Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 50
وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١۫ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ
وَمُصَدِّقًا : اور تصدیق کرنے والا لِّمَا : جو بَيْنَ يَدَيَّ : اپنے سے پہلی مِنَ : سے التَّوْرٰىةِ : توریت وَلِاُحِلَّ : تاکہ حلال کردوں لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضَ : بعض الَّذِيْ : وہ جو کہ حُرِّمَ : حرام کی گئی عَلَيْكُمْ : تم پر وَجِئْتُكُمْ : اور آیا ہوں تمہارے پاس بِاٰيَةٍ : ایک نشانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاتَّقُوا : سو تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوْنِ : اور میرا کہا مانو
اور میں تصدیق کرنے والا ہوں اپنے سے پیشتر آئی ہوئی توریت کی اور (اس لئے آیا ہوں) کہ تم پر جو کچھ حرام کردیا گیا تھا اس میں سے تم پر کچھ حلال کردوں،126 ۔ اور میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان لے کر آیا ہوں،127 ۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،128 ۔
126 ۔ (یہ ارشاد خداوندی) (آیت) ” مصدقا۔۔ التورۃ “۔ کوئی نیانبی پرانے نبی کی تردید وتغلیط کے لئے نہیں آتا۔ (اس قسم کی تحقیقات صرف حکماء وفلاسفہ کو مبارک رہے) بلکہ ہر جدید پیامبر پیام قدیم کی تجدید وتکمیل ہی کے لئے آتا ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) بھی یہاں یہود سے یہی کہہ رہے ہیں کہ میں شریعت موسوی کے منانے کے لیے نہیں ان کی تجدید وتصدیق کے لیے آیا ہوں۔ اس قسم کی تصریحات مروجہ انجیل میں بھی موجود ہیں۔ مثلا ” یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں “ (متی 5: 17) ” آسمان اور زمین کا ٹل جانا شریعت کے ایک نقطہ کے مٹ جانے سے آسان ہے “ (لوقا۔ 16 ۔ 17) (انجیلی زبان میں شریعت سے مراد شریعت موسوی ہی ہوتی ہے) (آیت) ” حرم علیکم “۔ یعنی شریعت موسوی میں جو چیزیں تم پر حرام تھیں۔ قانونی جزئیات اور فقہی فروع میں ترمیم وتسہیل، عمومی تصدیق وتائید کے ذرا بھی منافی نہیں۔ (آیت) ” احل لکم “۔ مسیحی تعلیم نے قدیم موسوی شریعت میں جو بعض سہولتیں اور آسانیاں پیدا کردی تھیں ان کا ذکر انجیل مروجہ میں بھی ہوتا ہے۔ مثلا ”۔ اے محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو۔ سب میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں آرام دوں گا۔ میرا جوا اپنے اوپر اٹھالو اور مجھ سے سیکھو کیونکہ میں حلیم ہوں اور دل کا فروتن تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی کیونکہ میرا جوا نرم ہے اور میرا بوجھ ہلکا “۔ (متی۔ 12:28، 30) یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ تمہارے حبرون اور ریبون نے اپنی طرف سے جو احکام توریت میں خلط ملط کردیئے ہیں میں اس سارے بوجھ کو تم سے دور کرنے آیا ہوں۔ 127 ۔ (اپنی نبوت و رسالت کا (آیت) ” ایۃ “۔ نشان کا لفظ دلائل، معجزات سب پر حاوی ہے۔ اور لفظ کے مفرد ہونے سے یہ خیال نہ ہو کہ معنی بھی صیغہ واحد میں ہے اور کوئی ایک مخصوص نشان مراد ہے۔ (آیت) ” آیۃ “۔ بہ طور اسم جنس کے ہے اور مراد اس سے سارے ثبوت اور شواہد حضرت (علیہ السلام) کی صداقت کے ہیں۔ انما وجد وھی ایات لانھا جنس واحد فی الدلالۃ علی رسالتہ (قرطبی) خطاب بنی اسرائیل سے ہے۔ 128 ۔ (بہ حیثیت رسول خدا ہونے کے) (آیت) ” فاتقواللہ “۔ یعنی اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول کی تکذیب کی جرأت نہ کرو۔
Top