Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 58
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ
وَاِذَا : اور جب بُشِّرَ : خوشخبری دی جائے اَحَدُهُمْ : ان میں سے کسی کو بِالْاُنْثٰى : لڑکی کی ظَلَّ : ہوجاتا (پڑجاتا) ہے وَجْهُهٗ : اس کا چہرہ مُسْوَدًّا : سیاہ وَّهُوَ : اور وہ كَظِيْمٌ : غصہ سے بھر جاتا ہے
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ گھٹا گھٹا رہتا ہے۔
وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا وَّھُوَ کَظِیْمٌ۔ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓئِ مَابُشِّرَبِہٖ ط اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ط اَلاَسَآئَ مَایَحْکُمُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 58۔ 59) (اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ گھٹا گھٹا رہتا ہے۔ اور وہ لوگوں سے چھپا پھرتا ہے اس بری خبر کے بارے جو اسے دی گئی ہے، سوچتا ہے کہ اس کو ذلت کے ساتھ رکھ چھوڑے یا اسے مٹی میں گاڑ دے، آہ ! کتنا برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کرتے ہیں۔ ) صنفِ نازک سے متعلق بعض قبائل کا رویہ صنفِ نازک کو مرد کے مقابلے میں پورے جزیرہ عرب میں دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ عرب کے عام قبائل میں صنف نازک کے لیے حقوق کا کوئی تصور نہ تھا لیکن بعض قبیلوں میں تو اس کے وجود سے نفرت کی جاتی تھی۔ خاص طور پر مضر، خزاعہ اور تمیم کے قبائل اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ جب بچی 6 سال کی ہوجاتی تو باپ جنگل میں جا کر گڑھا کھودتا اور بچی کی ماں کو حکم دیتا کہ اسے غسل کرائو اور خوبصورت جوڑا پہنائو، پھر وہ اسے لے کر جنگل کی طرف چل پڑتا۔ گڑھے کے کنارے پہنچ کر نہایت سنگدلی سے بچی سے کہتا کہ اس گڑھے میں دیکھو۔ وہ جھک کر گڑھے میں دیکھنے کی کوشش کرتی تو وہ اسے دھکا دے کر اس میں گرا دیتا۔ وہ معصوم ابا ابا کہہ کر چلاتی رہتی، لیکن یہ سنگدل باپ ذرا رحم نہ کھاتا اور اس پر منوں مٹی ڈال کر دفن کردیتا۔ اور اس طرح سے اسے تسکین ہوجاتی کہ جس داغ نے میرا چہرہ سیاہ کردیا تھا، میں نے وہ داغ دھو ڈالا۔ اور جب تک بچی زندہ رہتی وہ اسی تصور میں گھٹا گھٹا رہتا کہ کب میں اس لعنت سے جان چھڑائوں اور کب اس عار سے میرا دامن پاک ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص نے جو اسلام قبول کرنے حاضر ہوا تھا، اپنی بچی کو زندہ درگور کرنے کا واقعہ حضور ﷺ کو سنایا اور کہا میرے کانوں میں ابھی تک یہ الفاظ گونجتے ہیں کہ ابا میں آپ سے کھانے سے کو نہیں مانگوں گی، آپ سے کپڑے طلب نہیں کروں گی، خدا کے لیے مجھے نہ مارو، مجھے اس گڑھے سے نکالیے۔ وہ چیختی رہی اور میں نہایت سنگدلی سے اس پر مٹی ڈالتا رہا، حتیٰ کہ اس کی آواز خاموش ہوگئی۔ آنحضرت ﷺ اس ظالمانہ واقعہ کو سن کر بےاختیار روئے، حتیٰ کہ آپ ﷺ کا دامن آنسوئوں سے بھیگ گیا اور آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ اسلام اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے کہ اگر آدمی کے گناہوں سے زمین و آسمان بھی بھر جائیں لیکن اسلام قبول کرنے سے وہ سب معاف ہوجاتے ہیں۔ فرمایا تم ایک نئی زندگی شروع کرو اور پچھلی زندگی کو بھول جاؤ۔ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اور آپ کا پیغام دنیا میں رحمت بن کر آیا اور قرآن کریم کی ایک آیت نے انسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ لوگو ! کہ جب زندہ درگور کی جانے والی بچی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑی ہوگی تو پروردگار نہایت جلال کے ساتھ اس سے پوچھیں گے کہ تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا تھا۔ اس سوال نے پورے عرب کو ہلا کے رکھ دیا اور پھر نبی کریم ﷺ کی تعلیم نے صنف نازک کے ساتھ ہمدردی اور غمگساری کی وہ ترغیب دی کہ بچیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار پائیں اور ان کا وجود ماں باپ کے لیے جنت کی نوید بن گیا اور انھیں وہ حقوق دیے گئے جس نے انھیں بھائیوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ اسلام نے صنف نازک کو لاوارث عورت کے تصور سے اٹھایا اور اسے مردوں کی خواہشاتِ نفس کی بھینٹ چڑھنے اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے شرفِ انسانیت کا سودا کرنے کے تصور سے اٹھا کر چار رشتوں کا تقدس بخشا۔ 1 وہ ماں ہے، تو اس کی نافرمانی حرام قرار دی گئی اور اس کے قدموں میں اولاد کے لیے جنت رکھ دی گئی۔ 2 وہ بہن ہے تو وہ بھائیوں کی عزت و حرمت کی علامت اور ان کی غیرت کی آزمائش ہے۔ 3 وہ بیٹی ہے تو ماں باپ کی شفقت اور محبت کی بھائیوں سے بڑھ کر مستحق اور وراثت میں برابر کی حقدار ہے۔ 4 بیوی ہے تو وہ ویسے ہی حقوق رکھتی ہے جیسا شوہر حقوق رکھتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس کے حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو ! اگر تم نے اپنی بیویوں پر ظلم کیا جنھیں تم نے اللہ تعالیٰ کے نام پر اپنی امان میں لیا ہے تو میں قیامت کے دن ان کی طرف سے تمہارے خلاف استغاثہ دائر کروں گا۔
Top