Al-Qurtubi - Al-Hadid : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۚۙ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِرَسُوْلِهٖ : اس کے رسول پر يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ : دے گا تم کو دوہرا حصہ مِنْ رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت میں سے وَيَجْعَلْ لَّكُمْ : اور بخشے گا تم کو۔ بنا دے گا تمہارے لیے نُوْرًا : ایک نور تَمْشُوْنَ بِهٖ : تم چلو گے ساتھ اس کے وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ : اور بخش دے گا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : غفور رحیم ہے
مومنو ! خدا سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے روشنی کر دے گا جس میں چلو گے اور تم کو بخش دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
یایھا الذین امنوا۔ یعنی جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ اتقوا اللہ وامنوا برسولہ رسول سے مراد حضرت محمد ﷺ کی ذات ہے۔ یوتکم کفلین من رحمتہ تمہیں دوگنا اجر دیا جائے گا کیونکہ تم حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہما الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے ہو یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے اولئک یوتون اجرھم مرتین بما صبروا (القصص : 54) اس بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ کفل کا معنی حصہ ہے۔ سورة نساء میں یہ بحث گزر چیک ہے۔ اصل میں اس کا معنی ایسا کمبل یا چادر ہے سوار جس کو اونٹ کی کہ ان لپیٹ لیتا ہے جو اسے گرنے سے بچاتی ہے، یہ ابن جریج کا نقطہ نظر ہے۔ کیا اس سے مراد وہ چادر ہے جسے سوار اونٹ کی کہ ان کے اردگرد لپیٹ لیتا ہے جب وہ اس کی کہ ان کی پچھلی جانب بیٹھتا ہے تاکہ وہ نہ گرے ؟ اس کا معنی ہے وہ تمہیں دو حصے دے گا وہ دونوں یص تمہیں معاصی کی ہلاکت سے محفوظ رکھیں گے۔ جس طرح کفل (چادر) سوار کی حفاظت کرتی ہے۔ حضر ابو موسیٰ اشعری نے کہا، کفلین کا معنی حبشہ کی زبان میں دو گنا ہے۔ حضرت ابن زید سے مروی ہے، کفلین سے مراد دنیا و آخرت کا اجر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب یہ آیت اولئک یوتون اجرھم مزتین بما صبروا (القصص : 54) نازل ہوئی تو اہل کتاب کے مومنوں نے نبی کریم ﷺ کے صحابہ پر فخر کیا تو یہ آیت نازل وہئی۔ بعض علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ ای کی نیک کا اجر ایک مثل ہی ہوگا۔ کہا : حسنہ عام اسم ہے اس کا صدق ایمان کی ہر نوع پر آئے گا اور اسے عموم پر ہی بولا جائے گا۔ جب حسنہ کا لفظ ایک نوع پر بولا جائے تو اس پر ثواب بھی ایک مثل ہی ہوگا۔ اگر ایسی نیکی پر بولا جائے جو دوناوں پر مشتمل ہو تو اس پر ثواب دو مثل وہ گا، اس کی دلیل یہ آیت ہے کیونکہ فرمایا : کفلین من رحمۃ اور فکل کا معنی نصیب ہے جس طرح مثل ہوتا ہے۔ جو آدی متقی ہو اور اس کے رسول پر ایمان لایا اس کے لئے دو حصے ہیں ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی وجہ سے ایک حصہ اس کے رسول پر ایمان کے باعث ہے۔ اس چیز نے اس امر پر دلالت کی کہ وہ نیکی جس کا اجردس گنا بنایا گیا ہے وہ نیکی کی دس انواع کو جامع ہے وہ ایمان ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت میں دس انواع کو جمع کیا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ان المسلمین و المسلمت (الاحزاب : 35) یہ دس انواع جس کا ثواب ان کی مثل ہے تو یہ نوع کے بلے میں ایک مثل ہوئی۔ یہ تاویل فاسد ہے کیونکہ یہ ظاہر کلام سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : من جآء بالحسنۃ فلہ عشرا مثالھا (الانعام : 160) عموم کی تخصیص اس کا احتمال نہیں رکھتی، کیونکہ جو دس نیکیوں کو جامع ہو تو ہر نیکی کو اس کی مثل ہی بدلہ دیا جائے گا تو اس سے یہ امر باطل ہوگیا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس گنا ہو جب کہ اخبار اس پر دال ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ اگر معاملہ اس طر ہو جس طرح ذکر کیا گیا ہے تو حسنہ اور سیئہ میں کوئی فرق نہ ہو۔ ویجعل لکم نرواً نور سے مراد بیان اور ھدی ہے، یہ مجاہد سے مروی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے : اس سے مراد قرآن ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ضیاء ہے۔ تمسون بہ جس کی روشنی میں تم آخرت میں پل صراط پر سے گزرو گے اور قیامت کے روز جنت کی طرف جائو گے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس کی روشنی میں تم لوگوں میں چلو پھرو گے۔ انہیں اسلام کی طرف دعوت دو گے تو تم دین اسلام میں لوگوں کے روساء بن جائو گے تو تم سے وہ ریاست نہ ہوگی جس میں تم ہو گے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ خوف لاحق ہوا تھا کہ اگر وہ حضرت محمد ﷺ پر ایمان لائے تو ان کی ریاست ختم ہوجائے گی اصل میں ان سے وہ رشوت ختم ہوتی تھی وہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں تحریف کر کے کمزور لوگوں سے حاصل کرتے تھے دین میں حقیقی سرداری ختم نہیں ہوتی تھی۔ ویغفرلکم تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا واللہ غفور رحیم۔ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔
Top