Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 62
یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ
يٰعِبَادِ : اے میرے بندو لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ : نہیں کوئی خوف تم پر الْيَوْمَ : آج وَلَآ اَنْتُمْ : اور نہ تم تَحْزَنُوْنَ : تم غمگین ہو گے
اور یہ اللہ کے لیے ایسی باتیں ٹھہراتے ہیں جنہیں خود پسند نہیں کرتے ان کی زبانیں جھوٹے وعدوں میں بےباک ہیں کہ ان کے لیے اچھائی ہے ، حالانکہ ان کے لیے آگ ہے اور یہ سب سے پہلے اس میں پہنچنے والے ہیں
اللہ کیلئے وہ باتیں ٹھہراتے ہیں جنہیں خود پسند نہیں کرتے اور جھوٹ انکی گھٹی میں پڑا ہے : 71۔ فرضی تقسیموں میں کیا ہوتا ہے ؟ جو کسی کے دل میں آیا وہ کہہ دیا ، یہی ڈھنگ مشرکین کا ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں بالکل فرضی باتیں بناتے ہیں کسی دلیل سے کوئی بات نہیں کرتے بزعم خویش بٹائی کرتے ہیں اور جو ردی اور خسیس چیز ہوتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں کہ یہ اللہ کا حصہ ہے ایسا ہی انہوں نے یہاں بھی کیا ان کا ذہن لڑکیوں کو ردی تسلیم کرتا ہے اور لڑکوں کو کار آمد شے تصور کرتے ہیں اس لئے انہوں نے فرشتوں کو لڑکیاں تصور کرکے اللہ کے حصے میں ڈال دیا اور لڑکے ان کو پسند تھے اس لئے وہ اپنے لئے رکھ لئے لیکن جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوگئی اس نے اس کو زندہ درگور کردینا اپنی بہادری کا نشان سمجھا ، ان سارے مفروضوں کے لئے کیا ان کے پاس کوئی دلیل بھی موجود ہے ؟ یقینا نہیں ، پھر جو ان کے جی میں آتا ہے بیان کرتے رہتے ہیں ، منت مانیں گے تو اللہ کے نام کے ساتھ دوسروں کے نام بھی شامل کریں گے اللہ کے نام کوئی چیز دیں گے تو ساتھ اپنے پیروں ‘ بزرگوں اور ولیوں کے نام پر بھی دیں گے پھر ان کے جی میں آیا تو جو اللہ کے نام کی چیز ہے اس میں ردوبدل کرکے اچھی چیز بزرگوں کے لئے اور لاغر وکمزور چیز اللہ کے نام سے منسوب کریں گے اس طرح کی حماقتیں جو اکثر مشرک لوگ اس وقت بھی کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں سورة الانعام کی 130 سے 150 تک بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، وہاں سے مطالعہ کریں۔ بھلائی ان کے لئے ہے یہ ان کا ایک گمان ہے حالانکہ وہ آگ کے مستحق ہیں : 72۔ وہ اس قدر چھوٹ ہے کہ ان کے دل قیامت کے نظریہ کو مطلق نہیں مانتے اور جو کچھ قیامت کے متعلق بیان کیا جاتا ہے وہ سنتے ہیں تو محض اس لئے کہ یہ انکا قومی نظریہ ہے اس لئے وہ خاموش رہتے ہیں اور اگر کوئی شرارتی ذہن طرح مصرح دے جائے تو بات کو فورا اٹھالیں گے اور خوب ہسنی و مذاق اڑائیں گے اور ان سے اور کچھ نہ ہو سکے تو وہ اس طرح کہیں گے کہ اگر بفرض محال نبی ورسول کی یہ بات سچی بھی ہوئی اور قیامت آبھی گئی تو جنت تو یقینا ہمارے ہی حصہ کی چیز ہے اس روز بھی یہ دوزخ کے سارے شعلے انہیں بےنواؤں کے لئے مخصوص ہوں گے جو آج جنت کے واحد ٹھیکہ دار بنے ہوئے ہیں ، ارشاد الہی ہوتا ہے کہ یہ کم بخت کھلا جھوٹ بول رہے ہیں ۔ (آیت) ” لا جرم ان لھم النار “۔ ” اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے لئے تو دوزخ کی آگ ہے ۔ “ مفرطون اس مفعول جمع مذکر افراط مصدر یعنی آگے بھیجے ہوئے آگے روانہ کئے جائیں گے یعنی ان کی یہ خوش فہمیاں ان کو وہاں کچھ بھی کام نہ دیں گے اور ان کی ہنسی اور مذاق انکے لئے مزید وبال بن جائے گا ۔
Top