسی باتیں لکھواتے ہیں جو شریعت اسلامیہ کے خلاف ہوتی ہیں۔ چودہ سو سال سے تمام عوام اور خواص یہی جانتے اور سمجھتے اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسلام میں زانی غیر محصن کی سزا سو کوڑے اور زانی محصن کی سزا رجم یعنی سنگسار کرنا ہے۔ اپنے علم کو جاہلانہ دعاوی میں استعمال کرنے والے اب یوں کہہ رہے ہیں کہ قرآن مجید میں رجم نہیں ہے ان لوگوں سے سوال ہے کہ قرآن مجید میں یہ کہاں فرمایا ہے کہ جو کچھ قرآن میں نہ ہو وہ دین اسلام نہیں ہے قرآن نے تو یہ فرمایا ہے کہ (وَ مَآ اٰتَکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْہٗ ) (جو کچھ رسول اللہ ﷺ دیں اسے پکڑ لو اور جس سے روکیں رک جاؤ) ۔ جب رسول اللہ ﷺ نے بعض زانیوں کو ثبوت زنا اور محصن ثابت ہونے پر سنگسار فرما دیا تو اب کس کا مقام ہے جو اس کی تردید کرے اور اسے اللہ کے دین سے نکال دے۔ حضرت عمر کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈال دی تھی کہ بعد میں آنے والے رجم کی سزا کے منکر ہوں گے اس لیے انہوں نے ایک دن منبر پر فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی کتاب اللہ میں جو کچھ نازل ہوا اس میں رجم یعنی سنگسار کرنے کی آیت بھی تھی ہم نے اس آیت کو پڑھا اور سمجھا اور یاد کیا رسول اللہ ﷺ نے سنگسار کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد سنگسار کیا اب میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ زمانہ دراز گزرنے پر کوئی کہنے والا یوں نہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہم رجم کی آیت کو اللہ کی کتاب میں نہیں پاتے (یہ کہہ کر وہ دین اسلام میں رجم کی مشروعیت کا منکر ہوگا) جس کی وجہ سے لوگ ایک ایسے فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوجائیں گے جسے اللہ نے مشروع فرمایا، رجم اللہ کی کتاب میں ہے (یعنی اس کی مشروعیت مسنوخ نہیں ہوئی) حق ہے اس کو مرد عورت پر جاری کی جائے گی جو محصن ہو جبکہ گواہ قائم ہوجائیں یا اقرار ہو یا کسی عورت کو حمل ہوجائے (جس حمل کی وجہ سے حد لازم ہوتی ہو) (رواہ البخاری 109) ۔ حضرت عمر نے یہ جو فرمایا رجم، اللہ کی کتاب میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آیت میں یہ مضمون تھا اس کی تلاوت منسوخ کردی گئی ہے اس کا حکم منسوخ نہیں ہوا جن حضرات نے علم اصول فقہ پڑھا ہے وہ اس کا مطلب سمجھتے ہیں، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے سورة نساء کی آیت (اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلاً ) کی طرف اشارہ ہے، اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ کی کتاب میں واضح طور پر موجود نہیں ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دین اسلام میں رجم نہیں ہے جب رسول اللہ ﷺ نے اس کو مشروع فرمایا تو اللہ کی کتاب میں ہوگیا کیونکہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ اللہ کے رسول کی اطاعت کتاب اللہ کے مضمون میں شامل ہے۔ یہ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ رجم قرآن کریم میں نہیں ہے اول تو ان سے یہ سوال ہے کہ ظہر عصر اور عشاء کی چار رکعتیں مغرب کی تین اور فجر کی دو رکعتیں ہیں اسی کو کسی آیت میں دکھا دیں۔ زکوٰۃ کا کیا نصاب ہے اس کو کسی آیت سے ثابت کریں۔ کیا وجہ ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے جو اسلام میں سے ہیں قرآن مجید کی آیت تلاش نہیں کی جاتی ان پر عمل کرنے کے لیے تو رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہی کافی ہے اور رجم کو دین میں مشروع سمجھنے کے لیے آیات قرآنیہ کی تلاش ہے۔ ملحد اور زندیق کا کوئی دین نہیں ہوتا اسی لیے یہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ رجم اگر قرآن مجید میں نہیں ہے تو سو سو کوڑے لگانا تو ہے ارے زندیقو ! تم جن حکومتوں کے نمائندے ہو ان سے سو سو کوڑے لگواؤ اپنے ذرا سے علم کو منکرین اسلام کی تائید کے لیے خرچ کرنا اسی کو تو قرآن مجید نے (اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ ) فرمایا ہے حدیث شریف میں ایسے لوگوں کے بارے میں من العلم جھلا وارد ہوا ہے۔ زنا کاری کی مضرتیں اور عفت و عصمت کے فوائد، نکاح کی فضیلت کافروں اور ملحدوں، زندیقوں کو اسی پر تعجب ہے کہ شریعت اسلامیہ میں زنا کو کیوں حرام قرار دیا گیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مرد و عورت کا اپنا ذاتی معاملہ ہے جس کا جس سے چاہے لذت حاصل کرلے ان لوگوں کی یہ بات جہالت ضلالت اور غوایت پر مبنی ہے یہ کہنا کہ بندوں کو اختیار ہے جو چاہیں کریں یہ بہت بڑی گمراہی ہے جب خالق کائنات جل مجدہ نے پیدا فرمایا اور سب اسی کی مخلوق اور مملوک ہیں تو کسی کو بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ خالق اور مالک کے بتائے ہوئے قانون کے خلاف زندگی گزارے، کوئی انسان خود اپنا نہیں ہے نہ اس کے اعضاء اپنے ہیں وہ تو خالق جل مجدہ کی ملکیت ہے ان اعضاء کو قانون الہٰی کے خلاف استعمال کرنا بغاوت ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا پھر ان کی طبعی موانست کے لیے حضرت حوا علیھا السلام کو پیدا فرمایا پھر ان سے انسانوں کی نسل کو جاری فرمایا، مرد و عورت میں جو ایک دوسرے کی طرف فطری اور طبعی میلان ہے اس کے لیے نکاح کو مشروع فرمایا اور نکاح کے اصول و قوانین مقرر فرمائے جب مرد و عورت کا نکاح ہوجائے تو آپس میں ایک دوسرے سے قانون شریعت کے مطابق استمتاع اور استلذاذ جائز ہے۔ اس میں جہاں نفسیاتی ابھار کا انتظام ہے وہاں بنی آدم کی نسل چلنے اور نسل و نسب کے پاک رکھنے اور آپس میں رحمت اور شفقت باقی رکھنے کا اور عورت کے گھر میں عزت و آبرو کے ساتھ رہنے اور گھر بیٹھے ہوئے ضروریات زندگی پوری ہونے اور عفت و عصمت سے رہنے کا انتظام ہے، مرد کما کر لائے عورت گھر میں بیٹھے اور کھائے لباس بھی شوہر کے ذمہ اور رہنے کا گھر بھی، اولاد پیدا ہو تو ماں باپ کی شفقت میں پلے بڑھے۔ کوئی چچا ہو کوئی ماموں ہو کوئی دادا ہو کوئی دادی ہو کوئی خالہ ہو کوئی پھوپھی ہو ہر ایک بچے کو پیار کرے گود میں لے اور ہر ایک اس کو اپنا سمجھے صلہ رحمی کے اصول پر سب رشتہ دار دور کے ہوں یا قریب کے آپس میں ایک دوسرے سے محبت بھی کریں مالی امداد بھی کریں نکاحوں کی مجلسوں میں جمع ہوں ولیمہ کی دعوتیں کھائیں عقیقے ہوں جب کوئی مرجائے کفن دفن میں شریک ہوں یہ سب امور نکاح سے متعلق ہیں اگر نکاح نہ ہو اور عورت مرد یوں ہی آپس میں اپنی نفسیاتی خواہشات پوری کرتے رہیں تو جو اولاد ہوگی وہ کسی باپ کی طرف منسوب نہیں ہوگی اور جب عورت زنا کار ہے تو یہ پتہ بھی نہ چلے گا کہ کس مرد کے نطفہ سے حمل قرار پایا جب باپ ہی نہیں تو بچہ کی پرورش کون کرے بچہ کو کچھ معلوم نہیں میں کس سے پیدا ہوا۔ میرے ماں باپ کون ہیں چونکہ باپ ہی نہیں اس لیے انگلینڈ وغیرہ میں بچوں کی ولدیت ماں کے نام سے لکھ دی جاتی ہے رشتہ داروں کی جو شفقتیں تھیں باپ کی جانب سے ہوں ماں کی جانب سے بچہ ان سب سے محروم رہتا ہے زنا کار عورتوں کے بھائی بہن بھی اپنی بہن کی اولاد کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جو شفقت بھری نگاہ ماں کی اولاد پر نانا نانی اور خالہ ماموں کی ہوتی ہے، ہر سمجھ دار آدمی غور کرسکتا ہے کہ نکاح کی صورت میں جو اولاد ہو اس کی مشفقانہ تربیت اور ماں باپ کی آغوش میں پرورش پانا انسانیت کے اکرام کا سبب ہے یا زنا کاروں کی اولاد کی حکومتوں والی پرورش اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت رکھتی ہے ؟ پھر جب نکاح کا سلسلہ ہوتا ہے تو ماں باپ لڑکا لڑکی کے لیے جوڑا ڈھونڈتے ہیں اور آزاد لڑکے اور لڑکیاں نفسانی خواہشات پورا کرنے کے لیے دوست (فرینڈ) تلاش کرتے پھرتے ہیں یہ عورت کی کتنی بڑی ذلت اور حقارت ہے کہ وہ گلی کوچوں میں کپڑے اتارے کھڑی رہے اور مردوں کو اپنی طرف لبھائے اور جو شخص اس کی طرف جھکے اس کو کچھ دن کے لیے دوست بنا لے پھر جب چاہے یہ چھوڑ دے اور جب چاہے وہ چھوڑ دے، اب پھر دونوں تلاش یار میں نکلے ہیں کیا اس میں انسانیت کی مٹی پلید نہیں ہوتی پھر چونکہ عورت کا کوئی شوہر نہیں ہوتا اور جن کو دوست بنایا جاتا ہے وہ قانونا اس کے خرچ کے ذمہ دار نہیں ہوتے اس لیے عورتیں خود کمانے پر مجبور ہوجاتی ہیں شو روموں پر کھڑی ہوئی مال سپلائی کرتی ہیں روڈ پر بیٹھ کر آنے جانے والے لوگوں کے جوتوں پر پالش کرتی ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ عورتوں کو یہ ذلت اور رسوائی منظور ہے اور نکاح کرکے گھر میں ملکہ بن کر بچوں کی ماں ہو کر عفت و عصمت کے ساتھ زندگی گزرانے کو ناپسند کرتی ہیں۔ اسلام نے عورت کو بڑا مقام دیا ہے وہ نکاح کر کے عفت و عصمت کی حفاظت کے ساتھ گھر کی چار دیواری میں رہے اور اس کا نکاح بھی اس کی مرضی سے ہو جس میں مہر بھی اس کی مرضی سے مقرر ہو پھر اسے ماں باپ اور اولاد اور بہن بھائی سے میراث بھی ملے۔ یہ زندگی اچھی ہے یا دربدر یار ڈھونڈتی پھریں اور زنا کرتی پھریں یہ بہتر ہے ؟ کچھ تو سوچنا چاہئے، فَاعْتِبَرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ ۔ اس تمہید کے بعد اب ایک سمجھدار آدمی کے ذہن میں زنا کی شناعت اور قباعت پوری طرح آجاتی ہے اسلام کو یہ گوارا نہیں ہے کہ نسب کا اختلاط ہو پیدا ہونے والے بچوں کے باپ کا پتہ نہ چلے یا کئی شخص دعویدار ہوجائیں کہ یہ بچہ میرے نطفہ سے ہے۔ جو مرد عورت زنا کاری کی زندگی گزارتے ہیں ان سے حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں انسانیت کی اس سے زیادہ کیا مٹی پلید ہوگی کہ بچہ ہو اور اس کا باپ کوئی نہ ہو اہل نظر اسے حرامی کہتے ہوں یا کم از کم یوں سمجھتے ہوں کہ دیکھو وہ حرامی آ رہا ہے، یہ بات شریفوں کے لیے موت سے بہتر ہے لیکن اگر طبعی شرافت باقی نہ رہے دلوں میں انسانیت کا احترام نہ ہو تو معاشرہ میں حرامی حلالی ہونے کی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی۔ جن ملکوں میں زنا کاری عام ہے ان کے یہاں حرامی ہونا کوئی عیب اور حلالی ہونا کوئی ہنر نہیں۔ اب یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی ہماری ہاں میں ہاں ملا دیں اور قرآن سے باغی ہو کر ہماری طرح زنا کار ہوجائیں اور زنا کاری کی سزا مسنوخ کردیں بھلا مسلمان یہ کیسے کرسکتا ہے اگر کوئی مسلمان ایسا کرے گا تو اسی وقت کافر ہوجائے گا۔ اسلام جو عفت و عصمت کا دین ہے اس کے ماننے والے شہوت پرستوں کا ساتھ کہاں دے سکتے ہیں زنا کاری میں چونکہ مزا ہے شہوت پرستی ہے اس لیے شہوت پرست اسے چھوڑنے والے نہیں ہیں، معاشرہ اسلامیہ نے زنا کی سزا سخت رکھی ہے پھر اس میں فرق رکھا گیا ہے غیر شادی شدہ مرد عورت زنا کرلے تو سو کوڑے لگانے پر اکتفا کیا گیا اور شادی شدہ شخص زنا کرے تو اس کی سزا رجم مقرر کی گئی ہے مرد ہو یا عورت، جو لوگ شہوت پرست ہیں ان کے تقاضوں پر کافر ملکوں کی پارلیمنٹوں نے نہ صرف یہ کہ مرد عورت کے لیے باہمی رضا مندی سے زنا کو قانونا جائز قرار دیدیا ہے بلکہ عورت کو بھی اجازت دیدی ہے کہ وہ کسی مرد کی بیوی بن کر رہے، ان لوگوں کو نہ انسانیت کی ضرورت ہے نہ شرافت کی نہ نسب محفوظ رکھنے کی نہ عفت و عصمت کے ساتھ جینے کی نہ عورتوں کو اچھا مقام دینے کی، شہوت پرست ہیں شہوت کے بندے ہیں اس شہوت پرستی کے نتیجے میں جو ایڈز وغیرہ کی نئی نئی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں جن سے سارا معاشرہ متاثر ہوتا جا رہا ہے اور جس کی روک تھام سے حکومتیں عاجز ہیں ان پر نظر نہیں، بس شہوت پوری ہونی چاہئے یہ ان لوگوں کا مزاج بن گیا ہے۔ یہ زنا کی کثرت، کثرت اموات کا بھی سبب ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جس قوم میں خیانت ظاہر ہوجائے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتے ہیں اور جس کسی قوم میں زنا پھیل جائے اس میں موت کی کثرت ہوگی اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں ان کا رزق کاٹ دیا جائے گا یعنی زرق کم ملے گا اور اس کی برکت ختم کردی جائے گی اور جو قوم ناحق فیصلے کرے گی ان میں قتل کی کثرت ہوگی اور جو قوم بد عہدی کریگی ان پر دشمن مسلط کردیا جائے گا۔ (رواہ مالک فی الموطا) اور حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی آبادی میں زنا اور سود خوری کا رواج ہوجائے تو ان لوگوں نے اپنی جانوں پر اللہ کا عذاب نازل کرلیا۔ (الترغیب و الترہیب (278 ج 3) حضرت میمونہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت برابر خیر پر رہے گی جب تک کہ ان میں حرامی بچوں کی کثرت نہ ہوجائے سو جب ان میں اولاد الزنا کی کثرت ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ ان پر عنقریب عام عذاب بھیج دے گا۔ (رواہ احمد اسنادہ حسن کمافی الترعیب ص 288 ج 3) صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا ایک خواب بیان فرمایا کہ اس میں بہت سی چیزیں دیکھیں ان میں ایک یہ بھی دیکھا کہ تنور کی طرح ایک سوراخ ہے اس کا اوپر کا حصہ تنگ اور نیچے کا حصہ وسیع ہے اس کے نیچے آگ جل رہی ہے جو لوگ اس تنور میں ہیں وہ آگ کی تیزی کے ساتھ اوپر کو آجاتے ہیں جب آگ دھیمی پڑتی ہے تو نیچے کو واپس چلے جاتے ہیں یہ لوگ ننگے مرد اور ننگی عورتیں ہیں ان کی چیخ پکار کی آوازیں بھی آرہی ہیں آپ نے فرمایا کہ ان کے بارے میں میں نے اپنے ساتھیوں (حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل) سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں انہوں نے بتایا کہ یہ زنا کار مرد اور زنا کار عورتیں ہیں۔ زنا امراض عامہ کا سبب ہے حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ اے مہاجرین ! پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہوجاؤ اور خدا نہ کرے کہ تم مبتلا ہو تو پانچ چیزیں بطور نتیجہ ضرور ظاہر ہوں گی (پھر ان کی تفصیل فرمائی) (1) جب کسی قوم میں کھلم کھلا بےحیائی کا کام ہونے لگے تو اس میں ضرور طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جائیں گی جو ان کے باپ دادوں میں کبھی نہیں ہوئیں (2) اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے گی قحط اور سخت محنت اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعہ ان کی گرفت کی جائے گی (3) اور جو لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ روک لیں گے ان سے بارش روک لی جائے گی (حتیٰ کہ) اگر چوپائے (گائے بیل گدھا گھوڑا وغیرہ) نہ ہوں تو بالکل بارش نہ ہو۔ (4) اور جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ دے گی اللہ ان پر غیروں میں سے دشمن مسلط فرما دے گا جو ان کی بعض مملوک چیزوں پر قبضہ کرلے گا (5) اور جس قوم کے با اقتدار لوگ اللہ کی کتاب کے خلاف فیصلے دیں گے (اور احکام خداوندی میں اپنا اختیار و انتخاب جاری کریں گے) تو وہ خانہ جنگی میں مبتلا ہوں گے۔ (ابن ماجہ) اس حدیث پاک میں جن گناہوں اور معصیتوں پر ان کے مخصوص نتائج کا تذکرہ فرمایا ہے اپنے نتائج کے ساتھ اس زمین پر بسنے والے انسانوں میں موجود ہیں۔ سب سے پہلی بات جو آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمائی یہ ہے کہ جس قوم میں کھلم کھلا بےحیائی کے کام ہونے لگیں گے ان میں ضرور طاعون پھیلے گا اور ایسی ایسی بیماریاں بکثرت ظاہر ہوں گی جو ان کے باپ دادوں میں کبھی نہ ہوئی ہوں گی۔ آج بےحیائی کس قدر عام ہے سڑکوں پارکوں کلبوں اور نام نہاد قومی اور ثقافتی پروگراموں میں، عرسوں اور میلوں میں ہوٹلوں اور دعوتی پارٹیوں میں کس قدر بےحیائی کے کام ہوتے ہیں اس کے ظاہر کرنے اور بتانے کی چنداں ضرورت ہے جاننے والے اور اخبارات کا مطالعہ کرنے والے بخوبی واقف ہیں، پھر اس بےحیائی اور فحش کاری کے نتیجے میں وبائی امراض طاعون ہیضہ انفلوئزا ایڈز پھیلتے رہتے ہیں اور ایسے ایسے امراض سامنے آ رہے ہیں جن کے طبعی اسباب اور معالجہ کے سمجھنے سے ڈاکٹر قاصر ہیں، ڈاکٹری ترقی پدیز ہے اسی قدر نئے امراض ظاہر ہوتے جاتے ہیں ان امراض کے موجود ہونے کا سبب جو خالق عالم جل مجدہ کے سچے پیغمبر ﷺ نے بتایا ہے یعنی بےحیائیوں کا پھیلنا جب تک وہ ختم نہ ہوگا نئے نئے امراض کا آنا بھی ختم نہیں ہوسکتا دور حاضر کے لوگوں کا اب یہ طریقہ ہوگیا ہے کہ ان کے نزدیک شہوت پرستی ہی سب کچھ ہے زندگی کا خلاصہ شہوت پرستوں کے نزدیک صرف یہی رہ گیا ہے کہ مرد اور عورت بغیر کسی پابندی کے آپس میں ایک دوسرے سے شہوت پوری کیا کریں پہلے تو بعض یورپین ممالک نے اس قسم کے قوانین بنا دیئے تھے لیکن اب وہ بین الاقوامی کانفرنسیں بلا بلا کر سارے عالم کے انسانوں کو اس بیہودگی میں لپیٹنا چاہتے ہیں، اصل میں بات یہ ہے کہ اس قسم کی کانفرنس منعقد کرنے والے انسانیت کے دائرہ ہی سے باہر ہوچکے ہیں اور انہیں اس پر ذرا بھی رنج نہیں ہے کہ ہم انسانیت کھو بیٹھے ہیں۔ نفس پرستوں کو لذت چاہیے انسانیت باقی رہے یا نہ رہے یہ لوگ اس مقام پر اتر آئے ہیں کہ ہم انسان نہ رہے تو کیا حرج ہے مزہ تو ملے گا۔ انسان بننے اور انسانی تقاضے پورے کرنے میں نفس کی آزادی میں فرق آتا ہے لہٰذا انسانیت کی ضرورت کیا ہے ؟ جانور بھی تو دنیا میں رہتے ہیں اور جیتے ہیں ہم بھی جانور ہوگئے تو کیا ہوا ؟ یہ بات یہ لوگ زبان سے کہیں یا نہ کہیں ان کا طریقہ کار اور رنگ ڈھنگ ایسا ہی ہے اسی کو قرآن مجید میں فرمایا (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَتَمَتَّعُوْنَ وَیَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَہُمْ ) (اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ ایسے متمتع ہوتے ہیں اور کھاتے ہیں جسے جانور کھاتے ہیں اور دوزخ کی آگ ان کا ٹھکانہ ہے) ۔ انسان کو جو اللہ تعالیٰ نے عقل و فہم سے نواز اور اسے جو شرف بخشا اس شرف کی وجہ سے اسے اونچا رکھنے کے لیے احکام عطا فرمائے۔ اس کے لیے کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا اور کچھ چیزوں کو حلال قرار دیا۔ مرد اور عورت کا آپس میں استمتاع بھی حلال ہے لیکن نکاح کرنے کے بعد، پھر اس نکاح اور انعقاد نکاح کے بھی قوانین ہیں تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) نکاح کرتے تھے۔ سوائے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے کہ ان دونوں حضرات نے نہ نکاح کیا نہ عورتوں سے استمتاع کیا۔ افسوس ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اتباع کی جو قومیں دعویٰ کرنے والی ہیں وہ ان کی طرف بغیر نکاح کے عورتوں سے استمتاع کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آخری زمانے میں جب آسمان سے تشریف لائیں گے تو دجال کو قتل کریں گے اور نکاح بھی فرمائیں گے آپ کی اولاد بھی ہوگی (کماذ کرہ ابن الجوزی فی کتاب الوفاء) جب وہ تشریف لائیں گے تو صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کردیں گے اور اس طرح اپنے عمل سے دین نصرانیت کو باطل قرار دیں گے۔ (رواہ مسلم) فائدہ : قرآن مجید میں عموماً عورتوں کو مردوں ہی کے صیغے میں شریک کر کے احکام شرعیہ بتائے گئے ہیں مثلا جہاں جہاں (یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا) ہے اس میں گو اسم موصول مذکر ہے لیکن عورتوں کو بھی ان کا مضمون شامل ہے اور جہاں کہیں صیغہ تانیث لایا گیا وہاں مردوں کا ذکر مقدم ہے جیسا کہ (اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُوْمِنَاتِ ) (الایۃ) اور جیسے (وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا) لیکن زنا کی حد بیان کرتے ہوئے دو باتیں زیادہ قابل توجہ ہیں اول تو یہ کہ صرف مذکر کا صیغہ لانے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ الزانیہ مستقل ذکر کیا گیا دوسرا الزانیہ کو الزانی پر مقدم فرمایا ہے۔ اب کسی بھی مرد یا عورت کو یہ شبہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی کہ شاید زنا کی حد جاری کرنا مردوں ہی کے ساتھ مخصوص ہو۔ نیز قرآن مجید کے انداز بیان سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ عورتوں میں زنا کی رغبت بنسبت مردوں کے زیادہ ہے ان کی حفاظت کا زیادہ اہتمام کیا جائے چوری میں مرد پیش پیش ہوتے ہیں اس لیے سورة مائدہ کی آیت میں لفظ السارق کو مقدم فرمایا اور زنا کی طرف مائل ہونے میں عورتوں کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اس لیے حد زنا بیان فرماتے ہوئے پہلے لفظ الزانیۃ کو مقدم فرمایا۔ فائدہ : شریعت اسلامیہ نے جو زنا کی حد مقرر فرمائی ہے بظاہر یہ سخت ہے اور سختی اس لیے ہے کہ لوگوں کی عفت و عصمت محفوظ رہے اور اس جرم کی طرف لوگوں کا میلان نہ ہو، اگر کسی غیر محصن کو لوگوں کی ایک جماعت کے سامنے کوڑے لگائے جائیں اور کسی محصن کو سنگسار کردیا جائے اور اس کی شہرت ہوجائے تو برس ہا برس کے لیے دور دراز علاقوں کے رہنے والوں کے لیے ایک ہی سزا عبرت کا سامان بن جائے گی۔ اسلام نے اول تو ایسے احکام وضع کیے ہیں جن پر عمل کرنے سے زنا کا صدور ہی آسان نہیں نظروں پر پابندی ہے عورتوں کی بےحجابی پر پابندی ہے نا محرموں سے پردہ ہے محرم بد نفس سے بھی پردہ کا حکم ہے ان سب امور کے باو جود زنا صادر ہوجائے تو اس کی سزا کے لیے ویسی شرطیں لگائی ہیں جن کا وجود میں آنا ہی مشکل ہے اگر چار گواہ گواہی دیں کہ ہم نے فلاں مرد و عورت کو اس طرح زنا کرتے ہوئے دیکھا جیسے سرمہ دانی میں سلائی ہو تب زنا کا ثبوت ہوگا، ظاہر ہے ایسے چار گواہ ملنا عادتاً ناممکن ہے ہاں اگر کوئی مرد عورت زنا کا اقرار کرلے تو اس پر سزا جاری ہوگی لیکن اس میں بھی امیر المومنین اور قاضی کو حکم دیا گیا کہ معمولی شبہات پر حد کو ساقط کردیں مقصود لوگوں کی پٹائی کرنا اور سنگسار کرنا نہیں بلکہ زنا سے بچانا مقصود ہے اس سب کے باو جود پھر بھی کوئی شخص زنا کے جرم میں پکڑا جائے تو اصول شریعت کے مطابق اس کا زنا ثابت ہوجائے تو امیر المومنین اور قاضی لا محالہ اس پر حد جاری کر دے گا۔ کیونکہ یہ شخص مسلمانوں کے معاشرے کا ایک ایسا عضو ہے جو بالکل ہی سڑ چکا ہے جسے کاٹے بغیر جسم کی اصلاح ممکن نہیں رہتی۔ لوگ زنا کی سزا کی سختی کو تو دیکھتے ہیں اس سزا کی حکمتوں کو نہیں دیکھتے۔
Top