Ruh-ul-Quran - Hud : 76
یٰۤاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَا١ۚ اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَ١ۚ وَ اِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ
يٰٓاِبْرٰهِيْمُ : اے ابراہیم اَعْرِضْ : اعراض کر عَنْ ھٰذَا : اس سے اِنَّهٗ : بیشک یہ قَدْ جَآءَ : آچکا اَمْرُ رَبِّكَ : تیرے رب کا حکم وَاِنَّهُمْ : اور بیشک ان اٰتِيْهِمْ : ان پر آگیا عَذَابٌ : عذاب غَيْرُ مَرْدُوْدٍ : نہ ٹلایا جانے والا
اے ابراہیم ! اس بات کو رہنے دیجیے، اب تمہارے رب کا حکم آچکا اور ان پر ایک ایسا عذاب آکر رہے گا جو ٹالے نہ ٹالا جاسکے۔
یٰٓاِبْرٰھِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا ج اِنَّہٗ قَدْجَآئَ اَمْرُ رَبِّکَ ج وَاِنَّھُمْ اٰتِیْھِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ ۔ (سورۃ ہود : 76) (اے ابراہیم ! اس بات کو رہنے دیجیے، اب تمہارے رب کا حکم آچکا اور ان پر ایک ایسا عذاب آکر رہے گا جو ٹالے نہ ٹالا جاسکے۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سفارش سے روک دیا گیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تمام تر الحاح وزاری اور اصرار کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : کہ اے ابراہیم اب اس اصرار کو چھوڑو۔ تمہاری دردمندی اور اللہ کی طرف انابت اپنی جگہ لیکن قوم لوط نے جس طرح اللہ کی نافرمانی کی اور اللہ کے نبی کی تکذیب کی اور ایک ایک اخلاقی قدر کو پامال کیا، اپنی ان بداعمالیوں اور اللہ کے رسول کی جانب سے اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد اب یہ لوگ کسی رحم کے مستحق نہیں رہے۔ اللہ کی طرف سے عذاب کا فیصلہ ہوچکا اور یہ عذاب وہ نہیں جو چونکانے اور ہدایت کی طرف راغب کرنے کے لیے آیا کرتا ہے بلکہ یہ عذاب وہ ہے جو کسی قوم کی جڑ کاٹنے کے لیے آتا ہے اور پھر یہ عذاب کبھی ٹالے سے بھی ٹلتا نہیں۔ قوم لوط اب اسی عذاب کی مستحق ہوچکی ہے۔ مشرکینِ مکہ کے لیے لمحہ فکریہ غور فرمایئے ! یہ آیات مکہ معظمہ میں نازل ہورہی ہیں اور مشرکین مکہ کو پڑھ کر سنائی جارہی ہیں۔ مقصود اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکینِ مکہ کی تمام تر گمراہیوں کی بنیاد یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سمجھتے تھے، ملت ابراہیم کا اپنے تئیں وارث گردانتے تھے اور اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ اولاً تو ہم پر گرفت نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسا اللہ کا خلیل ہماری شفاعت کے لیے کافی ہے، وہ ہمیں اللہ کے غضب سے بچا لے گا۔ شفاعت کے اس غلط تصور نے ان کی دینی زندگی کو تلپٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ ان آیات میں انھیں بتایا جارہا ہے کہ اگر کفر میں کسی کی شفاعت کام آتی تو حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا کبھی نہ ڈوبتا اور اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کسی کافر قوم کو بچا سکتے تو قوم لوط کبھی عذاب کا شکار نہ ہوتی کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو بچانے کے لیے اپنی بندگی کا سارا سرمایہ جھونک دیا۔ تو اے مشرکینِ مکہ تمہیں غور کرنا چاہیے کہ تم کس مصنوعی سہارے پر اپنی عاقبت تباہ کررہے ہو۔ اللہ کے نبیوں کا مقام و مرتبہ برحق، وہ اللہ کے یہاں بہت اعزازات اور امتیازات سے نوازے جائیں گے لیکن وہ کبھی کسی کافر کی سفارش نہیں کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کافر کے بارے میں سفارش اللہ کے یہاں قبول نہیں ہوتی۔ وَلَمَّا جَآئَ تْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِـْیٓ ئَ بِھِمْ وَضَاقَ بِھِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ ھٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ۔ (سورۃ ہود : 77) (جب آئے ہمارے بھیجے ہوئے لوط ( علیہ السلام) کے پاس، وہ ان کے آنے سے غمگین ہوئے اور ان کی وجہ سے ان کا دل تنگ پڑا اور کہنے لگے کہ یہ تو بہت ہی کٹھن دن ہے۔ ) سِـْیٓ ئَ بِھِمْکا معنی کیا گیا ہے سَائَ مَجِیْئُھُمْ لُوْطاً ان کے آنے نے لوط کو پریشان اور غمگین کردیا۔ ضَاقَ بِھِمْ ذَرْعًاامام بیضاوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ الفاظ دل کی پریشانی اور انقباض کے بیان کے لیے بطور کنایہ اس وقت انسان کہتا ہے جب وہ کسی تکلیف کو دور کرنے سے بالکل عاجز ہوجائے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی پریشانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے اٹھ کر وہ تین فرشتے جو انسانی بھیس میں تھے حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم لوط کی آزمائش کے لیے نہایت حسین و جمیل شکلوں میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے جیسے انھیں دیکھاتو وہ انتہائی تشویش میں مبتلا ہوگئے۔ وہ اپنی قوم کے بےحیائی پر مبنی رویئے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ انھیں خوب معلوم تھا کہ ان میں ہم جنس پرستی کی برائی وباء کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ چونکہ اس میں پوری قوم ملوث ہے اس لیے کسی کو کسی سے بھی جھجک باقی نہیں رہی۔ وہ بالکل حیوانوں کی طرح اس برائی کا کھلم کھلا ارتکاب کرتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو خوب معلوم تھا کہ جیسے ہی میری قوم کے لوگوں نے ان خوبصورت نوجوانوں کو دیکھا تو وہ اپنے اوپر ضبط نہیں کرپائیں گے۔ وہ یقینا اپنے برے ارادے کی بجاآوری کے لیے میرے گھر پر حملہ کردیں گے۔ چناچہ یہ سوچ کر ان کا دل غم سے بھر گیا اور نہایت پریشانی میں ان کی زبان سے نکلا کہ آج کا دن تو بڑا کٹھن دن ہے کہ ایک طرف میرے مہمان ہیں جن کی عزت کی حفاظت میری ذمہ داری ہے اور دوسری طرف میری قوم ہے جو شرم و حیاء کا لبادہ اتار چکی ہے۔ ایسی صورتحال میں، میں کیا کروں۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ان کے اندیشوں کی عملی تعبیر سامنے آگئی۔
Top