Al-Qurtubi - At-Tawba : 87
رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَ طُبِعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَفْقَهُوْنَ
رَضُوْا : وہ راضی ہوئے بِاَنْ : کہ وہ يَّكُوْنُوْا : ہوجائیں مَعَ : ساتھ الْخَوَالِفِ : پیچھے رہ جانیوالی عورتیں وَطُبِعَ : اور مہر لگ گئی عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَفْقَهُوْنَ : سمجھتے نہیں
یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں (گھروں میں بیٹھ) رہیں انکے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔ تو یہ سمجھتے ہی نہیں۔
آیت نمبر 87 تا 89۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) رضوا بان یکونوا مع الخوالف اس میں الخوالف، خالفۃ کی جمع ہے یعنی وہ عورتوں، بچوں اور مردوں میں سے معذوروں کے ساتھ ہوجائیں۔ اور آدمی کے لیے خالف اور خالفۃ بھی کہا جاتا ہے جب وہ نجیب اور شریف نہ ہو، جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔ کہا جاتا ہے : فلان خالفۃ اھلہ جب وہ ان سے گھٹیا ہو۔ نحاس نے کہا ہے : اس کی اصل خلف اللبن یخلف سے ہے جب دودھ طویل وقت تک پڑے رہنے کے سبب کھٹا اور خراب ہوجائے اور خلف فم الصائم روزے دار کے منہ کی بو بدل جائے اور اسی سے فلان خلف سوئ (فلاں برا پیچھے رہنے والا ہے) مگر یہ فاعلۃ کی جمع فواعل ہے اور فاعل صفت کی فواعل کے وزن پر جمع نہیں بنائی جاتی مگر شعر میں، مگر دو حرفوں میں۔ اور وہ دونوں فارس اور ہالک ہیں۔ اور مجاہدین کے وصف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) واولئک لھم الخیرات کہا گیا ہے : مراد خوبصورت عورتیں ہیں۔ یہ حسن سے منقول ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) فیھن خیرات حسان (الرحمن) (ان میں اچھی سیرت والیاں اچھی صورت والیاں ہوں گی) اور کہا جاتا ہے : ھی خیرۃ النسائ (یہ عورتوں میں سے اچھی اور خوبصورت ہے) یہ اصل میں خیرۃ ہے پھر اس میں تخفیف کی گئی ہے، جیسے ھینہ اور ھینۃ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ خیر کی جمع ہے۔ پس معنی یہ ہے کہ ان کے لیے دونوں جہاں کے منافع ہیں۔ اور فلاح کا معنی پہلے گزرچکا ہے۔ اور جنات سے مراد بساتین (باغات) ہیں۔ یہ بھی پہلے گزرچکا ہے۔
Top