بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے ایمان والو ! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لئے چار پائے جانور ( جو چرنے والے ہیں) حلال کردیے گئے بجز انکے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔
آیت نمبر : 1۔ اس آیت میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا “ علقمہ ؓ نے کہا : قرآن میں جو (آیت) ” یایھا الذین امنوا “ آیا ہے وہ مدنی ہے جو (آیت) ” یایھا الناس “۔ آیا ہے وہ مکی ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 145 دارالکتب العلمیہ) یہ اکثر کے اعتبار سے ہے یہ پہلے گزر چکا ہے، یہ آیت ان آیات میں سے ہے قلت الفاظ کے باوجود معانی کی کثرت اور فصاحت پر کلام میں بصیرت رکھنے والے کے لیے ظاہر ہے، یہ آیت پانچ احکام اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے۔ (1) عہدوں کو پورا کرنے کا حکم : (2) بےزبان جانوروں کا حلال کرنا۔ (3) اس کے بعد جو ہے اس کی استثنا۔ (4) احرام کی حالت میں شکار کرنے کی حالت کی استثنا۔ (5) اور جو محرم نہیں ہے اس کے لیے شکار کی اباحت : نقاش نے حکایت کیا ہے کہ اصحاب کندی (٭) (کندی سے مراد یعقوب بن اسحاق ابو یوسف ہے یہ اپنے دور کا ایک بےمثل فلسفی تھا کندہ کے خاندان سے تھا، یہ طب فلسفہ، موسیقی اور علم ہندسہ میں مشہور ہوا) نے اسے کہا : اے حکیم ! ہمارے لیے قرآن کی مثل لکھ دے، اس نے کہا : ہاں میں اس کے بعض کی مثل لکھوں گا، وہ (کندی) کئی دن پوشیدہ رہا پھر ظاہر ہوا اور کہا : اللہ کی قسم ! میں قدرت نہیں رکھتا اور وکئی بھی اس کی طاقت نہیں رکھتا، میں نے قرآن کو کھولا تو سورة مائدہ نکلی، میں نے اس میں دیکھا تو اس نے وفا کا حکم دیا اور عہد توڑنے سے منع کیا، عام حلنت فرمائی پھر استثناء کے بعد استثنا فرمائی پھر دوسطروں میں اپنی حکمت وقدرت کے متعلق خبر دی ان تمام احکام کو کوئی شخص بیان نہیں کرسکتا مگر کئی جلدوں میں (3) مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اوفوا “۔ کہا جاتا ہے وفی اور اوفی دونوں لغتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ومن اوفی بعھدہ من اللہ “۔ (توبہ 111) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وابرھیم الذی وفی (النجم) شاعر نے کہا : اما ابن طوق فقد اوفی بذمتہ کما وفی بقلاص النجم حادیھا۔ دونوں لغتوں کو اس میں جمع کیا، (آیت) ” بالعقود “ اس کا معنی باندھنا ہے، اس کا واحد عقد ہے کہا ہے : عقدت العھد والحبل، وعقدت العسل، یہ معانی اور اجسام دونوں میں استعمال ہوتے ہے، حطیئۃ نے کہا : قوم اذا عقدوا عقدا لجارھم شدوالعناج وشدوا فوقہ الکربا (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 144 دارالکتب العلمیہ) اللہ تعالیٰ نے عہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا، حسن نے کہا : اس سے مراد دین کے عہد ہیں، یہ وہ پختہ وعدہ ہے جو انسان اپنے اوپر باندھتا ہے، بیع شراء اجارہ، کرایہ، مناکحہ، طلاق، مزارعت، مصالحت، تملیک، تخییر، عتق، تدبیر وغیرہ، وہ تمام عقود جو شریعت سے خارج نہیں ہیں، اسی طرح وہ عقود بھی شامل ہیں، جو طاعات میں سے انسان اللہ کے لیے اپنے اوپر باندھتا ہے جیسے حج، روزہ، اعتکاف، صیام، نذر اور اس کے علاوہ ملت اسلام طاعات، مباح نذر لازم نہیں ہوتی۔ اس پر امت کا اجماع ہے، یہ ابن عربی کا قول ہے، پھر بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” واذ اخذاللہ میثاق الذین اوتوا الکتب “۔ (آل عمران : 187) ۔ ابن جریج نے کہا : یہ اہل کتاب کے ساتھ خاص ہے اور اس کے بارے میں نازل ہوئی، بعض نے فرمایا : یہ عام ہے اور یہی قول صحیح ہے، کیونکہ مومنین کا لفظ اہل کتاب کے مومنین کو بھی شامل ہے، کیونکہ ان کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اواء امانت کا عہد تھا جو ان کی کتاب میں حضرت محمد ﷺ کے معاملہ میں سے تھا، کیونکہ انہیں اس کا حکم دیا گیا تھا اس ارشاد میں (آیت) ” اوفوا بالعقود “۔ اور دوسرے مقامات پر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : (آیت) ” اوفوا بالعقود “۔ کا معنی ہے جو اللہ نے حلال کیا، جو حرام کیا، جو فرض کیا اور جو تمام اشیاء میں حد مقرر کی، اسی طرح مجاہد وغیرہ نے کہا (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 144 دارالکتب العلمیہ) ابن شہاب نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کا خط پڑھا جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کے لیے لکھا تھا جب انہیں نجران کی طرف بھیجا تھا اس کے آغاز میں تھا ھذا بیان للناس من اللہ ورسولہ “۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود “۔ اس میں (آیت) ” ان اللہ سریع الحساب “۔ تک آیات لکھیں (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 144 دارالکتب العلمیہ) زجاج نے کہا : (آیت) ” اوفوا “ کا معنی ہے اللہ کے ساتھ جو عہد کیے ہیں ان کو پورا کرو اور ایک دوسرے کے ساتھ جو عہد ہیں ان کو بھی پورا کرو، یہ تمام عموم کے قول کی طرف راجع ہیں اور یہی صحیح ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مومنوں کے معاملات ان کی شرائط کے مطابق ہیں (4) (احکام القرآن لابن العربی جلد 2، صفحہ 527) اور فرمایا ” ہر وہ شرط جو اللہ کی کتاب کے موافق نہیں وہ باطل ہے اگرچہ سوشرائط بھی ہوں “ (5) (احکام القرآن لابن العربی جلد 2، صفحہ 527) پس بیان فرمایا کہ شرط یا عقد کا پورا کرنا واجب ہے وہ وہ ہے جو کتاب اللہ کے موافق ہو، اگر اس میں مخالفت ظاہر ہو تو وہ مردود ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے وہ رد ہے “ (6) (صحیح مسلم، کتاب الاقضیہ جلد 2، صفحہ 77) ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ قریش کے قبائل عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور آپس میں عہد کیا کہ وہ مکہ میں جس مظلوم کو پائیں گے اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے حتی کہ اس سے ظلم کو دور کریں گے، قریش نے اس معاہدہ کو حلف الفضول کہا، اس معاہدہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں عبداللہ کے گھر میں معاہدہ میں شریک ہوا تھا میرے نزدیک وہ سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب تھا، اگر مجھے اسلام میں اس کے لیے بلایا جاتا تو میں قبول کرتا۔ ‘ نبی مکرم ﷺ کے ارشاد میں یہی حلف مراد ہے : ایما حلف کا نفی الجاھلیۃ لم یزدہ الاسلام الاشدۃ (1) (سنن ابی داؤد کتاب الفرائض، جلد 2، صفحہ 49) وہ حلف جو زمانہ جاہلیت میں تھا اس میں اسلام نے شدت کی ہے، کیونکہ وہ شرع کے موافق تھا کیونکہ ظالم سے انصاف لینے کا حکم تھا اور جو عقود فاسد ہوں اور جو عقود باطل ہوں ان کو اسلام نے ساقط کردیا۔ والحمد للہ۔ ابن اسحاق نے کہا : ولید بن عتبہ نے حضرت حسین بن علی ؓ پر اس کے مال کے بارے میں سلطان الولید کے لیے زیادتی کی جب کہ ولید بن عتبہ مدینہ کا امیر تھا، حضرت حسین ؓ نے اسے کہا : میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں تو میرے حق میں انصاف کرے گا ورنہ میں اپنی تلوار اٹھاؤں گا، پھر میں رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں کھڑا ہوں گا، پھر میں حلف الفضول کی دعوت دوں گا، حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے کہا : میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں ! اگر مجھے اس نے بلایا تو میں اپنی تلوار پکڑوں گا پھر حضرت حسین ؓ کے ساتھ کھڑا ہوں گا حتی کہ وہ ان کا حق دے گا یا ہم سب مرجائیں گے، حضرت مسور بن مخرمہ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا، حضرت عبدالرحمن بن عثمان بن عبید اللہ التیمی کو خبر پہنچی تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا : ولید کو جب یہ بات پہنچی تو اس نے انصاف کیا۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” احلت لکم بھیمۃ الانعام “۔ یہ ہر اس شخص کو خطاب ہے جس نے علی وجہ کمال ایمان کو لازم پکڑا، عربوں کے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام کے متعلق طریقے تھے ان کا بیان آگے آئے گا، یہ آیت ادہام خیالیہ اور آراء فاسدہ کو دور کرنے کے لیے نازل ہوئی۔ (آیت) ” بھیمۃ الانعام “۔ کے معنی میں اختلاف ہے۔ البھیمۃ “ ہر چوپائے کو کہا جاتا ہے۔ ان کو یہ نام اس لیے دیا جاتا ہے، کیونکہ ان میں بولنے، سمجھنے اور عدم تمییز کی طاقت نہیں ہوتی اور کم عقلی کا نقص پایا جاتا ہے، اسی سے ہے باب مبھم، بند دروازہ، لیل بھیم، تاریک رات، بہادر جس کا علم نہ ہو کہ اس کا وار کہاں سے آئے گا اس کو بھمۃ کہتے ہیں الانعام سے مراد اونٹ، گائے اور بکریاں ہیں، ان کو یہ نام ان کے آہستہ چلنے کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” والانعام خلقھا لکم فیھا دفء ومنافع ومنھا تاکلون، ولکم فیھا جمال حین تریحون وحین تسرحون، و تحمل اثقالکم، (النحل) اور اللہ تعالیٰ ارشاد ہے : (آیت) ” ومن الانعام حمولۃ وفرشا (الانعام : 142) یعنی بڑے اور چھوٹے، پھر ان کو بیان کیا (آیت) ” ثمنیۃ ازواج، من الضان اثنین ومن المعزاثنین، قلء الذکرین حرم ام الانثیین ام اشتملت علیہ ارحام الانثیین نبؤنی بعلم ان کنتم صدقین، ومن الابل اثنین ومن البقراثنین، قلء الذکرین حرم ام الانثیین اما ام الانثیین ام اشتملت علیہ ارحام الانثیین ام کنتم شھدآء (الانعام) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وجعل لکم من جلود الانعام بیوتا تستخفونھا یوم ظعنکم ویوم اقامتکم “۔ ومن اصوافھا “۔ (النحل : 80) یعنی بکریاں، (اوبارھا “۔ یعنی اونٹ، اشعارھا “۔ یعنی بھیڑیں۔ یہ تین دلائل ہیں جو انعام کے اسم کے ضمن میں ہیں۔ ان تین اجناس کا شعور ملتا ہے یعنی اونٹ، گائے، بکریاں (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 144 دارالکتب العلمیہ) یہ حضرت ابن عباس ؓ اور حسن ؓ کا قول ہے، ہر وی نے کہا : جب البھم بولا جاتا ہے تو اس سے خاص اونٹ مراد ہوتے ہیں، طبری نے کہا : ایک قوم نے کہا : (آیت) ” بھیمۃ الانعام “۔ سے مراد وحشی جانور ہیں جیسے ہرن، وحشی گائیں، وحشی گدھے وغیرہ ذالک، طبری کے علاوہ نے سدی، ربیع، قتادہ، اور ضحاک سے روایت کیا ہے، گویا فرمایا : احلت لکم الانعام، تمہارے لیے بےزبان جانور حلال کیے گئے، پھر جنس کو اس سے خاص کی طرف منسوب کیا گیا، ابن عطیہ رحمۃ اللہ علیہنے کہا : یہ حسن کا قول ہے، انعام کے آٹھ جوڑے ہیں جو بقیہ تمام حیوان ان کی طرف منسوب ہیں اس کو انعام ہی کہا جاتا ہے، گویا چیزنے والا جیسے شیر اور ہر ذی ناب انعام حد سے خارج ہے پس بھیمۃ الانعام سے مراد وہ چوپائے ہیں جو چرنے والے ہیں (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 144 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : اس طرح تو اس میں تمام کھروں والے جانور داخل ہیں، کیونکہ وہ چرنے والے ہیں چیرنے پھاڑنے والے نہیں، حالانکہ بات اس طرح نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” والانعام خلقھا لکم فیھا دفء ومنافع “۔ (النحل : 5) پھر اس پر عطف فرمایا (آیت) ” والخیل والبغال والحمیر “۔ (النحل : 8) جب ان کو علیحدہ ذکر فرمایا اور الانعام پر اس کا عطف فرمایا تو یہ دلیل ہے کہ یہ ان میں سے نہیں ہیں۔ واللہ اعلم بعض علماء نے فرمایا : بھیمۃ الانعام سے مراد وہ جانور ہیں جو شکار نہ ہو، کیونکہ شکار کو وحشی کہ جاتا ہے بہیمۃ نہیں کہا جاتا۔ یہ پہلے قول کی طرف راجع ہے، حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے فرمایا : بھیمۃ الانعام سے مراد وہ بچے ہیں جو ذبح کے وقت ماؤوں کے پیٹوں سے نکلتے ہیں یہ بغیر ذبح کے کھائے جاتے ہیں، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 144 دارالکتب العلمیہ) اس میں بعد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” الا مایتلی علیکم الجنۃ (ماں کے پیٹوں سے نکلنے والے بچے) سے استثنا نہیں کی گئی، امام مالک (رح) نے فرمایا : ذبیحۃ کی ذکاۃ اس کے بچے کی زکاۃ ہے جس کی زندگی معلوم نہ ہو اور اس کے بال اگ چکے ہوں اور اس کی تخلیق مکمل ہوچکی ہو، اگر اس کی تخلیق مکمل نہ ہو اور اس کے بال نہ اگے ہوں تو اسے نہیں کھایا جائے گا مگر یہ کہ وہ زندہ پایا گیا ہوں اور اسے ذبح کیا گیا ہو، اگر انہوں نے اسے ذبح کرنے میں جلدی کی اور وہ خود بخود مرگیا تو بعض علماء نے فرمایا : وہ پاک ہے، اور بعض نے فرمایا پاک نہیں۔ مزید بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الا ما یتلی علیکم “۔ یعنی جو قرآن وسنت میں تم پڑھا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے (آیت) ” حرمت علیکم المیتۃ “۔ (المائدہ : 3) اور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : وکل ذی ناب من السباع حرام “۔ (3) (صحیح مسلم، کتاب الصدید والذبائح جلد 2، صفحہ 147) ہر کچلیوں والا درندہ حرام ہے (4) (صحیح بخاری، کتاب الایمان النذور جلد 2، صفحہ 981، ایضا صحیح بخاری باب اکل کل ذی ناب من السباع حدیث 5104، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اگر کہا جائے، جو ہم پر کتاب نے تلاوت کیا وہ سنت نہیں ہے ؟ ہم کہیں گے رسول اللہ ﷺ کی ہر سنت یہ کتاب اللہ سے ہے، اس پر دلیل دو امر ہیں (1) حدیث العسیف (نوکر والی حدیث) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا “ اور رجم کتاب اللہ میں منصوص نہیں ہے۔ (2) حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث آپ نے فرمایا : مجھے کہا گیا ہے کہ میں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی وہ کتاب اللہ میں ہے، الحدث، مزید بیان سورة الحشر میں آئے گا۔ (آیت) ” الا ما یتلی علیکم “۔ الان او (آیت) ” ما یتلی علیکم “۔ کا احتمال رکھتا ہے، مستقبل میں رسول اللہ ﷺ کی زبان پر جاری ہوگا اس میں بیان کی تاخیر کے جواز پر دلیل ہے جب یہ اس کی ضرورت نہ ہو۔ مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” غیر محلی الصید “۔ یعنی جو حالت احرام میں حلال نہیں اور غیر احرام میں حلال ہے جو شکار نہ ہو وہ دونوں حالتوں میں حلال ہے۔ (آیت) ” الا مایتلی “۔ کے بارے میں نحویوں کا اختلاف ہے کہ یہ استثنا ہے یا نہیں۔ بصریوں نے کہا یہ بھیمۃ الانعام “۔ سے استثنا ہے اور (آیت) ” غیر محلی الصید “۔ اس سے دوسری استثنا ہے پھر دونوں استثنا بھیمۃ الانعام “ سے ہیں، اور یہ مستثنی منہ ہے، تقدیر عبارت اس طرح ہوگی الا مایتلی علیکم الا الصید وانتم محرمون “ ، بخلا اس ارشاد کے : (آیت) ” انا ارسلنا الی قوم مجرمین “۔ الا ال لوط، (الحجر) جیسا کہ آگے آئے گا، بعض علماء نے فرمایا : یہ مسثنی ہے اس سے جو اس سے متصل ہے پس یہ اس قول کے قائم مقام ہوجائے گا (آیت) ” انا ارسلنا الی قوم مجرمین “۔ اگر یہ اس طرح ہوتا تو احرام میں شکار کی اباحت واجب ہوتی، کیونکہ یہ ممنوع سے مستثنی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد : الا مایتلی “۔ اباحت سے مستثنی ہے اور یہ وجہ ساقط ہے پھر یہ معنی ہوگا کہ تمہارے لیے (آیت) ” بھیمۃ الانعام “۔ حلال کیے گئے ہیں شکار کو حلال نہ سمجھو جب کہ تم احرام باندھے ہوئے ہو مگر جو تم پر تلاوت کیا جائے گا سوائے شکار کے یہ معنی بھی جائز ہے کہ عقود کو پورا کرو مگر شکار کو حلال نہ سمجھو اور تمہارے لیے بےزبان جانور حلال کیے گئے ہیں مگر جو تم پر تلاوت کیے جائیں گے، فراء نے (آیت) ” الا ما یتلی علیکم “۔ کا الا کے ساتھ عطف کی بنا پر بدل کی حیثیت سے مرفوع ہونا جائز قرار دیا ہے، جیسا کہ لا کے ساتھ عطف کیا جاتا ہے۔ بصری علماء اس کو جائز قرار نہیں دیتے مگر نکرہ میں یا جو اسماء اجناس نکرہ کے قریب ہوں جیسے جاء القوم الازید، ان کے نزدیک (آیت) ” غیر محلی الصید “ کی نصب حال کی بنا پر ہے اور ذوالحال اوفوا میں ضمیر ہے، اخفش نے کہا : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود، احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم غیر محلی الصید “۔ (المائدہ : 1) دوسرے علماء نے کہا : لکم میں ضمیر سے حال ہے تقدیر اس طرح ہوگی احلت لکم بھیمۃ الانعام غیر محلی الصید، پھر بعض علماء نے فرمایا : یہ بھی جائز ہے کہ احلال لوگوں کی طرف راجع ہو یعنی حالت احرام شکار کو حلال نہ سمجھو اور اللہ کی طرف راجع ہونا بھی جائز ہے یعنی تمہارے لیے جانور حلال کیے گئے مگر جو شکار ہو احرام کے وقت میں، جیسے تو کہتا ہے : احللت لک کذا غیر مبیح لک یوم الجمعۃ، میں نے یہ تیرے لیے حلال کیا مگر تیرے لیے جمعہ کے دن مباح نہیں ہے جب تو کہے گا کہ لوگوں کی طرف حال کرنا راجع ہے تو معنی ہوگا غیر محلین الصید پس نون تخفیفا حذف کی گئی۔ مسئلہ نمبر : (6) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وانتم حرم “۔ یعنی جب تم حج اور عمرہ کے احرام میں ہو، کہا جاتا ہے : رجل حرام، قوم حرم، جب حج کا احرام باندھ لیں، اسی سے شاعر کا قول ہے۔ فقلت لھا فئی الیک فاننی حرام وانی بعد ذات لبیب “۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 145 دارالکتب العلمیہ) یعنی میں تلبیہ کہنے والا ہوں، اس کو احرام میں اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ جو اس داخل ہوتا ہے وہ اپنے اوپر عورتیں اور خوشبو وغیرہ حرام کردیتا ہے، کہا جاتا ہے۔ : احرم وہ حرم میں داخل ہوا، پس حرم کا شکار حرام ہوجاتا ہے۔ حسن، ابراہیم، اور یحی بن وثاب نے حرم (را کے سکون کے ساتھ) پڑھا ہے یہ لغت تمیمۃ ہے، وہ کہتے ہیں : رسل رسل، کتب وکتب مسئلہ نمبر : (7) (آیت) ” ان اللہ یحکم مایرید “۔ ان احکام شریعۃ کو تقویت دینا ہے جو عربوں کے معبود احکام کے مخالف ہیں۔ اے محمد ﷺ آپ ان کے احکام کا نسخ سننے والے ہیں جو مالک الملک ہے، جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں، وہ جو چاہتا ہے، جیسے چاہتا ہے شروع فرماتا ہے۔
Top