Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 50
وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١۫ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
وَمُصَدِّقًا : اور تصدیق کرنے والا لِّمَا : جو بَيْنَ يَدَيَّ : اپنے سے پہلی مِنَ : سے التَّوْرٰىةِ : توریت وَلِاُحِلَّ : تاکہ حلال کردوں لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضَ : بعض الَّذِيْ : وہ جو کہ حُرِّمَ : حرام کی گئی عَلَيْكُمْ : تم پر وَجِئْتُكُمْ : اور آیا ہوں تمہارے پاس بِاٰيَةٍ : ایک نشانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاتَّقُوا : سو تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوْنِ : اور میرا کہا مانو
اور میں مصداق ہوں اپنے سے پیشتر سے آئی ہوئی تورات کا اور اس لیے آیا ہوں کہ بعض چیزوں کو تمہارے لیے حلال ٹھہراؤں جو تم پر حرام کردی گئی ہیں اور میں تمہارے پاس تمہارے خداوند کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
مصدقا لما بین یدی، کے دو مفہوم : مصدقا، ہے تو حال لیکن یہ محض مشابہت کی وجہ سے سابق جملے پر عطف ہوگیا ہے۔ اس کے دو مفہوم ہیں اور ان دونوں مفہوموں کی دوسرے مقام میں ہم وضاحت کرچکے ہیں۔ ایک یہ کہ میں تورات کی تصدیق کرتا ہوں۔ اس تصدیق کے شواہد انجیلوں میں موجود ہیں۔ حضرت مسیح نے بڑے زور اور بڑی تاکید کے ساتھ یہ بات باربار فرمائی ہے کہ تورات کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ اس کو قائم کرنے آیا ہوں انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن اس کا (تورات) ایک نقطہ بھی نہیں ٹل سکتا جب تک ہر بات پوری نہ ہولے، انہوں نے عملاً جس شریعت کی خود پیروی کی اور جس کی پیروی کی ہدایت اپنے پیروؤں کو دی وہ تورات ہی کی شریعت تھی، انہوں نے تورات پر جو اضافہ فرمایا ہے وہ شریعت کا نہیں بلکہ صرف حکمت کا ہے اور اس اضافے کی نوعیت یہ ہے کہ انہوں نے تورات کے اس باطن کو کھول دیا ہے جس سے یہود کے علما اور فریسیوں کی آنکھیں یہ ہے کہ انہوں نے تورات کے اس باطن کو کھول دیا ہے جس سے یہود کے علما اور فریسیوں کی آنکھیں بند تھیں۔ ان کے نام لیواؤں نے تورات سے بغاوت کا اعلان تو پال کے زمانے سے کیا ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ میں تورات کی پیشین گوئیوں کا مصداق ہوں، میرے ظہور سے ان کی تصدیق ہوئی ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے پیشرو نبیوں سے ایسی پیشین گوئیاں موجود تھیں جن کی بنا پر یہود کو ایک نبی کی بعثت کا انتظار تھا۔ چناچہ حضرت عیسیٰ کی شہرت ہوئی تو بہت سے حلقوں میں یہ چرچا ہونے لگا کہ جس کا انتظار تھا وہ آگیا۔ بعض لوگ اس منتظر کا نام ایلیا لیتے تھے۔ انجیلوں میں حضرت یوحنا کے متعلق بھی منقول ہے کہ جب وہ ہیرودیس کے حکم سے جیل میں تھے تو انہوں نے اپنے چند شاگردوں کو حضرت مسیح کی خدمت میں بھیج کر پچھوایا، کہ ’ وہ جس کا انتظار تھا تو ہی ہے، یا ہم کسی اور کا انتظار کریں ‘۔ حضرت مسیح نے پیغام لانے والوں سے کہا کہ جو کچھ دیکھ رہے ہو وہ جا کر بتا دو کہ ”لنگڑے چل رہے ہیں، گونگے بول رہے ہیں، اندھے دیکھ رہے ہیں، اب اور کس بات کا انتظار ہے ؟“۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے متعدد ایسی باتوں کا خود بھی حوالہ دیا ہے جو ان کے بارے میں پچھلے نبیوں نے فرمائی ہیں۔ یہ حوالے انجیلوں میں موجود ہیں۔ وَلِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ حُرِّمَ عَلَيْكُمْ یہ بھی معنی پر عطف ہے، بعض حرام کردہ چیزوں کے حلال کرنے سے ان چیزوں کو حلال کرنا مراد ہے جو علمائے یہود نے محض اپنے من گھڑت فتو وں اور اپنے غلو کی وجہ سے حرام کر رکھی تھیں اور یہ چیزیں روایت بن کر شریعت میں داخل ہوگئی تھیں۔ مثال کے طور پر سبت کے احترام کے مسئلہ کو لیجیے۔ اس حکایت کو یہود کے فقیہوں اور فریسیوں نے اس قدر بڑھا دیا تھا کہ سبت کے دن کسی مریض کو شفا کی دعا دینا بھی ان کے نزدیک احترامِ سبت کے منافی تھا، چناچہ احترامِ سبت کے مسئلے پر حضرت مسیح اور علمائے یہود کے درمیان متعدد مناظروں کا ذکر انجیلوں میں بھی ہے۔ اسی طرح متعدد ایسی روایات کا بھی انجیلوں میں ذکر ہے جن کو سیدنا مسیح اور ان کے شاگردوں نے علانیہ توڑا اور جب ان کے توڑنے پر علمائے یہود نے ان پر بےدینی کا الزام لگایا تو آپ ؑ نے ان کی اس جھوٹی دینداری کی اچھی طرح قلعی کھولی۔
Top