Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 13
وَ مَا ذَرَاَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ
وَمَا : اور جو ذَرَاَ : پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُخْتَلِفًا : مختلف اَلْوَانُهٗ : اس کے رنگ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّذَّكَّرُوْنَ : وہ سوچتے ہیں
اور زمین میں جو چیزیں تمہارے لیے گوناگوں قسموں کی پھیلائیں بیشک اس میں بھی بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت قبول کرتے ہیں۔
وَمَا ذَرَاَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 13) (اور زمین میں جو چیزیں تمہارے لیے گونا گوں قسموں کی پھیلائیں بیشک اس میں بھی بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت قبول کرتے ہیں۔ ) نسخے سے فائدہ کون اٹھاتا ہے اس کا عطف سخرلکم کے نیچے ہے۔ ذراَ کا معنیخَلَقَ (پیدا کیا ہے) اس ارشاد ربانی کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند اور ستاروں کو تمہاری خدمت کے لیے مسخر کردیا ہے۔ اسی طرح اس سطح زمین پر جن چیزوں کو پیدا فرمایا، حیوانات، نباتات، معدنیات انھیں بھی تمہارے لیے مسخر فرما دیا لیکن ان سے فائدہ صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو عقل و فہم سے کام لینا جانتے ہیں ہوں۔ بےعلموں اور بےفکروں کے لیے تو یہ انمول خزانے بےمصرف ہیں۔ پانی میں بجلی کی حیرت انگیز قوت پہلے دن سے موجود تھی، کُرّہ ہَوائی کی موجیں تیری آوازکو آناً فاناً دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچانے کی اہلیت رکھتی تھیں۔ تیرے ریگستانوں کے نیچے پٹرول کے سمندر موجزن تھے لیکن ان سے فائدہ اٹھانا تیراکام تھا۔ اغیار نے اپنی انتھک کوششوں اور جانفشانیوں سے ان پنہاں قوتوں کا سراغ لگالیا اور ان سے خوب خدمت لی، لیکن اے حامل قرآن، تیری سہل انگاری نے تجھے مہلت نہ دی کہ تو اپنی اس کتاب کا مطالعہ کرے، جس نے سب سے پہلے ان قوتوں کی تسخیر کی دعوت دی۔ تیرے فقیر حال مست اور تیرے امیرمال مست رہے۔ تیرے بلند ہمت اسلاف نے علم و حکمت کی جو چمن بندی کی تھی اس میں بہار آنے کا وقت آیا تو، تو اس سے غافل ہوگیا اور اس پر اغیار نے تسلط جما لیا۔ اہل ہمت ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں اور تجھے پتنگ بازی سے فرصت نہیں۔ کمرہمت باندھ مستقل مزاجی سے محنت اور جفاکشی کو اپنا شعار بنا اور آگے بڑھ کر علم و دانش اور فن و حکمت کے کاروانوں کی قیادت سنبھال۔ موجودہ بےدین قیادت انسانیت کو اپنے رب سے دور کررہی ہے اور اسے ہلاکت کی طرف لے جارہی ہے۔ تیری مومنانہ قیادت جہاں جہاں انسانیت کے لیے امن و عافیت کی ضامن ہوگی وہاں بندے کا رشتہ اپنے رب سے استوار کرنے کا بھی باعث بنے گی۔ (ضیاء القرآن) دلیلِ تخالف مندرجہ بالا آیات میں جس طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے اسے پڑھنے کے بعد ذہن میں فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان نعمتوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو ان میں بیشتر نعمتیں آپس میں تخالف کی نسبت رکھتی ہیں باہمی ان میں تضاد پایا جاتا ہے۔ لیکن جب ہم ان کو کائنات کی ذمہ داریاں نبھاتے اور انسانی کی خدمت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کہیں بھی ان میں تخالف نہیں پایا جاتا۔ ہر کُرّہ اور ہر مخلوق نہایت سعادت مندی کے ساتھ اسی خدمت پر لگی ہوئی ہے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ آگ اور پانی میں آپس میں تضاد سہی لیکن اپنی ذمہ داریاں کو ادا کرنے میں یہ تضاد کہیں نظر نہیں آتا۔ زمین اور آسمان باہمی متضاد ہیں لیکن انسان کے لیے غلہ اگانے کی دونوں یکساں خدمت انجام دیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام کائنات اور اس کی ایک ایک مخلوق ایک اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری میں جتی ہوئی ہے اور انھیں ایک ہی ذات کی طرف سے احکام ملتے ہیں اور ایک ہی بندگی بجالانا ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ اس میں کسی دوسرے خدا یا کسی دیوتا کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ یہ کائنات دیوتائوں کی رزم گاہ نہیں بلکہ ایک اللہ تعالیٰ قادر و حکیم کی سلطنت ہے جس میں کسی دوسرے کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ اس کائنات میں تفکر کرنے سے ایک دوسری بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق میں جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کی کارفرمائی نظر آتی ہے اسی طرح قدم قدم پر اس کی حکمت سے بھی واسطہ پڑتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کائنات ایک حکیم کی مخلوق ہے اور ساتھ ہی یہ آواز بھی سنائی دیتی ہے رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلا اے ہمارے رب تو نے کوئی چیز باطل پیدا نہیں کی۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان جیسی مخلوق جو تمام کائنات کی گل سرسبد ہے اسے بیکار پیدا کیا جاتا اور اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ یقینا اسے ایک مقصد حق دے کر پیدا کیا ہے۔ ایک دن آئے گا جب وہ اس سے اسی مقصد کے حوالے سے بازپرس کرے گا۔
Top