Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 57
وَ یَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ١ۙ وَ لَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ
وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے (ٹھہراتے) لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الْبَنٰتِ : بیٹیاں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَلَهُمْ : اور اپنے لیے مَّا : جو يَشْتَهُوْنَ : ان کا دل چاہتا ہے
وہ ٹھہراتے ہیں اللہ کے لیے بیٹیاں، وہ ان چیزوں سے پاک ہے اور ان کے لیے تو وہ (بیٹے) ہیں جنھیں وہ پسند کرتے ہیں۔
وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰہِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَہٗ لا وَلَھُمْ مَّا یَشْتَھُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 57) (وہ ٹھہراتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں، وہ ان چیزوں سے پاک ہے اور ان کے لیے تو وہ (بیٹے) ہیں جنھیں وہ پسند کرتے ہیں۔ ) شرک کا دہرا گھناؤنا پن جو آدمی شرک جیسی گری ہوئی حرکت کرتا ہے وہ مسلسل نیچے گرتا ہی چلا جاتا ہے۔ توحید آدمی کو رفعت آشنا بناتی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے رشتہ جوڑتی ہے اور صرف اسی کے آستانے کا راستہ دکھاتی ہے۔ اور شرک انسان کو پستی کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ وہ ہر آستانے پر جھکنا سکھاتا ہے اور بالآخر انسانیت سے بھی گرا دیتا ہے۔ یہ بالکل دو انتہائیں ہیں جو انسان کا امتحان بن جاتی ہیں۔” جگر “ نے بالکل ٹھیک کہا : گھٹے اگر تو بس ایک مشت خاک ہے انساں بڑھے تو وسعت کونین میں سما نہ سکے یہ شرک کی انتہائی گراوٹ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ٹھہراتے اس کے لیے بیٹیاں ثابت کرنے لگتا ہے۔ کہاں کائنات کا خالق ومالک اور کہاں مخلوقات میں سے کوئی اس کا ہمسر اور پھر کہاں رب کائنات سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا اور کہاں احتیاج کی یہ انتہا کہ اسے اولاد کا محتاج بنادیا جائے۔ اور پھر اس کمینگی پر تو جتنی لعنت بھیجی جائے کم ہے کہ جو لوگ اپنے لیے بیٹیوں کو عار سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں ثابت کریں۔ چناچہ مشرکین کی اسی گراوٹ اور گمینگی کو نمایاں کرتے ہوئے فرمایا کہ ذرا ان کا حال دیکھو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں ٹھہراتے ہیں اور خود اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں کیونکہ انھیں یہ گوارا نہیں کہ کوئی ان کا داماد بنے اور داماد بن کر گھر آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے سب کچھ گوارا ہے۔ شرم سے گڑ جا اگر احساس تیرے دل میں ہے قریش میں خزاعہ اور کنانہ کے قبیلوں کا یہ اعتقاد تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ سبحانہ کہہ کر اس کی تردید کردی گئی۔ اولاد تو انسان کے لیے ایک کمزوری ہے۔ کبھی احتیاج کی صورت میں اور کبھی محبت کی شکل میں، اور اللہ تعالیٰ ایسی ہر کمزوری سے پاک ہے۔ لیکن محولہ بالا قبیلے یہ سمجھتے تھے کہ بیٹیاں چونکہ باپ کی کمزوری ہوتی ہیں اور وہ ضد کرکے جو چاہیں منوا سکتی ہیں۔ اس لیے ہم فرشتوں کی پوجا کرتے ہیں اور ان کے نام کی قربانیاں دیتے ہیں تاکہ اگر کبھی اللہ تعالیٰ ہم سے غضبناک ہو تو بیٹیاں ہمیں اس کے غضب سے بچا لیں۔ قرآن کریم اس کی تردید میں جہاں اللہ تعالیٰ کے بےعیب ہونے کا حوالہ دیتا ہے وہیں قریش کے طرز عمل کو بھی دلیل بناتا ہے۔ اور اگلی آیت کریمہ میں اس طرز عمل کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔
Top