Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 34
وَ اَعْطٰى قَلِیْلًا وَّ اَكْدٰى
وَاَعْطٰى : اور اس نے دیا قَلِيْلًا : تھوڑا سا وَّاَكْدٰى : اور بند کردیا
اور تھوڑا سا دیا (پھر) ہاتھ روک لیا
واعطی قلیلا واکدی . اور تھوڑا مال دیا اور (پھر بالکل) بند کردیا۔ وَاَعْطٰی قَلِیْلاً : یعنی اس مشرک نے جو مال دینے کا وعدہ کیا تھا ‘ اس کا کچھ حصہ تو دے دیا اور کچھ نہیں دیا۔ وَّاَکْدٰی : یعنی باقی حصہ دینے میں بخل کیا ‘ نہیں دیا۔ بغوی نے یہی ترجمہ کیا ہے۔ ابن جریر نے بحوالہ ابن زید بیان کیا کہ ایک شخص مسلمان ہوگیا ‘ کسی نے اس کو غیرت دلائی کہ تو نے بزرگوں کے دین کو چھوڑ دیا اور ان کو گمراہ سمجھا اور دوزخی قرار دیا ؟ مسلمان ہونے والے نے کہا : مجھے اللہ کے عذاب کا ڈر ہے۔ غیرت دلانے والے نے کہا : تو مجھے کچھ مال دے دے تجھ پر جو عذاب آئے گا میں اس کو اٹھا لوں گا۔ اس شخص نے اس کو کچھ دے دیا ‘ اس نے کچھ اور مانگا اس شخص نے کچھ بڑھا دیا۔ مانگنے والے نے ایک تحریر لکھ دی اور گواہی بھی اس پر ثبت کردی۔ اس پر آیت : اَفَرَءَ یْتَ اَلَّذِیْ تَوَلّٰی نازل ہوئی۔ سدی کا بیان ہے کہ یہ آیت عاص بن واہل سہمی کے حق میں نازل ہوئی جو بعض باتوں میں رسول اللہ ﷺ کے موافق تھا (اور بعض امور میں مخالف) محمد بن کعب قرظی کا قول ہے کہ اس آیت کا نزول ابوجہل کے بارے میں ہوا۔ ابوجہل نے کہا تھا کہ محمد ﷺ ہم کو اچھے اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں لیکن اس قول کے باوجود وہ ایمان نہیں لایا ‘ تھوڑا دینے کا یہی مطلب ہے کہ کسی قدر حق کا اس نے اقرار کیا اور اکدٰی سے مراد ہے ‘ ایمان نہ لانا۔ اکدٰی کا لغوی معنی ہے قَطَعَ ۔ یہ لفظ کُدْیَۃٌسے مشتق ہے کہ یہ اس سخت چٹان کو کہتے ہیں جو کنواں کھودنے میں آجاتی ہے اور مزید کھودنے سے روک دیتی ہے۔ عرب کہتے ہیں : اکدی الحافر والجبل یعنی کنواں کھودنے والے کو کسی حائل ہونے والی چٹان یا پہاڑ نے روک دیا۔ مقاتل نے کہا : ولید نے زبان سے تو مال دینے کا اقرار کرلیا تھا لیکن دیتے وقت کچھ دیا ‘ کچھ نہیں دیا ‘ روک لیا۔
Top