بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Hashr : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ : اور جو زمین میں وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں (سب) خدا کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے
جلاوطنی یہود از ارض حجاز و غلبہ رسول خدا ﷺ برباغات وقلعہائے بنی نضیر : قال اللہ تعالیٰ : سبح للہ مافی السموت وما فی الارض ...... الی ...... ان اللہ شدید العقاب “۔ (ربط) گزشتہ سورت کے اختتامی مضمون میں اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور مقابلہ کرنے والوں پر وعید تھی اور ان کی ذلت ورسوائی کا بیان تھا اور خداوند عالم کی عزت وقدرت اور کبریائی کا ذکر تھا تو اب اس سورة حشر میں اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ اور دشمنی کرنے والوں کا انجام بیان کیا جارہا ہے، اور یہودیوں کی ذلت ورسوائی ذکر کی جارہی ہے کہ ان کی طاقت و شوکت اور ان کے محفوظ قلعے انکو عذاب خداوندی سے نہ بچا سکے ارشاد فرمایا۔ پاکی بیان کرتی ہے اللہ کے لیے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے وہی زبردست قوت وعزت و حکمت والا ہے اسی کی عزت و حکمت کا یہ نتیجہ ہے کہ اسی نے نکال دیا کافروں کو اہل کتاب میں سے انکے گھروں سے پہلی مرتبہ وطن کرنے کے لیے کہ ان سب کو اجتماعی طور پر اپنے گھروں اور آبادی سے نکلنے کا حکم دے دیا گیا اور وہ سرمایہ دار اور بڑے بڑے جتھوں والے یہودی جو بنو نضیر تھے اپنے گھروں سے جلاوطن کرکے اریحاء اور تیماء کے علاقوں میں آباد کیے گئے یہ پہلا حشر اور جلاوطنی تھی جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہوئی دوسری جلاوطنی جس کا اشارہ لفظ (آیت) ” لاول الحشر “ میں کردیا گیا تھا فاروق اعظم ؓ کے زمانہ میں پیش آئی جب کہ یہود کے ساتھ نصاری بھی خیبر سے نکال کر شام کی طرف جلاوطن کیئے گئے، اور اس طرح آنحضرت ﷺ کے فرمان ” اخرجوالیھودوالنصاری من جزیرۃ العرب “ کی تکمیل فرمائی گئی۔ اے لوگو ! تم گمان نہ کرتے تھے کہ وہ لوگ نکلیں گے اور ظاہری اسباب میں اس کی توقع نہ تھی اور ان لوگوں نے یہ خیال کیا ہوا تھا کہ ان کے قلعے ان کو بچا لیں گے اور ان کی حفاظت کرلیں گے خدا کے فیصلہ سے لیکن خدا کا فیصلہ ان پر آپہنچا ایسی صورت سے کہ وہ گمان بھی نہ کرتے تھے اور سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ اس طرح محصور ہو کر بےبس ومجبور ہوجائیں گے اور ذلیل ومغلوب ہو کر نکلنا پڑے گا ان کے قلعے، ہتھیار اور سازوسامان کچھ بھی کام نہ آئے گا اور اللہ نے انکے دلوں میں رعب ڈال دیا کہ وہ خود ہی اپنے گھروں کو اجاڑنے لگے اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے سردار کعب بن الاشرف کے قتل سے پہلے ہی خوفزدہ ہوچکے تھے مگر پھر ناگہانی مسلمانوں کے حملے سے بچے کھچے ہوش وہوش و حواس بھی جاتے رہے، خود ہی اپنے ہاتھوں اپنے مکانوں کے دروازے کڑی تختے اکھاڑنے لگے جب کہ مسلمانوں کا لشکر بھی ان کے قلعوں کو مسمار کررہا تھا تو یہ ایسے حقائق وواقعات ہیں کہ عبرت حاصل کرو اے آنکھ والو کہ خدا کی نافرمانی کا انجام کس طرح دنیا میں ذلت ورسوائی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور اگر اللہ نے ان پر یہ جلاوطنی کا فیصلہ نہ لکھ دیا ہوتا تو پھر ان کو دنیا میں عذاب دیتا جیسا کہ پہلی امتوں قوم عاد وثمود پر دنیا میں عذاب نازل کیا گیا اور ہوسکتا تھا کہ بنو قریظہ کی طرح مارے جاتے اور آخرت میں کچھ اس لیے کہ انہوں نے مخالفت کی اللہ کی اور اس کے رسول کی اور جو بھی کوئی مقابلہ کرے گا اللہ کا تو اس کو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ بڑا سخت عذاب والا ہے جو مجرموں اور نافرمانوں پر واقع ہوتا ہے، تو بنو نضیر کے یہودیوں کے محاصرہ کے دوران اے مسلمانو ! جو بھی کچھ تم نے کاٹا کسی نرم کھیتی یا کھجور کے درخت کو یا تم نے رہنے دیا اس کو اپنی جڑوں پر کھڑا ہوا سو یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے اور اس لیے کہ اللہ نافرمانوں کو ذلیل کرے، اس وجہ سے کافروں کے یہ طعن واعتراض لغ وہیں جو انہوں نے کرنے شروع کیے کہ دیکھو مسلمانوں نے کیسا ظلم کیا کس طرح کھیتیاں اجاڑیں اور کس طرح کھجور کے درخت کاٹ ڈالے اور اس صورت سے کیسا فساد برپا کیا حالانکہ خود یہ مسلمان فساد سے منع کرتے ہیں تو سن لینا چاہئے کہ یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے تھا اور اس کی غرض یہ تھی کہ کافروں کا غرور ونخوت پامال کردیا جائے کہ جس دولت وجائداد پر ان کو غرور تھا وہ ان کے ہی سامنے ڈھائی جارہی ہے، یہ باغات اور کھیتیاں جن کے نشے نے ان کے دماغ خرب کر رکھے تھے ان کے سامنے جلائی جارہی ہوں تاکہ وہ دیکھ لیں یہ ہے ہماری عزت اور یہ ہے ہمارے غرور وسرکشی کا متاع باطل جو آگ کے شعلوں کی نذر ہورہا ہے یہود کی اس شکست ومغلوبی اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی صورت کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا اور جو کچھ مال لوٹایا اللہ نے اپنے رسول کی طرف ان لوگوں سے سو وہ ایسا مال ہے کہ نہیں دوڑائے ہیں تم نے اس پر گھوڑے اور نہ ہی اونٹ و لیکن اللہ اپنے رسولوں کو غلبہ دے دیتا ہے جس پر چاہے اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے تو یہ ہے حقیقت مال فئے کی اور اس کے مصارف و احکام یہ ہیں جو مال بھی لوٹایا اللہ نے اپنے رسول کی طرف ان بستیوں والوں سے وہ اللہ کے واسطے ہے اور اس کے رسول کے لیے اور رسول کے قرابت داروں کے لیے اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ان سب کے حصے مال فئے میں مقرر کردیئے ہیں تاکہ نہ رہے یہ چیز گردش کرنے والی ایک دولت تمہارے میں سے مالداروں کے درمیان بلکہ ان سب مصارف میں تقسیم ہو کر ان سب اقسام و انواع کے افراد کے لیے اعانت وامداد کا ذریعہ بنے اور اس لینے میں کسی شخص کو یہ نہ سوچنا کہ یہ میرا حق ہے میں اس کو جس طرح سے چاہوں لوں بلکہ تمہیں قناعت اختیار کرنی چاہئے اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہی رجوع کرنا چاہئے اور جو کچھ تم کو رسول خدا دیں وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں منع کردیں اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ کسی بھی مرحلہ پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی نافرمائی نہ ہوسکے بیشک اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی عطا ہو یا احکام ہوں اور اوامر ونواہی جو بھی کچھ دیا جائے اس کو لینا چاہئے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جس سے روکا جائے اور منع کیا جائے سعادت یہی ہے کہ اس سے باز رہا جائے اس کی خلاف ورزی بدنصیبی اور شقاوت ہے۔ جزیرۂ عرب سے یہود کی جلاوطنی : اس سورت کی ابتداء (آیت) ” ھو الذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتب من دیارھم “۔ ان کے گھروں سے جلاوطنی کا مضمون ادا کررہی ہے اور لفظ (آیت) ” اول الحشر “۔ سے ظاہر کردیا گیا کہ اس پہلی مرتبہ کی جلاوطنی کے بعد پھر بھی کوئی اور وقت آئے گا کہ وہ اپنے گھروں سے نکالے جائیں گے ، امام بخاری (رح) اور امام مسلم (رح) نے مو سے بن عقبہ ؓ کی سند سے نیز امام بخاری (رح) نے دوسرے موقعہ پر باسناد عبدالرزاق عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بنونضیر پر حملہ کیا اور قریظہ پر بھی تو بنو نضیر کو جلاوطن کیا اور قریظہ پر احسان وکرم کرتے ہوئے ان کو رہنے دیا، لیکن جب قریظہ نے بھی بغاوت کی تو ان پر بھی حملہ کیا گیا ان کے مردوں کو قتل کیا گیا، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا گیا البتہ جن بعض اہل کتاب نے آنحضرت ﷺ کی پناہ لی تو آپ ﷺ نے ان کو پناہ دے دی اور وہ لوگ اسلام لے آئے۔ 1 حاشیہ (تفسیر ابن کثیر، صحیح بخاری و صحیح مسلم۔ روح المعانی۔ 12) پہلی مرتبہ کی جلاوطنی کا ذکر اس سورت میں وضاحت و تفصیل کے ساتھ کیا گیا اور دوسری مرتبہ کی جلاوطنی جو فاروق اعظم ؓ کے زمانہ میں ہوئی صرف (آیت) ” لاول الحشر “۔ کہہ کر اشارہ کردیا گیا، عمر فاروق ؓ نے ان کو اس طرح نکالا کہ ان کا نام ونشان بھی باقی نہ چھوڑا گویا جس کام کی ابتداء آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی اس کی تکمیل فاروق اعظم ؓ کے ہاتھوں ہوئی جو ان کی فضیلت کی عظیم ترین دلیل ہے۔ ابن عباس ؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے بنو نضیر کا محاصرہ کیا، یہاں تک کہ یہود بنو نضیر مجبور وبے بس ہوگئے تو ان لوگوں نے اپنی عاجزی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ہر فیصلہ ہمیں منظور ہے بشرطیکہ آپ ﷺ ہماری جان بخشی کردیں تو آپ ﷺ نے ان کے حق میں یہی فیصلہ فرمایا کہ وہ اپنی زمینوں، مکانوں اور وطن سے نکل جائیں اور شام کے علاقہ میں جاکر بس جائیں آپ ﷺ نے ہر تین کو ایک مشکیزہ اور ایک اونٹ کی اجازت دی تاکہ وہ اس پر سفر کرسکیں اور پینے کے لیے پانی رکھ سکیں تو یہ پہلی مرتبہ کی جلاوطنی تھی۔ غنیمت اور فئی کے درمیان فرق : بنو نضیر کے اموال شریعت کے نزدیک مال فئے ہوئے اور اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہاں قرآن کریم نے فئی کا مفہوم متعین کردیا جیسا کہ ارشاد فرمایا (آیت) ” ومآ افآء اللہ علی رسولہ منھم فمآاوجفتم علیہ من خیل ولارکاب “۔ کہ فئی وہ مال ہے جس پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے ہوں اور نہ اونٹوں سے حملہ کیا ہو بلکہ کافر مرعوب ومغلوب ہوگئے ہوں، اور مرعوب ومغلوب ہو کر کافروں نے ہتھیار ڈال دیئے ہوں تو اس قوم سے حاصل شدہ اموال خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ مال فئے کہلاتے ہیں، غنیمت تو اس مال کو کہا جائے گا جو قوت استعمال کرنے کے بعد بصورت فتح حاصل ہو، مال غنیمت کا حکم۔ (آیت) ” واعلموا انما غنمتم من شیء “۔ میں بیان کردیا گیا تھا کہ خمس نکالنے کے بعد بقیہ چار خمس مجاہدین کے درمیان برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے لیکن فئے میں خمس بھی نہیں نکالا جائے گا اور یہ بھی لازم نہیں کہ ہر مجاہد کو برابر دیا جائے استعداد وصلاحیت کے پیش نظر حصوں میں کمی زیادتی کی جاسکتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہی فرق رکھا ہے غنیمت اور فئی میں جو مال لڑائی سے ہاتھ لگا وہ غنیمت ہے اور اس میں پانچواں حصہ اللہ کی نیاز اور چار حصے لشکر کو تقسیم کیے جاتے ہیں اور جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ لگے وہ سب کا سب مسلمانوں کے خزانے میں رہے جو ان ہی پر صرف کیا جائے۔ حضرات فقہاء نے بیان فرمایا ہے اگر ابتداء میں کچھ صورت جنگ کی ہوئی لیکن پھر کافروں نے مرعوب ہو کر قبل اس کے کہ جنگ کا کوئی فیصلہ ہو صلح کی طرف مسارعت کی اور مسلمانوں نے اس کو قبول کرلیا تو اس صورت میں بھی جو اموال حاصل ہوں گے وہ بھی ” فئے “ کے حکم میں شمار کیے جائیں گے اور بنو نضیر کے واقعہ میں صورت ایسی ہی پیش آئی۔ مال فئے کے متعلق آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں یہی حکم تھا کہ وہ خالصتا آپ ﷺ کے اختیار و تصرف میں آجاتے ہیں اور ان اموال پر آپ کا تصرف بعض فقہاء کی رائے کے مطابق مالکانہ تھا جیسا کہ الفاظ آیت سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے، جو صرف آپ کے حق میں مخصوص تھا اور بعض فقہاء کی رائے کے مطابق آپ ﷺ کا تصرف متولیانہ تھا، یہ احتمال وبحث صرف آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک مخصوص و محدود تھی اس کے بعد اس امر پر اجماع ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی خلیفہ اور امام کا تصرف مالکانہ نہیں ہوتا بلکہ متولیانہ ہے، جو اپنی صوابدید اور مشورہ سے مناسب مواقع پر مسلمانوں کے مصالح میں خرچ کرسکتا ہے اور اس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ صرف ان ہی مجاہدین پر تقسیم کیا جائے جو اس مہم میں شریک تھے جس کے نتیجہ میں یہ فئے حاصل ہوا برخلاف غنیمت کے کہ وہ خمس نکالنے کے بعد صرف انہی مجاہدین میں تقسیم ہوتا ہے جو اس لشکر اور جہاد میں شامل تھے ہاں یہ دوسری بات ہے کہ کوئی مجاہد خود ہی اپنا حق چھوڑ دے یا کسی اور کو ہبہ کردے ، قاضی ابوبکر جصاص (رح) احکام القرآن میں بیان فرماتے ہیں ” یہ حکم اموال منقولہ کا ہے غیر منقولہ میں امام کو یہ اختیار ہے کہ مصلحت سمجھے تو لشکر پر تقسیم کردے اور مصلحت نہ سمجھے تو بجائے تقسیم کرنے کے مصالح عامہ کے لیے رہنے دے جیسا کہ سواد عراق میں حضرت عمر فاروق ؓ نے بعض جلیل القدر صحابہ کے مشورہ سے یہی عملدر آمد رکھا اسی مسلک اور رائے کے پیش نظر قاضی ابوبکر جصاص (رح) نے (آیت) ” واعلموآانما غنمتم “۔ کو اموال منقولہ پر اور سورة حشر کی آیات کو اموال غیرمنقولہ پر حمل کیا، اس طرح کہ یہاں پہلی (آیت) ” ومآ افآء اللہ علی رسولہ “۔ کا حکم فئی سے متعلق ہے اور دوسری (آیت) ” مآافآء اللہ علی رسولہ من اھل القری “ ، کا حکم غنیمت پر محمول ہے اور لغۃ غنیمت کو فئی سے تعبیر کرسکتے ہیں، واللہ اعلم بالصواب (از فوائد عثمانی) علامہ ابن الاثیر، جزری (رح) نے مال غنیمت اور فئے میں فرق کا یہی معیار تجویز فرمایا ہے کہ جو بغیر قتال و جہاد کافروں سے حاصل ہو وہ مال فئے ہے جیسا کہ سورة حشر کی ان آیات میں ہے لیکن قاضی ابوبکر جصاص (رح) اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو مال کافروں سے کفر کی بناء پر مسلمانوں کو حاصل ہو خواہ وہ جہاد و قتال سے ہو یا بغیر جہاد و قتال کے وہ ہمارے نزدیک مال فئے ہے، (احکام القرآن ص 84 ج 3) اس لحاظ سے مال فئے عام ہوا اور مال غنیمت خاص حنین میں جو مال غنیمت مال تھا وہ بلاشبہ مقابلہ اور شدید مقاتلہ کے بعد حاصل ہوا تھا لیکن آپ ﷺ نے اس میں سے مؤلفۃ قلوبہم پر تقسیم فرمایا جیسا کہ مال فئے تقسیم کیا جاتا ہے اور پہلے معنی کے لحاظ سے حنین کی غنیمت تھی اس پر فئی کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ غزوۂ خیبر میں جو قلعہ اور زمین آپ ﷺ نے اپنے واسطے محفوظ رکھی اور اس کو غائمین پر تقسیم نہی کیا، صحیح روایات میں اس پر بھی فئے کا اطلاق آیا ہے اور فدک اور وادی القری کی جو زمینیں آپ کو صلح سے ملی تھیں ان پر بھی فئی کا اطلاق آیا ہے تو ان نقول وروایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو مال یا زمین کسی بھی صورت سے مسلمانوں کو کافروں سے ملے اس کو فئے کہیں گے نصوص کتاب اللہ اور سنت سے یہی عموم معلوم ہوتا ہے اور بعض فقہاء ومثلا صاحب ہدایہ کے کلام سے بھی ایسا ہی مفہوم ہوتا ہے۔ مالک حقیقی کی عطا کردہ ولایت پیکر رسالت میں : آیت، مذکورہ : (آیت) ” فللہ وللرسول “ میں لام للہ پر تملیک کے لیے ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ اللہ رب العزت ان اموال کا حقیقی مالک ہے اور للرسول پر لام تولیت کا ہے کہ مالک حقیقی نے اپنی عطا اور ملک یا امانت بطور نیابت وتولیت آنحضرت ﷺ کے حوالہ فرمائی اور قانون مقرر ہوگیا کہ (آیت) ” وما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا “۔ تو ولایت ونیابت کا یہ مقام اور تولیت ایک برزرخی مقام ہوا جو ملک حقیقی اور ملک مستعار کے درمیان ہے اور یہ صرف رسول اللہ ﷺ کیلیے مختص ہے اس سے یہ نتیجہ واضح طور پر اخذ ہوتا ہے کہ جیسے مالک حقیقی خداوند مالک الملک کو یہ اختیار ہے کہ وہ جسے چاہے دے اور جسے چاہے نہ دے اسی طرح بوجہ خلافت خداوندی یہ مرتبہ متوسطہ یعنی مرتبہ تولیت رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے جس کے واسطے آیت مبارکہ (آیت) ” ما اتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا “۔ ناطق ہے۔ جو تولیت آنحضرت ﷺ کو خلافت الہیہ کے ضمن میں من جانب اللہ حاصل تھی اس کا ماحصل خلافت کی تقسیم ہے کہ آپ ﷺ کے بعد خلفائے راشدین وہ خدمت انجام دیتے رہیں جو انکے سپرد کی جائے، حضور اکرم ﷺ کو خلافت خداوندی حاصل تھی تو خلفائے راشدین کو خلافت نبوت حاصل تھی اور اس کا اصل سبب تولیت ہے نہ کہ ملکیت، اس لیے نقل خلافت میں وراثت و قرابت کا مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوسکتا، پھر یہ فرما کر (آیت) ” ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشآء “۔ یہ ظاہر فرما دیا کہ ہر عطا خواہ مال فئی وغنیمت ہو یا خلافت ونیابت رسالت ہو اس میں کسی کا استحقاق ودخل نہیں بلکہ رسول خدا کا فیصلہ اور ان کی عطا اور تعیین ہی بنیاد ہے جس کو چاہیں اپنی صوابدید سے عطا فرمادیں تو اسی معیار سے آپ ﷺ نے جس ہستی کو حضرات صحابہ کرام ؓ میں خلافت نبوت کا سب سے پہلا مستحق سمجھا اسی کو خود اپنی حیات مبارکہ میں جانشین بنادیا اور حکم دے دیا مروا ابابکر ؓ لیصل بالناس۔ کہ ابوبکر ؓ کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، مگر ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہ ؓ ، حفصہ ؓ نے بہت کوشش کی کہ ابوبکر ؓ کے بجائے کسی اور کو اس خدمت پر مامور کردیا جائے لیکن آپ ﷺ نے پوری قوت اور سختی سے ان کی بات رد کرتے ہوئے یہی فیصلہ برقرار رکھا کہ، مروابابکر لیصل بالناس، تاکہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ آپ کا اپنے مصلے پر ابوبکر ؓ کو کھڑے ہونے کے لیے فرمانا کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ یہ ایک طے شدہ خداوندی فیصلہ تھا کہ اب پیغمبر خدا ﷺ کی نیابت وجانشینی صدیق اکبر ؓ کے واسطے بارگاہ خداوندی سے طے ہوچکی ہے، چناچہ خود حضرت علی ؓ اسی حقیقت کو اپنے خطبات میں ارشاد فرمایا کرتے اور فرماتے کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کو امامت کے لیے فرمایا یہ بات نہیں کہ ہم غائب تھے بلکہ موجود تھے ہماری موجودگی میں یہ حکم صادر ہورہا تھا اور ہم تندرست تھے بیمار نہ تھے کہ کوئی ہم غائب تھے، بلکہ موجود تھے ہماری موجودگی میں یہ حکم صادر ہورہا تھا اور ہم تندرست تھے بیمار نہ تھے کہ یہ گمان کرنے لگے شاید علی ؓ بیمار ہوں گے اس وجہ سے یہ بات ہوگئی ورنہ علی ؓ ہی امام بنائے جاتے (نہج البلاغہ)
Top