Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 46
وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَ لٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
وَمَا كُنْتَ : اور آپ نہ تھے بِجَانِبِ : کنارہ الطُّوْرِ : طور اِذْ نَادَيْنَا : جب ہم نے پکارا وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّحْمَةً : رحمت مِّنْ رَّبِّكَ : اپنے رب سے لِتُنْذِرَ : تاکہ ڈر سناؤ قَوْمًا : وہ قوم مَّآ اَتٰىهُمْ : نہیں آیا ان کے پاس مِّنْ نَّذِيْرٍ : کوئی ڈرانے والا مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور تم طُور کے دامن میں بھی اُس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے (موسیٰؑ کو پہلی مرتبہ)پکارا تھا، مگر یہ تمہارے ربّ کی رحمت ہے(کہ تم کو یہ معلومات دی جارہی ہیں) 64 تاکہ تم اُن لوگوں کو متنبّہ کرو جن کے پاس ان سے پہلے کوئی متنبّہ کرنے والا نہیں آیا،65 شاید کہ وہ ہوش میں آئیں
سورة القصص 64 یہ تینوں باتیں محمد ﷺ کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ باتیں کہی گئی تھیں اس وقت مکہ کے تمام سردار اور عام کفار اس بات پر پوری طرح تلے ہوئے تھے کہ کسی نہ کسی طرح آپ کو غیر نبی اور معاذ اللہ جھوٹا مدعی ثابت کردیں۔ ان کی مدد کے لیے یہود کے علماء اور عیسائیوں کے راہب بھی حجاز کی بستیوں میں موجود تھے۔ اور محمد ﷺ کہیں عالم بالا سے آکر یہ قرآن نہیں سنا جاتے تھے، بلکہ اسی مکہ کے رہنے والے تھے اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ آپ کی بستی اور آپ کے قبیلہ کے لوگوں سے چھپا ہوا نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اس کھلے چیلنج کے انداز میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کے ثبوت کے طور پر یہ تین باتیں ارشاد فرمائی گئیں، اس وقت مکہ اور حجاز اور پورے عرب میں کوئی ایک شخص بھی اٹھ کر وہ بیہودہ بات نہ کہہ سکا جو آج کے مستشرقین کہتے ہیں۔ اگرچہ جھوٹ گھڑنے میں وہ لوگ ان سے کچھ کم نہ تھے، لیکن ایسا دروغ بےفروغ آخر وہ کیسے بول سکتے تھے جو ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چل سکتا ہو۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمد، تم فلاں فلاں یہودی عالموں اور عیسائی راہبوں سے یہ معلومات حاصل کر لائے ہو، کیونکہ پورے ملک میں وہ اس غرض کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے تھے۔ جس کا نام بھی وہ لیتے فورا ہی یہ ثابت ہوجاتا کہ اس سے آنحضرت نے کوئی معلومات حاصل نہیں کی ہیں۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمد، تمہارے پاس پچھلی تاریخ اور علوم و آداب کی ایک لائبریری موجود ہے جس کی مدد سے تم یہ ساری تقریریں کر رہے ہو، کیونکہ لائبریری تو درکنار محمد ﷺ کے آس پاس کہیں سے وہ ایک کاغذ کا پرزہ بھی برآمد نہیں کرسکتے تھے جس میں یہ معلومات لکھی ہوئی ہوں۔ مکہ کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ محمد ﷺ لکھے پڑھے آدمی نہیں ہیں، اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو عبرانی اور سریانی اور یونانی کتابوں کے ترجمے کر کے آپ کو دیتے ہیں۔ پھر ان میں سے کوئی بڑے سے بڑا بےحیا آدمی بھی یہ دعوی کرنے کی جرات نہ رکھتا تھا کہ شام و فلسطین کے تجارتی سفروں میں آپ یہ معلومات حاصل کر آئے تھے، کیونکہ یہ سفر تنہا نہیں ہوئے تھے، مکہ ہی کے تجارتی قافلے ہر سفر میں آپ کے ساتھ لگے ہوتے تھے۔ اگر کوئی اس وقت ایسا دعوی کرتا تو سینکڑوں زندہ شاہد یہ شہادت دے دیتے کہ وہاں آپ نے کسی سے کوئی درس نہیں لیا۔ اور آپ کی وفات کے بعد تو دو سال کے اندر ہی رومیوں سے مسلمان برسر پیکار ہوگئے تھے، اگر کہیں جھوٹوں بھی شام و فلسطین میں کسی عیسائی راہب یا یہودی ربی سے حضور نے کوئی مذاکرہ کیا ہوتا تو رومی سلطنت رائی کا پہاڑ بنا کر یہ پروپیگنڈا کرنے میں ذرا دریغ نہ کرتی کہ محمد، معاذ اللہ سب کچھ یہاں سے سیکھ گئے تھے اور مکہ جاکر نبی بن بیٹھے، غرض اس زمانے میں جبکہ قرآن کا یہ چیلنج قریش کے کفار و مشرکین کے لیے پیام موت کی حیثیت رکھتا تھا، اور اس کو جھٹلانے کی ضرورت موجودہ زمانے کے مستشرقین کی بہ نسبت ان لوگوں کو بدرجہا زیادہ لاحق تھی، کوئی شخص بھی کہیں سے ایسا کوئی مواد فراہم کر کے نہ لاسکا جس سے وہ یہ ثابت کرسکتا کہ محمد ﷺ کے پاس وحی کے سوا ان معلومات کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود ہے جس کی نشان دہی کی جاسکتی ہو۔ یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن نے یہ چیلنج اسی ایک جگہ نہیں دیا ہے بلکہ متعدد مقامات پر مختلف قصوں کے سلسلہ میں دیا ہے، حضرت زکریا اور حضرت مریم کا قصہ بیان کر کے فرمایا ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَيُّھُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ ۠وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ۔ " یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم وحی کے ذریعے سے تمہیں دے رہے ہیں، تم ان لوگوں کے آس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ وہ اپنے قرعے یہ طے کرنے کے لیے پھینک رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے، اور نہ تم اس وقت موجود تھے جبکہ وہ جھگڑ رہے تھے " (آل عمران، آیت 44) حضرت یوسف کا قصہ بیان کرنے کے بعد فرمایا ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُوْنَ۔ " یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم وحی کے ذریعہ سے تمہیں دے رہے ہیں تم ان کے (یعنی یوسف کے بھائیوں کے) آس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ انہوں نے اپنی تدبیر پر اتفاق کیا اور جب کہ وہ اپنی چال چل رہے تھے " (یوسف، آیت 102) اسی طرح حضرت نوح کا مفصل قصہ بیان کرکے فرمایا تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَآ اِلَيْكَ ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا۔ " یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں، تمہیں اور تمہاری قوم کو اس سے پہلے ان کا کوئی علم نہ تھا " (ہود، آیت 49) اس چیز کی بار بار تکرار سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن مجید اپنے من جانب اللہ ہونے اور محمد ﷺ رسول اللہ ہونے پر جو بڑے بڑے دلائل دیتا تھا ان میں سے ایک یہ دلیل تھی کہ سینکڑوں ہزاروں برس پہلے کے گزرے ہوئے واقعات کی جو تفصیلات ایک امی کی زبان سے بیان ہو رہی ہیں ان کے علم کا کوئی ذریعہ اس کے پاس وحی کے سوا نہیں ہے۔ اور یہ چیز ان اہم اسباب میں سے ایک تھی جن کی بنا پر نبی ﷺ کے ہم عصر لوگ اس بات پر یقین لاتے چلے جارہے تھے کہ واقعی آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ پر وحی آتی ہے، اب یہ ہر شخص خود تصور کرسکتا ہے کہ اسلامی تحریک کے مخالفین کے لیے اس زمانے میں اس چیلنج کی تردید کرنا کیسی کچھ اہمیت رکھتا ہوگا، اور انہوں نے اس کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی کوششوں میں کیا کسر اٹھا رکھی ہوتی، نیز یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر معاذ اللہ اس چیلنج میں ذرا سی بھی کوئی کمزوری ہوتی تو اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے شہادتیں فراہم کرنا ہم عصر لوگوں کے لیے مشکل نہ تھا۔ سورة القصص 65 عرب میں حضرت اسماعیل اور حضرت شعیب (علیہما السلام) کے بعد کوئی نبی نہیں آیا تھا، تقریبا دو ہزار برس کی اس طویل مدت میں باہر کے انبیاء کی دعوتیں تو ضرور وہاں پہنچیں، مثلا حضرت موسی، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کی دعوتیں، مگر کسی نبی کی بعثت خاص اس سرزمین میں نہیں ہوئی تھی۔
Top