Al-Quran-al-Kareem - Adh-Dhaariyat : 17
كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ
كَانُوْا : وہ تھے قَلِيْلًا : تھوڑا مِّنَ الَّيْلِ : رات سے، میں مَا يَهْجَعُوْنَ : وہ سوتے
وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے۔
کانوا قلیلاً من الیل مایھجعون :”ھجع یھجع ھجوعا“ (ف) سونا، رتا کا سونا، ہلکا سا سونا تینوں معنوں میں آتا ہے۔”مایھجعون“ کے دو معنی کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ ”ما“ مصدر یہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ رات میں سے بہت تھوڑا حصہ سوتے تھے۔ ابن کثیر نے یہ مطلب احنف بن قیس، حسن بصری اور زہری سے نقل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة مزمل میں فرمایا :(یایھا المزمل ، قم الیل الا قلیلا ، نصفۃ ہ اوا نقص منہ قلیلاً ، اوزد علیہ ورثل القرآن ترتیلاً) (المزمل : 1 تا 3)”اے کپڑے میں لپٹنے والے ! رات کو ق یام کو مگر تھوڑا۔ آدھی رات (قیام کر) یا اس سے تھوڑا کم کم کرلے۔ یا اس سے زیادہ کرلے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ۔“ ان آیات کے نازل ہونے پر آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ ایک سال تک اس پر عمل کرتے رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے سورة مزمل کا آخری حصہ نازل کیا، جس میں فرمایا :(ان ربک یعلم انک تقوم ادنیٰ من ثلثی الیل و نصفہ و ثلثہ و طآئفۃ من الذین معک واللہ یقدر الیل والنھار، علم ان لن تحصوہ فتاب علیکم فاقراء و اما تیسر من القرآن، علم ان سیکون منکم مرضی واخرون یضربون فی الارض یبتغون من فصل اللہ ، واخرون یقاتلون فی سبیل اللہ ، فاقراء وا ماتیسر منہ) (المزمل : 20)”بلاشبہ تیرا رب جانتا ہے کہ تو رتا کے دو تہائی کے قریب اور اس کا نصف اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتا ہے اور ان لوگوں کی ایک جماعت بھی جو تیرے ساتھ ہیں اور اللہ رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اس نے جان لیا کہ تم ہرگز اس کی طاقت نہیں رکھو گے، سو اس نے تم پر مہربانی فرمائی تو قرآن میں سے جو میسر ہو پڑھو، اس نے جان لیا کہ یقینا تم میں سے کچھج بیمار ہوں گے اور کچھ دوسرے زمین میں سفر کریں گے، اللہ کا فضل تلاش کریں گے اور کچھ دوسرے اللہ کی راہ میں لڑیں گے، پس اس میں سے جو میسر ہو پڑھو۔“ تو صحیح مسلم (746) میں مذکر عائشہ ؓ کی حدیث کے مطابق قیام اللیل جو فرض تھا، نقل ہوگیا اور اس میں تخفیف ہوگئی اور رات کے اکثر حصے کے بجائے حکم ہوا :(فاقرء و اما تیسر من القرآن) کہ جتنا قیام آسانی سے کرسکتے ہو کرلو۔ اس آیت کی تفسیر اور قیام اللیل کی فضیلت کے لئے سورة مزمل کی ابتدائی اور آخری آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ ”کانوا قلیلاً من الیل مایھجعون“ کا مطلب اگر یہ کیا جائے کہ جنت میں وہ متقی جائیں گے جو رات کا تھوڑا حصہ سوتے تھے تو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے دائمی عمل سے اس کا مطلب کی تائید نہیں ہوتی۔ ہاں، مندرجہ ذیل حدیث کو سامنے رکھا جائے تو ”مایھجعون“ کا یہ مطلب بالکل درست ہے۔ عثمان بن عفان ؓ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا :(من صلی العشاء فی جماعۃ فکانما فام نصف اللیل، ومن صلی الصبح فی جماۃ فکنما صلی الیل کلہ) (مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃ : 656)”جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے صنف رات قیام کیا اور جو شخص صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا۔“ میزد بحث سورة سجدہ کی آیت (16):(تنجا فی جنوبھم عن المصاجع) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ ”مایھجعون“ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اس میں ”ما“ نافیہ ہے۔ ابن کثیر نے یہ مطلب ابن عباس ، مطرف بن عبداللہ اور مجاہد سے نقل فرمایا ہے اور تفسیر ابن کثیر کے محقق و کتور حکمت بن بشیر نے طبری اور دوسری کتابوں میں مذکور ان کی سندوں کو حسن یا صحیح قرار دیا ہے۔ انس ؓ اور ابو جعفر باقر کے اقوال بھی اس پر مبنی ہیں کہ ”ما“ نافیہ ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا : (لم تکن تمضی علیھم لیلۃ الا یخذون منھا ولو شیاء) (ابن کثیر :318/8)”یعنی ان پر جو رات بھی گزرتی تھی اس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ لیتے تھے خواہ تھوڑا ہی ہو۔“ مطرف بن عبداللہ نے فرمایا :”قل لیلۃ لا تاتی علیھم الا یصلون فیھا اللہ عزوجل ، اما من اولھا و اما من اوسطھا“ (ابن کثیر :318/8)”ان پر کم ہی کوئی رات آتی تھی مگر وہ اس میں اللہ عزوجل کے لئے نماز پڑھتے تھے، یا اس کے شرع میں یا اس کے دریمان میں۔“ مجاہد نے فرمایا :”قل مایرقدون لیلۃ حتی الصباح لایتھجدون“ (ابن کثیر :318/8)”کم ہی کئیو رات ہوتی تھی جس میں وہ صبح تک سوئے رہیں اور تہجد نہ پڑھیں۔“ انس بن مالک اور ابوالعالیہ نے فرمایا :”کانوا یصلون بین المغرب والعشائ“ (ابن کثیر :318/8)”وہ مغرب اور شعاء کے درمیان نمازپ ڑھتے تھے۔“ اور ابو جعفر باقر نے فرمایا :”کانوا لاینامون حتی یصلوا الغمۃ“ (ابن کثیر :318/8)”وہ جب تک عشاء نہ پڑھ لیتے سوتے نہیں تھے۔“ ”مایھجعون“ میں ”ما“ کو نافیہ ماننے کی صورت میں ترجمہ ہوگا ”وہ سوتے نہیں تھے“ یعنی جاگتے تھے اس کے مطابق آیت کا ترجمہ ، تفسیر اور اس پر حاشیہ تفسیر ثنائی سے نقل کئے جاتے ہے :”یہ لوگ راتوں کو کس قدر جاگا کرتے اور صبح کے قوت خدا سے بخش مانگا کرتے تھے۔“ تفسیر ہے :”ان کی نیکی کا نمونہ یہ ہے کہ یہ لوگ راتوں کو بغضر عبادت کسی قدر جاگا کرتے اور تہجد کے بعد یا شب خیزی کے بعد صبح کے قوت خدا سے بخشش مانگا کرتے تھے۔ یعنی صبح سے پہلے تھوڑی رات رہتے اٹھتے تھے اور خدا کی یاد جتنی بھی ہو سکے کر کے صبح سویرے اپنے لئے اور اپنے ماں باپ کیلئے بلکہ جملہ مومنین کے لئے استغفار کرتے تھے۔“ حشایہ :”مایھجعون“ میں وہ لفظ ہیں۔“ ”ھجع“ کے معنی ہیں رات کی نیند۔ قاموس میں ہے :”الھجوع النوم لیلاً ،“”ما“ نافیہ ہے، پس معنی یہ ہیں ”رات کو تھوڑا سا وقت نیند ترک کردیتے تھے۔“ وہ تھوڑا سا وقت چاہیے نماز تہجد کا ہو، جیسے سورة نبی اسرائیل میں ہے :(ومن الیل فتھجد بہ) (بنی اسرائیل :89) نماز عشاء کا ہو جیسے :(واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفاً من الیل) (ھود : 113) میں ”زلفا“ سے مراد عشاء کی نماز ہے، ممکن ہے یہی مراد ”مایھجعوکن“ سے ہو۔ واللہ اعلم)“ (ثنائی) معارف القرآن میں ہے :”کانوا قلیلاً من الیل ما یھجعون) میں ”یھجعون“ ”ھجوع“ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی رات کو سونے کے آتے ہیں۔ اس میں مومنین متقین کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ رات کو جاگنے اور عبادت کرنے کی مشقت اٹھاتے ہیں اور بہت کم سوتے ہیں۔ اور ابن عباس اور قتادہ وغیرہ ائمہ تفسیر نے اس جملے کا مطلب حرف ”ما“ کو اس میں نفی کے لئے قرار دے کر یہ بتلایا ہے کہ ”رات کو تھوڑا سا حصہ ان پر ایسا بھی آتا ہے جس میں وہ سوتے نہیں بلکہ عبادت و نماز وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے وہ سب لوگ اس کا مصداق ہوجاتے ہیں جو رتا کے کسی بھی حصہ میں عبادت کرلیں، خواہ شروع میں یا آخر میں یا درمیان میں۔ اسی لئے انس اور ابوالعالیہ نے اس کا مصداق ان لوگوں کو قرار دیا جوم غرب و عشاء کے درمیان نمازپ ڑھتے ہیں اور امام ابوجعفر باقر نے فرمایا کہ جو لوگ عشاء کی نماز سے پہلے نہ سوویں وہ بھی اس میں داخل ہیں۔ (ابن کثیر)“
Top