Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 50
وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١۫ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
وَمُصَدِّقًا : اور تصدیق کرنے والا لِّمَا : جو بَيْنَ يَدَيَّ : اپنے سے پہلی مِنَ : سے التَّوْرٰىةِ : توریت وَلِاُحِلَّ : تاکہ حلال کردوں لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضَ : بعض الَّذِيْ : وہ جو کہ حُرِّمَ : حرام کی گئی عَلَيْكُمْ : تم پر وَجِئْتُكُمْ : اور آیا ہوں تمہارے پاس بِاٰيَةٍ : ایک نشانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاتَّقُوا : سو تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوْنِ : اور میرا کہا مانو
اور مجھ سے پہلے جو تورات (نازل ہوئی) تھی اس کی تصدیق بھی کرتا ہوں اور (میں) اس لئے بھی (آیا ہوں کہ) بعض چیزیں جو تم پر حرام تھیں ان کو تمہارے لئے حلال کردوں اور میں تو تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لی کر آیا ہوں تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو
آیت نمبر : 50 تا 51۔ (آیت) ” ومصدقا اس کا عطف ورسولا پر ہے، اور کہا گیا ہے کہ معنی یہ ہے کہ میں تمہارے پاس تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں (آیت) ” لما بین یدی “ اس کی جو مجھ سے پہلے آئی (آیت) ” ولاحل لکم “ اس میں حذف ہے، ای ولا حل لکم جئتکم “ (اور تاکہ میں تمہارے لئے حلال کر دوں میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں) (آیت) ” بعض الذی حرم علیکم “ یعنی کھانے کی اشیاء میں سے بعض جو تم پر پہلے حرام کی گئی تھیں۔ کہا گیا ہے : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انکے لئے ان چیزوں کو حلال کردیا جو ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں اور وہ تورات میں نہ تھیں، مثلا تھوم کھانا اور ہر ناخن والا جانور، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے انکے لئے ان چیزوں کو حلال کردیا جنہیں ان پر علماء نے حرام کردیا تھا اور وہ تورات میں ان پر حرام نہ کی گئی تھیں ابو عبیدہ نے کہا ہے : یہ بھی جائز ہے کہ بعض بمعنی کل ہو۔ اور لبید نے کہا ہے : تراک امکنۃ اذا لم ارضھا او یرتبط بعض النفوس جمامھا ‘ اس میں بعض بمعنی کال استعمال ہوا ہے۔ یہ قول اہل لغت میں سے اہل نظر وفکر کے نزدیک غلط ہے، کیونکہ بعض اور جز اس جگہ پر بمعنی کل نہیں ہو سکتے، کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انکے لئے ان چیزوں کو حلال کیا جنہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر حرام کیا تھا مثلا تھوم کھانا وغیرہ، اور آپ نے انکے لئے قتل، چوری اور فحاشی، وغیرہ کو حلال نہیں کیا اور اس پر دلیل یہ ہے کہ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انتہائی نرمی اور ملائمت کے ساتھ ان کے پاس تشریف لائے ان چیزوں کے بارے میں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس لے کر آئے، کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اونٹوں کی تحریم اور تھوم وغیرہ اشیاء کی تحریم کا حکم لے کر ان کے پاس آئے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان میں سے بعض کی حلت کا حکم لے کر آئے۔ نخعی نے (آیت) ” بعض الذی حرم علیکم پڑھا ہے۔ یعنی یہ کرم کی مثل ہے، بمعنی صار حراما، یعنی وہ حرام ہوگیا کے معنی میں ہے، اور کبھی بعض کو بمعنی کل بھی رکھا جاتا ہے جبکہ وہاں ایسا قرینہ متصل ہو جو اس پر دلالت کرے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا : ابا منذر افنیت فاستبق بعضنا حنانیک بعض الشر اھون من بعض : اس میں بعض الشراھون سے مراد کل ہے۔ (آیت) ” وجئتکم بایۃ من ربکم “ اس میں آیہ کو واحد ذکر کیا گیا ہے حالانکہ یہ آیات ہیں، اس وجہ سے کہ یہ آپ کی رسالت پر دلالت کرنے کے اعتبار سے جنس واحد ہے۔
Top