Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 46
وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَ لٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
وَمَا كُنْتَ : اور آپ نہ تھے بِجَانِبِ : کنارہ الطُّوْرِ : طور اِذْ نَادَيْنَا : جب ہم نے پکارا وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّحْمَةً : رحمت مِّنْ رَّبِّكَ : اپنے رب سے لِتُنْذِرَ : تاکہ ڈر سناؤ قَوْمًا : وہ قوم مَّآ اَتٰىهُمْ : نہیں آیا ان کے پاس مِّنْ نَّذِيْرٍ : کوئی ڈرانے والا مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور نہ آپ طور کے پہلو میں اس وقت موجود تھے، جب ہم نے (موسی (علیہ السلام) کو) آواز دی تھی لیکن آپ اپنے پروردگار کی رحمت سے (نبی بنائے گئے) تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، تاکہ وہ لوگ نصیحت قبول کریں،63۔
63۔ (اور آپ کے اس دعوی نبوت پر دلیل قائم کرنے کو آپ کو یہ تمام علوم صحیح عطا کردیئے گئے ہیں) (آیت) ” قوما ...... قبلک “۔ مراد مشرکین عرب ہیں جن کے پاس پشتہا پشت سے کوئی نبی نہیں آیا تھا گو توحید کی تعلیم ان کو بھی بالواسطہ پہنچ چکی تھی۔” ان آیات میں اولا نفی کی گئی حضور عند عطاء التوراۃ کی جس کا وقوع سب کے بعد ہوا۔ پھر نفی کی گئی حضور وقت قیام مدین کی جو سب سے پہلے واقع ہوا پھر نفی کی گئی حضور وقت النداء کی جو درمیان میں واقع ہوئی۔ اس ترتیب بدلنے میں یہ نکتہ ہے کہ ہر موقع میں آپ کا تشریف نہ رکھنا مستقل دلیل ہو صاحب وحی ہونے، ورنہ اگر وقوع کے موافق ذکر میں ترتیب ہوتی تو مجموعہ دلیل واحد سمجھا جاتا۔ اور گومنفی ثالث میں ترتیب وقوعی کے موافق ترتیب ذکری ہے مگر منفی اول وثانی میں ترتیب بدلنے سے اشارہ ہوگیا تعدد دلائل کے قصد کی طرف “ (تھانوی (رح)
Top