Al-Qurtubi - Al-Hadid : 24
اِ۟لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ يَبْخَلُوْنَ : جو بخل کرتے ہیں وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ : اور حکم دیتے ہیں لوگوں کو بِالْبُخْلِ ۭ : بخل کا وَمَنْ : اور جو کوئی يَّتَوَلَّ : روگردانی کرتا ہے فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ الْغَنِيُّ : وہ بےنیاز ہے الْحَمِيْدُ : تعریف والا ہے
جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو شخص روگردانی کرے تو خدا بھی بےپرواہ (اور) سزاوار حمد (و ثنا) ہے
الذین یبخلون یعنی وہ مختال کو پسند نہیں کرتا جو بخل کرتے ہیں۔ الذبن محل جر میں ہے اور یہ مختال کی صفت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ مبتدا ہونے کی حیثیت سے مرفوع ہے تقدیر کلام یہ ہے الذین یبخلون فاللہ غنی عنھم ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد یہودیوں کے رئیس ہیں جو نبی کریم ﷺ کی ایسی صافت کو بیان کرنے سے بخل کرتے تھے جو صفات ان کی کتابوں میں موجود تھیں تاکہ لوگ آپ کی ذات پر ایمان نہ لے آئیں تاکہ ان کا کھاجہ ختم نہ ہوجائے، یہ سدی اور کلبی کا قول ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا، جو علم کے بارے میں بخل کرتے ویامرون الناس بالبحل اور لوگوں کو بھی یہ کہتے کہ وہ لوگوں کو کسی شی کی تعلیم نہ دیں۔ زید بن اسلم نے کہا : مراد اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی میں بخل ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد صدقہ اور حقوق میں بخل ہے، یہ عامر بن عبداللہ اشعری کا قول ہے۔ طائوس نے کہا، مراد ہے ان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے ان میں بخل کرتے ہیں۔ یہ تینوں قول قریب المعنی ہیں۔ اصحاب خواطر نے بخل اور سخاوت میں لوگوں کو دو فریقوں میں تقسیم کیا ہے (1) بخیل وہ ہے جو مال روکنے کے ساتھ لذت حاصل کرتا ہے اور سخی وہ ہے جو مال عطا کر کے لذت حاصل کرتا ہے (2) بخیل وہ ہے جو سوال کرنے کی صورت میں عطا کرتا ہے اور سخی وہ ہے جو سوال کے بغیر عطا کرتا ہے۔ ومن یتول جو ایمان سے اعراض کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے غنی ہے یہ بھی جائز ہے جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو صدقہ کرنے پر انگختیہ کیا تو لوگوں کو بتایا کہ جو لوگ بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے غنی ہے عام قرآت یعنی باء مضموم اور فاء ساکن ہے حضرت انس، عبید بن عمیر، یحییٰ بن یعمر، مجاہد حمید، ابن محصین، حمزہ اور کسائی نے دو فتحوں کے ساتھ پڑھا ہے یہ انصار کی لغت ہے ابو العالیہ اور ابن سمیقع نے پڑھا ہے یعنی باء مفتوح ہے اور خاء ساکن ہے یہ انصار کی غلت ہے نصر بن عاصم نے دو ضموں کے ساتھ پڑھا ہے سب کی سب مشہور لغتیں ہیں سورة آل عمران کے آخر میں بخل اور شخ میں فرق گزر چکا ہے۔ نافع اور ابن عامر نے ھو ک بغیر پڑھا ہے باقی قراء نے پڑھا ہے یہ ضمیر فصل ہے یہ بھی جائز ہے کہ یہ ضمیر مبتدا ہو اور الغنی اس کی خبر ہو اور جملہ ان کی خبر ہو جس نے اس کو حذف کیا تو بہتر یہ ہے کہ یہ ضمیر فصل ہو کیونکہ ضمیر فصل کا خذف مبتدا کے حذف سے آسان ہوتا ہے۔
Top