Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 17
لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ١ۖۗ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
لَوْ اَرَدْنَآ : اگر ہم چاہتے اَنْ : کہ نَّتَّخِذَ : ہم بنائیں لَهْوًا : کوئی کھلونا لَّاتَّخَذْنٰهُ : تو ہم اس کو بنا لیتے مِنْ لَّدُنَّآ : اپنے پاس سے اِنْ كُنَّا : اگر ہم ہوتے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
اگر ہم کوئی کھیل ہی بنانا چاہتے تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے، اگر ہم یہ کرنے والے ہی ہوتے۔
لَوْ اَرَدْنَـآ اَنْ نَّـتَّخِذَ لَھْوًا لاَّ تَّخَذْنٰـہُ مِنْ لَّدُنَّـآ صلے ق اِنْ کُنَّا فٰعِلِیْنَ ۔ (الانبیاء : 17) (اگر ہم کوئی کھیل ہی بنانا چاہتے تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے، اگر ہم یہ کرنے والے ہی ہوتے۔ ) اللہ جیسی ذات سے کھیل اور کارعبث کا صدور ناممکن ہے عربی زبان میں حرف لَوْ کا استعمال فرضی چیزوں کے لیے ہوتا ہے جس کا کوئی وجود نہ ہو۔ اور کبھی ایسے موقع پر اس کا استعمال ہوتا ہے جو کہنے والے کی شان کے لائق نہ ہو۔ اس کائنات کے نظام کو کھیل سمجھنا ایک ایسی بات ہے کہ جس کا کوئی وجود نہیں کیونکہ کائنات کے نظام پر غور و فکر کرنے والا اس طرح کی بات کبھی نہیں کہہ سکتا۔ کائنات کی ایک ایک چیز چاہے اس کا تعلق زمین سے ہو یا آسمان سے وہ اس طرح ایک نظام میں جکڑی ہوئی ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے چشم بینا عطا فرمائی ہے اور جس نے علم کے چند جام پیئے ہیں وہ اس میدان میں جیسے جیسے آگے بڑھتا جاتا اور حیرت میں ڈوبتا چلا جاتا ہے اسے اس کے انتظام و انصرام کا ایک ایک گوشہ سمجھنے میں دشواری تو ضرور پیش آتی ہے لیکن زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی مخلوقات میں ایک حیرت انگیز نظم و ترتیب، ایک بےحد وسیع نظام ربوبیت اور حیرت میں ڈال دینے والا نظام حکمت نگاہوں کے سامنے آئے بغیر نہیں رہتا۔ جس شخص کو ان حقائق کا معمولی سا احساس بھی ہے وہ اس کائنات کو لہو اور کھیل قرار نہیں دے سکتا۔ بالخصوص حضرت انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا گل سرسبد بنایا ہے اور خلافتِ ارضی کا تاج جس کے سر پر سجایا ہے اور جسے نہ صرف جو ہر عقل سے نوازا بلکہ نبوت و رسالت کی عظیم نعمت بھی اسی کے اندر رکھی ہے۔ اس کی زندگی کو لہو و لعب قرار دینا تو اور بھی زیادہ حیران کن ہے۔ اس لیے اس کا ذکر حرف لَوْ سے کیا گیا۔ اور دوسری یہ بات کہ جب انسان کی بصیرت مخلوقات میں حکمتوں پر مبنی وسیع تر نظام کو دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے تو وہ اس کائنات کے خالق کے بارے میں کیا تصور کرسکتی ہے۔ بجز اس کے کہ قدم قدم پر انسان نہ صرف ورطہ حیرت میں ڈوبتا ہے بلکہ اس کی کمال تخلیق اور کمال قدرت کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس لیے ایسی ذات کے بارے میں یہ سمجھنا کہ اس نے کائنات کو یا حضرت انسان کو محض کھیل تماشے کے لیے پیدا کیا ہے تو کیا کوئی عقل مند آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی اعلیٰ صفات سے میل کھاتی ہے۔ اسی سے متفرع کرتے ہوئے پروردگار نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ چلیے بالفرض اگر ہمیں کھیلنا ہی ہوتا اور اس کے لیے ہمیں کسی کھلونے کی ضرورت ہوتی تو ہم ایسا کھلونا اپنے پاس ہی سے بنا لیتے۔ یہ تو کبھی نہ کرتے کہ انسان جیسی ذی حس، ذی شعور اور ذمہ دار مخلوق کو پیدا کرتے، پھر ان کے درمیان حق و باطل کی ایک خلیج حائل کردیتے اور انھیں بتا دیتے کہ یہ دنیا حق و باطل کی رزم گاہ ہے یہاں جو لوگ میرے ہیں انھیں حق کے لیے جینا اور مرنا ہے اور جو شیطان کے بندے ہیں انھیں باطل کی ہمنوائی میں میدانِ رزم کو گرم کرنا ہے۔ اس طرح سے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا ایک ایسی کشمکش میں مبتلا ہے جس میں مختلف وقتوں میں اللہ تعالیٰ کے نام لیوا اور اس کے دین پر چلنے والے اس کی خاطر خون بہاتے اور جانیں دیتے ہیں۔ اس راستے میں کتنے سہاگ لٹتے، کتنے گھر ویران ہوتے، کتنی گودیں اجڑتیں اور کتنے بچے یتیم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ آسمانوں سے یہ کھیل دیکھ کر محظوظ ہورہا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ پروردگار نے یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان نہیں بنائی بلکہ یہ ایک رومی اکھاڑہ ہے جہاں غلاموں اور قیدیوں کو بھوکے درندوں سے لڑوایا جاتا اور بوٹیاں نچوا کر امراء خوشی سے ٹھٹھے لگاتے اور محظوظ ہوتے۔ کائنات کا اور انسان کا یہ تصور صرف اسی ذہن میں آسکتا ہے جو نہ اس کائنات کو سمجھتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی عظمت سے آگاہ ہے۔ اس کے نزدیک ظالم اور مظلوم، سرکش و باغی اور وفادار و تابعدار، ناشکرے اور نا بکار اور حق شناس و شکرگزار سب برابر ہیں۔ اس دنیا میں نہ کوئی روزِعدل ہے اور نہ کوئی ایسا دین جو عدل کی تعلیم دے سکے اور لوگوں کو اس کے لیے تربیت دے سکے۔ یہ ایسا بےہودہ تصور ہے جس سے بڑھ کر کسی بےہودگی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ آخری جملہ کہہ کر درحقیقت اسی تصور کی تردیدِ مزید ہے کیونکہ دنیا میں ایسی مشرک قومیں گزری ہیں اور اب بھی ہیں جو اس کائنات کو اپنے دیوتائوں کی ایک تماشا گاہ سمجھتی ہیں اور ہندو فلسفیوں نے اس کو بھگوان کی لیلا سے تعبیر کیا اور آج کی مادہ گزیدہ دنیا جس طرح مادہ پرستی میں حد سے تجاوز کرچکی ہے وہ اگرچہ زبان سے نہ کہے لیکن حقیقت میں اس کے نزدیک بھی دنیا کی حیثیت اس سے مختلف نہیں۔ وہ اس دنیا کو ایک بازیچہ اطفال سمجھتے ہیں اس لیے ان کے ذہنوں میں قیامت کا تصور قرار نہیں پکڑتا اور ویسے بھی اگر وہ اس تصور کو قبول کرلیں تو انھیں اپنی زندگی میں تبدیلی کا عمل پیدا کرنا ضروری ہوجاتا ہے یا کم از کم ان کے ضمیر میں جوابدہی کا ایک شعلہ سا ضرور جلنے بجھنے لگتا ہے جو انھیں مادہ طلبی میں اندھا نہیں ہونے دیتا۔
Top