Al-Qurtubi - Adh-Dhaariyat : 17
كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ
كَانُوْا : وہ تھے قَلِيْلًا : تھوڑا مِّنَ الَّيْلِ : رات سے، میں مَا يَهْجَعُوْنَ : وہ سوتے
رات کے تھوڑے سے حصے میں سوتے تھے
مسئلہ نمبر۔ کانوا قلیلا من الیل ما یھجعون ،۔ یھجعون کا معنی ہے وہ سوتے ہیں۔ ھجوع کا معنی رات کو سونا ہے۔ تھجاع سے مراد ہلکی نیند ہے ؛ ابو قیس بن اسلت نے کہا ؛ قد حصت البیضۃ راسی فما اطعم نوما غیر تھجاع خود نے میرے سر کے بال مونڈ دئیے ہیں۔ تھجاع ( ہلکی نیند) کے علاوہ کوئی نیند نہیں کرتا۔ عمر وبن معد یکرب اپنی بہن کے لئے شوق کا اظہار کرتا ہے جسے صمہ ابو دریدین بن صمہ نے گرفتار کرلیا تھا : امن ریحانہۃ الداعی السمیع یورقنی واصیحابی ھجوع کیا ریحانہ کی جانب سے سنانے والاداعی (شوق) مجھے بیدار رکھتا ہے اور میرے ساتھی سوئے ہوئے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے : ھجع یھجع ھجوعا، ھبغ، یھبغ ھبوغا۔ جب وہ سوجائے ؛ یہ جو ہری نے کہا۔ ما کی تعبیر میں اختلاف کیا گیا ہے : ایک قول یہ کیا گیا ہے ؛ یہ زائد ہے ؛ یہ ابراہیم نخعی کا قول ہے تقدیر کلام یہ ہے کانو اقلیلا من اللیل یھجعون یعنی وہ رات کا تھوڑا حصہ سوتے ہیں اور اس کا اکثر حصہ نماز پڑھتے رہتے ہیں۔ عطا نے کہا ؛ یہ اس وقت ہوا جب انہیں رات کے قیام کا حکم ہوا۔ حضرت ابو ذر ؓ کمر کس لیتے تھے، عصا پکڑ لیتے تھے اس پر سہارا لیتے یہاں تک کہ رخصت نازل ہوئی قم الیل الا قلیلا۔ ، (مزمل) ایک قول یہ کیا گیا ہے۔ ما زائد نہیں بلکہ قیلا پر وقف ہے پھر من الیل مایھجعون سے کلام کا آغاز ہوگا۔ تو مانافیہ ہوگا ان سے نیند کی مطلقا نفی ہے حضرت حسن بصری نے کہا : وہ رات کے وقت بہت ہی تھوڑا سو یا کرتے تھے بعض اوقات ان کی طبیعتوں میں نشاط ہوتی ہے تو وہ سحری تک ذاکر اذکار میں مشغول رہتے (1) ۔ یعقوب حضری سے مروی ہے انہوں نے کہا : اس آیت کی تفسیر میں علماء کا ختلاف ہے۔ بعض نے کہا کانو اقلیلا اس کا معنی ہے ان کی تعداد تھوڑی تھی، پھر کلام کی ابتدا کی اور فرمایا : من الیل ما یھجعون یعنی وہ رات سے سوئے ہوئے ہیں۔ ابن الا نباری نے کہا ؛ یہ فاسد ہے کیونکہ آیت ان کی نیند کی کمی پر دلالت کرتی ہے ان کی تعداد کی کمی پر دلالت نہیں کرتی اس کے بعد اگر ہم من الیل مایھجعون سے آغاز کریں جس کا معنی ہے وہ رات سے بیدار رہتے ہیں اس میں ان کے لئے مدح نہیں کیونکہ تمام رات سوتے رہتے ہیں مگر اس صورت میں مانافتہ ہو۔ میں کہتا ہوں ؛ بعض لوگوں نے جو تاویل کی ہے یہ ضحاک کا قول ہے کہ ان کی تعداد تھوڑی تھی تو کلام ما قبل کے ساتھ متصل ہوگی جو ما قبل کلام یہ ہے انھم کانو اقبل ذلک محسنین یعنی وہ تھوڑے تھے۔ پھر کلام کو شروع کیا فرمایا : من الیل ما یھجعون پر ہوگا۔ اور دوسری تاویل کی بنا پر کانو قلیلا من الیل نیا خطاب ہوگا۔ جب کہ پہلا خطاب مکمل ہوچکا تھا اور وقف مایھجعون پر ہوگا۔ اس طرح جب تو قلیلا کو کان کی خبر بنائے اور ماقلیل کی وجہ سے محل رفع میں ہو، گویا فرمایا : رات کے وقت ان کی نیند تھوڑی ہوتی ہے۔ ما کے بارے میں جائز ہے کہ وہ نافیہ ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ فعل کے ساتھ مل کر مصدر کے حکیم میں ہو۔ یہ بھی جائز ہے کہ کان کے اسم سے بدل ہونے کی بنا پر محل رفع میں ہو۔ تقدیر کلام یہ ہوگی کان ھجوعھم قلیلا اوھجو عا قلیلا یھجعون۔ اگر ما کو زائد نہ مانا جائے تو قلیلا کان کی خبر ہوگی اور اسے یھجعون کے ساتھ نصب دینا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ جب اس کی نصب یھجعون کے ساتھ ما کو مصدر یہ مقدر ماننے سے ہو تو صلہ موصول سے پہلے آتا ہے۔ حضرت انس ؓ اور قتادہنے آیت کا معنی بیان کرتے ہوئے کہا : وہ مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں۔ ابو العالیہ نے کہا : وہ مغرب اور عشاء کے درمیان نہیں سوتے ؛ یہ ابن وہب کا قول ہے۔ مجاہد نے کہا : یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ مغرب اور عشاء کی نمازیں مسجد نبوی میں پڑھتے پھر وہ قباچلے جاتے۔ حضرت محمد بن علی بن حسین نے کہا : وہ عشاء کی نماز پڑھنے سے قبل نہیں سوتے تھے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : گویا ان کی نیند کو نماز کے لئے ان کی بیداری کے مقابلہ میں قلیل شمار کیا۔ حضرت ابن عباس اور مطرف نے کہا : کوئی رات کم ہی ایسی ہوگی جوان پر آتی ہو جس میں وہ نماز نہ پڑھتے ہوں وہ اس کی ابتدائی حصہ میں نماز پڑھتے ہیں یا آخری حصہ میں نماز پڑھتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ رات کے وقت نماز پڑھنے والوں میں ایک سے یہ روایت مروی ہے کہ حالت نیند میں ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے شعر پڑھا : وکیف تنام اللیل عین قریرۃ ولم تدر فی ای المجالس تنزل ، مراد پانے کی خواہش رکھنے والی آنکھ کیسے رات کو سو سکتی ہے وہ جانتی کہ کون سی مجلس میں جا اترے گی۔ بنوازد کے بندے سے مروی ہے کہ اس نے کہا : میں رات کو نہیں سوتا تھا رات کے آخری پہر سو یا تو اچانک میں دونوجوانوں کے پاس تھا جو میں نے لوگ دیکھے تھے ان میں سے وہ حسین ترین تھے ان کے پاس حلے تھے وہ ہر نمازی کے پاس کھڑے ہوئے اور اسے ایک حلہ پہنایا پھر وہ سونے والوں کے پاس پہنچے اور انہیں حلہ نہ پہنایا۔ میں نے ان دونوں سے کہا : ان حلوں (کپڑوں کا جوڑا) میں سے ایک حلہ مجھے بھی پہنادو۔ انہوں نے مجھے کہا : یہ لباس کا حلہ نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حلہ ہے جوہر نمازی پر اترتا ہے۔ ابو خلاد سے مروی ہے اس نے کہا : میرے ایک ساتھی نے مجھے بتایا ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ میرے لئے قیامت کا منظر پیش کیا گیا میں نے اپنے بھائیوں میں سے کچھ کو دیکھا ان کے چہرے روشن تھے، ان کے رنگ چمک رہے تھے اور ان پر حلے تھے جو عام مخلوق کے لباس نہیں تھے میں نے کہا : کیا وجہ ہے یہ لوگ لباس پہنے ہوئے ہیں جب کہ لوگ ننگے ہیں، ان کے چہرے روشن ہیں جب کہ لوگوں کے چہرے غبار آلود ہیں ؟ تو مجھے کسی کہنے والے نے کہا : جن کو تو نے لباس میں دیکھا ہے وہ اذان اور اقامت کے درمیان نماز پڑھتے تھے، جب کے چہرے روشن ہیں وہ بیداری اختیار کرنے والے اور تہجد پڑھنے والے ہیں۔ میں نے کچھ لوگوں کو عمدہ سواریوں پر دیکھا میں نے پوچھا ان لوگوں کو کیا ہوا کہ یہ سوار ہیں جب کہ لوگ پیدل اور ننگے پائوں ہیں ؟ تو ایک کہنے والے نے کہا : یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لئے اپنے قدموں پر کھڑے رہے اس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین بدلہ دیا تو میں نے نیند میں چیخ ماری۔ عبادت گزاروں کے لئے مبارک ہو ان کا مقام کتنا معزز ہے پھر میں نیند سے بیدار ہوا تو میں خوفزدہ تھا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ وبالا سحارھم یستغفرون، یہ دوسری مدح ہے وہ اپنے گناہوں کی استغفار کرتے ہیں ؛ یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے (1) ۔ سحری کا وقت ایسا وقت ہے جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے۔ اس بارے میں گفتگو سورة آل عمران میں گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عمر اور مجاہد نے کہا : وہ سحری کے وقت نماز پڑھتے ہیں تو اس نماز کو استغفار کا نام دیا گیا (1) ۔ حضرت حسن بصری نے اللہ تعالیٰ کے فرمان کانو اقلیلا من الیل مایھجعون، کے بارے میں کہا : انہوں نے رات کے پہلے پہر سے سحری تک نماز کو لمبا کیا پھر سحری کے وقت اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔ ابن وہب نے کہا : یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی وہ قبا سے آتے اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ مسجد نبوی میں نماز پڑھتے۔ ابن وہب نے کہا : یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی وہ قبا سے آتے اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ مسجد نبوی میں نماز پڑھتے۔ ابن وہب، ابن لہیعہ سے وہ یزید بن ابی حبیب سے روایت نقل کرتے ہیں : مراد وہ لوگ ہیں جو پھل کی شرط پو ڈولوں کی مدد سے کچھ انصاریوں کے باغوں کو پانی دیتے پھر تھوڑا سو جاتے اور رات کے آخری پہر نماز پڑھا کرتے تھے۔ ضحاک نے کہا : مراد صبح کی نماز ہے۔ احنف بن قیس نے کہا : میں نے اپنے عمل کو جنتیوں کے اعمال پر پیش کیا تو وہ ایسی قوم تھے جو ہم سے بہت ہی دور تھے ہم ان کے اعمال تک نہیں پہنچ سکتے تھے، وہ راتوں کو کم سوتے تھے۔ میں نے اپنے عمل کو جہنمیوں کے اعمال پر پیش کیا تو وہ ایسی قوم تھے جن میں کوئی بھی بھلائی نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب، اس کے رسول اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کو جھٹلاتے ہیں ہم نے اپنے میں سے بہترین افراد کو ایسی قوم پایا جنہوں نے اچھے اور برے عمل کو خلط ملط کردیا۔ مسئلہ نمبر 4.۔ و فی اموالھم حق للسا ئل والمحروم، یہ تیسری مدح ہے۔ محمد بن سیرین اور قتادہ نے کہا : حق سے مراد فرض زکوٰۃ ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہاں حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ ہے جس کے ساتھ وہ صلہ رحمی کرتا ہے، مہمان کی ضیافت کرتا ہے، بےکس کا بوجھ اٹھاتا ہے یا محروم کو غنی کرتا ہے (92، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کیونکہ سورت مکی ہے اور زکوٰۃ مدینہ طیبہ میں فرض ہوئی۔ ابن عربی کہا : اس آیت کے بارے میں قوی قول زکوٰۃ ہے کیونکہ سورة سال سائل میں ہے وفی امولھم حق للسا ئل والمحروم، حق معلوم سے مراد زکوٰۃ ہی ہے شرع نے جس مقدار، اس کی جنس اور اس کے وقت کو بیان کیا ہے۔ جہاں تک اس قول کا تعلق ہے جو اس کو کہتا ہے وہ معلوم نہیں کیونکہ اس کی مقدار اس کی جنس اور وقت معلوم نہیں۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ للسائل والمحروم، سائل اسے کہتے ہیں جو اپنے فاقہ کی وجہ سے لوگوں سے سوال کرتا ہے ؛ یہ حضرت ابن عباس، سعید بن مسیب اور دوسرے علماء کا قول ہے۔ محروم سے مراد وہ جسے مال سے محروم کردیا گیا ہو۔ اس کی تعیین میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس، سعید بن مسیب اور دوسرے علماء نے کہا : محروم سے مراد وہ مجبور آدمی ہے جس کا اسلام میں کوئی حصہ نہ ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا : محروم سے مراد وہ محنت مزدوری کرنے والا ہے جس کو اس کی کمائی کفایت نہ کرتی ہو یہ جملہ بولا جاتا ہے : رجل محرف محدود مسائل والا محروم، یہ تیرے اس قول کی ضد ہے ؛ مھارک یہ جملہ بولا جاتا ہے : وقد حورف کسب فلان۔ یہ اس وقت بولتے ہیں جب اس کی روزی میں سختی کردی گئی ہو، گویا اس کا رزق اس سے پھیر دیا گیا ہے۔ قتادہ اور زہری نے کہا : محروم سے مراد وہ ہے جو لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتا اور اپنی حاجت سے آگاہ بھی نہیں کرتا۔ حضرت بصری اور محمد بن حنفیہ نے کہا : محروم وہ آدمی ہے جو غنیمت کے حاصل ہونے کے بعد کرتا ہے اور اس مال غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا (1) ۔ روایت بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک لشکر چھوٹا لشکر بھیجا انہوں نے دشمن کو پالیا اور مال غنیمت حاصل کیا جب یہ مہم سے فارغ ہوگئے تو کچھ لوگ آئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ عکرمہ نے کہا : محروم اسے کہتے ہیں جس کے پاس مال باقی نہ ہو۔ زید بن اسلم نے کہا : محروم اسے کہتے ہیں جس کے پھل، کھیتی یا جانوروں کی نسل میں کوئی آفت واقع ہوگئی ہو۔ قرظی نے کہا محروم اسے کہتے ہیں جسے مصیبت پہنچی پھر اس نے یہ کلمات تلاوت کیے انا لمغرمون، بل نحن محرومون، (ابو اقعہ) اسی کی مثل اصحاب جنت کے قصہ میں ہے جب انہوں نے کہا تھا : بل نحن محرومون، (الواقعہ) ابو قلابہ نے کہا : اہل یمامہ کا ایک آدمی تھا جس کا مال تھا سیلاب آیا تو اس کا مال بر باد کردیا تو اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا : محروم ہے اس کے لئے حصہ کرو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جو دنیا طلب کرتا ہے اور وہ اس سے اعراض کرتی ہے : حضرت ابن عباس ؓ سے یہی مروی ہے۔ عبد الرحمن بن حمید نے کہا : محروم سے مراد مملوک ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد کتا ہے ذکر کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز مکہ مکرمہ کے راستہ میں تھے ایک کتا آیا حضرت عمررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بکری کا ایک بازو نکالا اور اس کتے کی طرف پھینک دیا فرمایا : لوگ کہتے ہیں یہ محروم ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : محروم وہ ہے جس کے فقر کی وجہ سے اس کا نفقہ اس کے رشتہ داروں پر لازم کردیا گیا ہو کیونکہ اس کو اس ذات کی کمائی سے محروم کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا نفقہ غیر کے مال میں لازم ہوجاتا ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے رویت نقل کی ہے : اس سے مراد وہ ہے جسے رزق سے محروم کردیا گیا ہو۔ یہ اچھا قول ہے کیونکہ یہ تمام اقوال کو جامع ہے۔ امام شعبی نے کہا : جب سے میں بالغ ہوا ہوں آج مجھے ستر سال ہوچکے ہیں میں محروم کے بارے میں سوال کرتا رہا ہوں آج میں اس دن سے زیادہ عالم نہیں ہوں۔ شعبہ نے عاصم احول سے وہ امام شعبی سے رویت نقل کرتے ہیں کہ لغت میں اس کا معنی ممنوع ہے جس کو روک دیا گیا ہو۔ یہ حرمان سے مشتق ہے جس کا معنی روکنا ہے۔ علقمہ نے کہا : ومطعم الغنم یوم الغنم مطعمہ انی توجہ والمحروم محروم۔ جس کو غنیمت کا مال کھلایا جاتا ہو غنیمت والے دن اسے غنیمت کا مال کھلایا جاتا ہے وہ جہاں بھی جائے جب کہ جسے روک دیا جائے وہ محروم ہے۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : فقراء کی جانب سے اغنیاء کے لئے ہلاکت ہے فقراء کھڑے ہوں گے وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! انہوں نے ہمارے ان حقوق کو روک لیا جو تو نے ہمارے حق میں ان پر فرض کیے تھے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میری عزت و جلال کی قسم ! میں تمہیں قریب کروں گا اور انہیں دور کروں گا، (1) ۔ پھر رسول ﷺ نے اس آیت کو تلاوت : وفی امو الھم حق للسا ئل والمحروم، اسے ثعلبی نے ذکر کیا ہے۔
Top