Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 87
رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَ طُبِعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَفْقَهُوْنَ
رَضُوْا : وہ راضی ہوئے بِاَنْ : کہ وہ يَّكُوْنُوْا : ہوجائیں مَعَ : ساتھ الْخَوَالِفِ : پیچھے رہ جانیوالی عورتیں وَطُبِعَ : اور مہر لگ گئی عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَفْقَهُوْنَ : سمجھتے نہیں
انھوں نے اس بات کو پسند کیا کہ وہ پیچھے رہ جانے والیوں کے ساتھ بنیں اور مہر لگا دی گئی ان کے دلوں پر پس وہ کچھ نہیں سمجھتے۔
رَضُوْابِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَایَفْقَھُوْنَ (التوبۃ : 87) (انھوں نے اس بات کو پسند کیا کہ وہ پیچھے وہ جانے والیوں کے ساتھی بنیں اور مہر لگادی گئی ان کے دلوں پر پس وہ کچھ نہیں سمجھتے۔ ) یہ دلیل ہے اس بات کی کہ گزشتہ آیت میں جو فرمایا گیا وہ ان کے دل کی آواز ہے کیونکہ رضا اور پسندیدگی دل کا فعل ہے۔ تو زبان سے وہ ہزار بہانے تراشیں لیکن ان کے دل کی رضا اس میں ہے کہ وہ جہاد میں شرکت کی بجائے گھروں میں رہنے والی عورتوں کے ساتھ رہیں۔” خوالف “ گھروں میں رہنے والی عورتوں کو کہتے ہیں۔ مرد جنگ و جہاد اور دوسرے مردانہ کاموں کے لیے گھر سے باہر نکلتے ہیں اور عورتیں بچوں اور گھروں کی دیکھ بھال کے لیے گھروں میں بیٹھتی ہیں۔ جب مرد بھی ایسے مواقع پر جب نکلنا ضروری ہوجائے گھروں میں بیٹھ رہیں تو عرب ایسے لوگوں کو طعنہ دیتے کہ تم گھروں میں بیٹھ رہنے والی بزدل عورتوں کی طرح ہو۔ وہ تو عورت ہونے کی وجہ سے جنگوں میں نہیں نکلتیں اور تم مرد ہو کر اس طرح چھپ کر بیٹھتے ہو جیسے عورتوں کو بیٹھنا چاہیے۔ یہ بزدلی اور بےغیرتی کا ایسا طعنہ ہے جسے ایک عرب کے لیے برداشت کرنا آسان نہیں۔ چناچہ منافقین کی غیرت کو جھنجھوڑ نے کے لیے قرآن کریم نے ان کے لیے اس لفظ کو استعمال فرمایا اور ساتھ ہی ان کی چہرہ نمائی بھی فرمائی کہ ان کا اصل چہرہ یہ ہے اس لیے ان سے تم کسی ایسے کام کی توقع مت رکھو جس میں جرات وتہور اور پامردی اور سرفروشی درکار ہو۔ ان میں صرف بزدلی ہی نہیں آئی بلکہ بزدلی ان کی پسندیدہ چیز بن گئی ہے۔ ان کی اس قلب ماہیت کی وجہ سے اللہ کا قانون حرکت میں آیا اور ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ مہر لگنے کے بعد چونکہ وہ قبولیت کی استعداد سے محروم ہوگئے ہیں اس لیے اب وہ ہر طرح کی سمجھنے والی بات کے سمجھنے سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ اللہ نے انھیں اپنی قسمت بدلنے اور ایمان کو جلادینے کا موقع دیا لیکن انھوں نے پستی میں اترنا پسند کیا۔ ابرِ رحمت برسا ہر چیز کو شاداب کرگیا لیکن ان کے ایمان کی کھیتی بنجر سے بنجر ہوتی چلی گئی۔ ایسے بدنصیب لوگ اللہ کے آخری رسول کی امت اور ایک قافلہ حق کے ہمراہی ہوکر بھی محروم ہی رہے۔
Top