Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہی لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دی تو ان کی تجارت ان کے لیے نفع بخش نہ ہوئی اور یہ ہدایت پانے والے نہ بنے۔
اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُالضَّلٰلَۃَ بِالْھُدٰی ص فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ ط (یہی لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دی تو ان کی تجارت ان کے لیے نفع بخش نہ ہوئی اور یہ ہدایت پانے والے نہ بنے) (البقرۃ : 16) اشتراء کا مفہوم اس آیت میں اِشْتَرَوا استعمال ہوا ہے۔ اس کا مصدر ہے اشترائٌ اس کا عام طور پر معنی کیا جاتا ہے ” خریدنا “۔ لیکن معمولی غور وفکر سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ آدمی جب کسی چیز کو خریدتا ہے تو وہ چیز کی قیمت دیتا ہے اور اس کے بدلے میں وہ چیز لے لیتا ہے اور یہ دونوں چیزیں مال ہیں اور انسان کی ضرورت ہیں۔ کسی کو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی کو کسی چیز کی کیونکہ ہر جگہ نہ ہر چیز کام دیتی ہے اور نہ پیسہ کام آتا ہے۔ آدمی کو بھوک لگی ہے تو بھوک اشیائے خوردنی سے مٹتی ہے پیسے سے نہیں۔ لیکن اشیائے خوردنی پیسے ہی سے خریدی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے دونوں چیزیں انسان کو عزیز ہیں۔ لیکن جب ایک چیز کے بدلے میں دوسری چیز کو لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک چیز پر دوسری چیز کو ترجیح دیتا ہے۔ یہیں سے اشتراء میں ترجیح دینے کا معنی پیدا ہوا کیونکہ آدمی جب پیسے دے کر کوئی چیز لیتا ہے تو اس نے اس چیز کو پیسوں پر ترجیح دی ہے۔ اس لیے ہم نے آیت کریمہ میں اس لفظ کا معنی ” ترجیح دینا “ کیا ہے۔ اس رکوع کی گزشتہ آیات میں مختلف پیرایوں میں جن لوگوں کا تذکرہ ہوا ہے وہ سارے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اسلام کے مقابلے میں کفر یا نفاق کو ترجیح دی۔ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرماکر ان کے لیے ہدایت کا ایک راستہ کھولا اور انھیں یہ موقع دیا کہ وہ زندگی کی گمراہیوں سے نکل کر ہدایت کی روشنی میں آسکیں۔ لیکن کسی نے یہ سوچ کر کہ اگر میں اس پیغمبر پر ایمان لے آیاتو مجھے معاشرے میں جو اہمیت حاصل ہے اور مجھے جو سرداری کا مقام میسر ہے وہ میرے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ کسی نے سوچا کہ نبوت تو ایک عظمت ہے اور عظمت ہمیشہ امراء اور رؤسا کے گھر آتی ہے۔ اگر اللہ نے نبوت دینا ہوتی تو وہ مکہ یا طائف کے کسی سردارکو دیتایہ کیسے ممکن ہے کہ ان سب کو چھوڑ کر ایک غریب اور نادار آدمی کو نبوت دے دی جائے اس شخص کی نبوت ماننے کا تو یہ مطلب ہوگا کہ اشراف قریش ناداروں کے سامنے جھک جائیں اور یہ جو ہم نے بڑی مشکل سے اپنے لیے ایک خاص مقام اور کچھ مراعات بنا رکھی ہیں یہ سب کچھ ہمارے ہاتھ سے جاتا رہے۔ بنی اسرائیل نے سوچا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں۔ نبوت ہمارا حق ہے۔ ایک امی کو نبی ماننا یہ ہمارے خاندانی تفوق اور ہمارے انتسابات کی توہین ہے۔ دنیا میں ڈوبے ہوئے لوگوں نے سوچا کہ زندگی تو عیش و عشرت کا نام ہے۔ زندگی ایک ہی مرتبہ ملتی ہے، اسے دکھوں اور تکلیفوں کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام تو ذمہ داریوں کا دین ہے اس میں قدم قدم پر قربانیاں ہیں۔ اس میں عزت خواہشات سے دست بردار ہو کر تقویٰ حاصل کرنے سے ملتی ہے اور آخرت میں سب سے بڑا مقام شہادت سے نصیب ہوتا ہے۔ ایسا دین جو جان جوکھوں میں ڈال دے اور جس میں صرف جنت کی امیدوں کے سوا اور کوئی خوشی کا موقع نہ ہو۔ ایسے دین کو قبول کرکے ہم اپنی زندگی کو اجیرن کیوں کرلیں۔ یہ تھے وہ لوگ جن کے سامنے آنحضرت ﷺ اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آئے۔ اب ان کے سامنے یہ کشمکش اور یہ تقابل تھا۔ انھوں نے سوچا کہ کل کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں آج کیوں فکر مند ہوا جائے اور ایک موہوم کل کے بدلے میں آج کی لذتوں اور سرفرازیوں کو ہاتھ سے کیوں جانے دیا جائے۔ اس لیے انھوں نے اپنا آج یعنی دنیا کے عیش و عشرت کو بچالیا اور ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح سے انھوں نے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دی۔ لیکن افسوس ان کی تجارت نے انھیں کوئی نفع نہ دیا انھوں نے کل کے بدلے میں آج خریدا اور اس میں نفع کی بات یہ سمجھی کہ آج تو ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن کل کے بارے ہم کچھ نہیں جانتے۔ اس لیے محض اس امید پر کہ کل کو سب کچھ مل جائے گا ہم آج کے عیش و عشرت کو کیوں چھوڑیں۔ لیکن اسلامی انقلاب کی مسلسل کامرانیوں نے انھیں اندھیرے غاروں میں دھکیل دیا۔ ہدایت سے انکار کرکے انھوں نے خود اپنے آپ کو ہدایت سے محروم رکھا اور جس دنیا کو انھوں نے بچانا چاہا اسلام کی کامیابیوں سے وہ دنیا بھی ان کے ہاتھ سے جاتی رہی۔ مکہ فتح ہوگیا، تو قریش کی ساری عظمتیں خاک میں مل گئیں۔ طائف فتح ہوجانے کے بعد طائف کے رئیسوں کا سارا کروفر تباہ ہو کر رہ گیا۔ یہود جو مسلمانوں کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے ان کا ایک ایک قبیلہ ذلت کا شکار ہوا۔ با لآخر ان کو جزیرہ عرب سے نکلنا پڑا۔ حتی کہ پوری دنیا میں کفر کی عظمت اور حکومت زوال کا شکار ہوگئی۔ اس لیے فرمایا کہ انھوں نے آخرت کے بدلے میں دنیاحاصل کی تھی اور ہدایت کے بدلے میں گمراہی کو ترجیح دی تھی لیکن یہ تجارت ان کے کچھ کام نہ آئی۔ ہدایت سے خود منہ پھیرا اور ان کی دنیا اسلامی انقلاب کی کامیابی سے تاریکیوں میں ڈوب گئی۔
Top