Ruh-ul-Quran - Hud : 101
وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰكِنْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَمَاۤ اَغْنَتْ عَنْهُمْ اٰلِهَتُهُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍ لَّمَّا جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَ١ؕ وَ مَا زَادُوْهُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ
وَ : اور مَا ظَلَمْنٰهُمْ : ہم نے ظلم نہیں کیا ان پر وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) ظَلَمُوْٓا : انہوں نے ظلم کیا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانوں پر فَمَآ اَغْنَتْ : سو نہ کام آئے عَنْهُمْ : ان سے (کے) اٰلِهَتُهُمُ : ان کے معبود الَّتِيْ : وہ جو يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے تھے مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : کچھ بھی لَّمَّا : جب جَآءَ : آیا اَمْرُ رَبِّكَ : تیرے رب کا حکم وَ : اور مَا زَادُوْهُمْ : نہ بڑھایا انہیں غَيْرَ تَتْبِيْبٍ : سوائے ہلاکت
اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے خود اپنی جانوں پر زیادتی کی تو ان کے وہ دیوتا جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے جب تیرے رب کا عذاب آیا تو ان کے کچھ بھی کام نہ آیا۔ ان کے دیوتائوں نے ان کی بربادی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کیا
وَمَا ظَلَمْنٰـہُمْ وَلٰـکِنْ ظَلَمُوْ ٓا اَنْفُسَھُمْ فَمَآ اَغْنَتْ عَنْہُمْ اٰلِھَتُھُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ شَیْ ئٍ لَّمَّا جَآئَ اَمْرُ رَبِّکَ ط وَمَا زَادُوْھُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ ۔ (سورۃ ہود : 101) (اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے خود اپنی جانوں پر زیادتی کی تو ان کے وہ دیوتا جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے جب تیرے رب کا عذاب آیا تو ان کے کچھ بھی کام نہ آیا۔ ان کے دیوتائوں نے ان کی بربادی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کیا) اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا قوموں کی ہلاکت اور بربادی کے واقعات پڑھ کر یا سن کر آدمی سوچنے لگتا ہے کہ قوموں کو تباہ کردینا بہت بڑا ظلم ہے۔ پروردگار یہ کیسے پسند فرماتا ہے کہ اس کی زمین پر لاشوں کے ڈھیر لگے ہوں۔ اس کی ذات تو نہایت رحیم و کریم ہے۔ وہ خود فرماتا ہے کہ میری نگاہ میں ظلم نہایت ناپسندیدہ ہے۔ میں نے کسی پر کبھی ظلم نہیں کیا۔ تم جن بستیوں کو دیکھتے ہو کہ وہ اپنے مکینوں سمیت تباہ ہوگئیں وہ اللہ کے ظلم کی وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں نے اپنی جانوں پر خود ظلم کیا۔ اس کے نتیجے میں ان پر عذاب آیا۔ اللہ نے اپنے رسول بھیج کر ان پر یہ بات واضح کردی کہ تمہارے سامنے دو راستے ہیں، ایک عافیت اور کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ تم اپنے خالق ومالک کی مرضی کے مطابق اس کی خوشنودی کے حصول کے لیے زندگی گزارو۔ اسی کو اپنا اِلٰہ سمجھو، اسی کے سامنے سر جھکائو، اسی کی غیر مشروط اطاعت کرو۔ اس کے نتیجے میں تمہیں دنیوی کامیابیاں بھی نصیب ہوں گی اور اخروی کامرانیاں بھی۔ اور دوسرا راستہ ہے ہلاکت و تباہی کا۔ اگر تم اللہ کی فرمانبرداری کی بجائے شیطان یا اپنے نفس کی پیروی کرو، اس کے رسولوں پر ایمان لانے کی بجائے طاغوت پر ایمان لائو، اسی کے سامنے سر جھکانے اور اسی کو معبود سمجھنے کی بجائے اوروں کو اس کا شریک بنائو اور خواہش نفس کے نتیجے میں بداخلاقیوں کو اپنا شعار بنا لو، تو یہ وہ راستہ ہے جو بالآخر ہلاکت اور تباہی پر منتج ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح رحیم و کریم ہے اور اس کی رحمت تمام مخلوقات کو زندگی بخشتی ہے اور زندگی کی بقا کا سامان کرتی ہے اور اس کی ربوبیت تمام مخلوقات کی تربیت کے اسباب فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح وہ عادل بھی ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ میری مکلف مخلوق جن میں جن و انس شامل ہیں وہ میری نعمتوں سے تو شادکام ہوتے ہیں، میرے احسانات سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور میری رحمتوں کے مزے لوٹتے ہیں، لیکن میری حاکمیت، میری الوہیت، میری وحدانیت اور میری بندگی سے انکار کرتے ہیں اور انھوں نے نہ جانے کتنی دیویوں اور دیوتائوں کو میرا شریک بنا رکھا ہے، پھر وہ اپنے رسول بھیج کر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ انھیں سمجھنے کے لیے مہلت دیتا ہے لیکن جب وہ اپنی ہٹ پر قائم رہتے ہیں تو آخر اس کی صفت عدل حرکت میں آتی ہے تو یہ لوگ جنھوں نے اس کی زمین کو فساد سے بھردیا ہے اور گلشن ہستی کو اپنی بداعمالیوں کے جھاڑ جھنکار سے ویرانے میں تبدیل کردیا ہے۔ انھیں تباہ کرکے ازسرنو اس ویرانے کو گلشن میں تبدیل کرتا ہے۔ تو یہ تباہی و بربادی ان لوگوں کی نافرمانی اور ان کی سرکشی کے نتیجے میں ان پر مسلط ہوتی ہے اور اس کا سبب وہ خود بنتے ہیں اور یہی وہ ظلم ہے جو وہ اپنے اوپر کرتے ہیں، اللہ ان پر ظلم نہیں کرتا۔ گمراہی کا عمومی سبب آیت کے دوسرے حصے میں قوموں کے بگاڑ کا ایک عمومی سبب بیان فرمایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جنھیں سرے سے اس بات کا احساس ہی نہ ہو کہ اگر قیامت کے دن اللہ کے سامنے حاضری ہوئی اور وہاں اپنی زندگی کے اعمال کے بارے میں جوابدہی کرنا پڑی تو ہم کیا کریں گے۔ ہر شخص کے دل میں یہ خواہش موجود رہتی ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ رہوں۔ اس سے بچنے کا ایک راستہ تو وہ ہے جو پیغمبر لوگوں کو بتاتے ہیں لیکن وہ راستہ چونکہ کٹھن ہے، اس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں، خواہش نفس کی مخالفت ہے اور ایک خاص دائرے میں رہ کر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ اسی مشکل کو محسوس کرتے ہوئے کچھ لوگ ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں، شیطان ایسے ہی موقعوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ ان لوگوں کے لیے شارٹ کٹ تجویز کرتا ہے اور ان کے ذہن میں یہ بات ڈالتا ہے کہ تمہیں قیامت یا جوابدہی سے ہراساں نہیں ہونا چاہیے۔ اولاً تو یہ ساری باتیں ہی باتیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں، لیکن اگر حقیقت ہو بھی تو تم ان قوتوں سے اپنا رشتہ جوڑو جو اللہ سے قریبی رشتہ رکھتی ہیں۔ ان کی بندگی بجا لائو، ان کے لیے قربانیاں کرو اور جب ضرروت پڑے انھیں سے استمداد کرو۔ انھیں اللہ نے اپنی صفات اور اپنے اختیارات میں شریک کر رکھا ہے اور وہی اس کائنات کا نظام چلا رہے ہیں۔ قیامت کے دن یہی لوگ تمہاری شفاعت کریں گے۔ ان کے ہوتے ہوئے تمہیں کسی طرح کا تردد نہیں کرنا چاہیے۔ شفاعت کا یہ وہ غلط تصور ہے جس نے قوموں کی قومیں برباد کی ہیں۔ جب کوئی شخص یہ یقین کرلیتا ہے کہ میں جن قوتوں کو اللہ کے مقابلے میں پکارتا ہوں وہ مجھے اللہ سے چھڑا سکتی ہیں۔ میں نے جن کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے رکھا ہے اور جن کا میں نے دامن تھام رکھا ہے وہ میری شفاعت کریں گی۔ تو ایسے شخص کو پھر کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ شریعت کے احکام پر عمل کرے یا کسی بھی معاملے میں اللہ سے ڈر کر صحیح راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ شفاعت کا غلط تصور اور قیامت کے حقیقی تصور میں بعدالمشرقین ہے۔ قیامت تو اس لیے آئے گی تاکہ ان لوگوں کو جزاء دی جائے اور اچھے بدلے سے نوازا جائے جنھوں نے اللہ کی فرمانبرداری میں زندگی گزاری اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہر قربانی دی۔ حتیٰ کہ اگر اس راہ میں جان بھی قربان کرنا پڑی تو اس سے بھی دریغ نہ کیا۔ اگر اس کے مقابلے میں یہ تصور قبول کرلیا جائے کہ زندگی جیسے چاہو خواہشِ نفس کی پیروی میں گزارو، جیسے چاہو داد عیش دیتے رہو، جہاں بس چلے دوسروں کے حقوق چھین لو اور کمزوروں پر ظلم توڑو اور اگر قیامت کے دن کوئی بازپرس ہوئی تو تم جن کے دامن گرفتہ ہو ان کی سفارش تمہاری نجات کا باعث بن جائے گی۔ تمہاری کوئی بدعملی اور نافرمانی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ اندازہ فرمایئے، شفاعت کے اس غلط تصور کے نتیجے میں قیامت کا کیا مفہوم باقی رہ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اللہ کی کوئی فرمانبرداری کرے تو کیونکر اور اس کے راستے میں قربانی دے تو کیوں ؟ جب کسی نیکی کا کوئی صلہ نہیں اور کسی بُرائی کی کوئی سزا نہیں تو نیکی کی رغبت اور بُرائی سے پرہیز آخر اس کی کیا علت باقی رہ جاتی ہے۔ بگاڑ کے اسی حقیقی سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ان بگڑی ہوئی قوموں پر ہمارا عذاب آیا تو جن دیوی دیوتائوں کی شفاعت کے سہارے پر وہ شرک اور نافرمانی کرتے رہے، کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ ان سے تعلق کی وجہ سے قدرت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، لیکن جب اس کی گرفت آئی تو دور دور تک کوئی ان کا مددگار نہ پہنچا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اگر یہ غلط تصور ان کا سہارا نہ بنتا تو شاید وہ ہدایت کی بات کو قبول کرلیتے اور پیغمبر کی تبلیغ و دعوت کے نتیجے میں سوچنے پر آمادہ ہوجاتے، لیکن شفاعت کے اس غلط تصور نے انھیں بچانے کی بجائے ان کی ہلاکت میں اضافہ کیا۔ اس کے سہارے وہ اپنی ڈگر پر چلتے رہے اور کسی بات کو سننا بھی گوارا نہ کیا۔
Top