Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 15
وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍۚ
وَخَلَقَ الْجَآنَّ : اور اس نے پیدا کیا جن کو مِنْ مَّارِجٍ : شعلے والی سے مِّنْ نَّارٍ : آگ سے۔ آگ کے
اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا
وخلق الجآن من مارج من نار۔ حضرت حسن بصری نے کہا، جان سے مراد ابلیس ہے یہ جنوں کا باپ ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : الجآن جن کا واحد مارج سے مراد خالص شعلہ ہے۔ حضتر ابن عباس نے کہا، اللہ تعالیٰ کے جنوں کو خالص جان سے پیدا کیا۔ لیث نے کہا :: مارج سے مراج ایسا شعلہ ہے جو پھیلنے والا ہو جو شدید لپک والا ہو۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے (2) : اس سے مراد وہ شعلہ ہے جو آگ پر بلند ہوتا ہے اور اس کا بعض بعض سے مل جاتا ہے یعنی کوئی سرخ کوئی زرد اور کوئی سبز ہوتا ہے۔ اس کی مثل مبرد کا قول ہے مبرد نے کا، مارج سے مراد ایسی آگ ہے روکی نہ جاسکے۔ ابو عبیدہ اور حسن بصری نے کہا، مارچ سے مراد خلط ملط آگ ہے۔ اس کی اصل مرج ہے جب وہ مضطرب ہوا اور خلط ملط ہو۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو آگوں کو پیدا کیا ان میں سے ایک کو دوسری کیساتھ ملا دیا تو ان میں سے ایک دوسری کو کھائی گئی وہ نار سموم تھی، اس سے بالیس کو پیدا کیا۔ قشیری نے کہا، لغت میں مارچ سے مراد ہے جسے چھوڑ دیاگ یا ہو یا جو خلط ملط ہوگیا ہو۔ یہ اسم فاعل کا صیغہ ہے جو اسم مفعلو کے معنی میں ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : مآء دافقف۔ (الطارق) عیشۃ راضیۃ۔ (الحاقہ) معنی ہے مرج والی۔ جوہری نے صحاح میں کہا : ماھرج من نار یعنی ایسی آگ جس میں دھواں نہ ہو اس سے جنوں کو پیدا کیا گیا ہے۔ قبای الآء ربکما تکذبن۔
Top