Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 21
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهَا وَ لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ
وَاِنَّ : اور بیشک لَكُمْ : تمہارے لیے فِي الْاَنْعَامِ : چوپایوں میں لَعِبْرَةً : عبرت۔ غور کا مقام نُسْقِيْكُمْ : ہم تمہیں پلاتے ہیں مِّمَّا : اس سے جو فِيْ بُطُوْنِهَا : ان کے پیٹوں میں وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِيْهَا : ان میں مَنَافِعُ : فائدے كَثِيْرَةٌ : بہت وَّمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اور بیشک تمہارے لیے جانوروں میں بھی درس آموزی کا سامان ہے۔ ہم ان چیزوں کے اندر سے جو ان کے پیٹوں میں ہے تمہیں (خوشذائقہ دودھ) پلاتے ہیں۔ اور تمہارے لیے ان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور ان سے تم اپنی غذا کا سامان بھی حاصل کرتے ہو
وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِھَا وَلَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْھَا تَاْکُلُوْنَ ۔ وَعَلَیْھَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُوْنَ ۔ (المومنون : 21، 22) اور بیشک تمہارے لیے جانوروں میں بھی درس آموزی کا سامان ہے۔ ہم ان چیزوں کے اندر سے جو ان کے پیٹوں میں ہے تمہیں (خوشذائقہ دودھ) پلاتے ہیں۔ اور تمہارے لیے ان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور ان سے تم اپنی غذا کا سامان بھی حاصل کرتے ہو۔ اور ان پر اور کشتیوں پر تمہیں سوار کیا جاتا ہے (تم سواری کرتے ہو) ۔ عبرت کا مفہوم اس آیت کریمہ میں ” عبرت “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ علامہ راغب اصفہانی نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے : العبرۃ مختصۃ بالحالۃ التی یتوصل بھا من معرفۃ المشاھد الی ما لیس بمشاھد (مفردات) یعنی مشاھد کی معرفت سے غیر مشاہد تک پہنچنا۔ اسی طرح ایک حقیقت سے دوسری حقیقت تک عبور کرجانا اور اس سے سبق حاصل کرنا بھی ” عبرت “ کہلاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ متذکرہ بالا آیات میں اللہ کے وجود اس کی وحدانیت اور بالخصوص وقوع قیامت پر جو دلائل دیئے گئے ہیں اور جس طرح ان سے عبرت وموعظت کے پہلو پیدا کیے گئے ہیں وہ تو اپنی جگہ بےحد اہمیت کے حامل ہیں لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں بھی جو کچھ کہا گیا ہے وہ بھی درس آموزی اور وقوع قیامت کو عقل، اخلاق اور حکمت کا تقاضا سمجھنے میں بہت اپیل رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں نُسْقِیْکُمْ کا دوسرا مفعول ذکر نہیں فرمایا گیا۔ اسی طرح مِمَّا فِیْ بُطُوْنِھَا کو مجمل لایا گیا ہے۔ لیکن سورة النحل کی آیت نمبر 66 میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ وہاں فرمایا گیا ہے نسقیکم مما فی بطونہ من بین فرث ود م لبناً خالصاً سائغاً للشاربین ” اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نسقیکم کا دوسرا مفہوم ” لبنا خالصا سائغا “ کے الفاظ سے ظاہر فرمایا گیا ہے۔ اور مما فی بطونھا کے اجمال کی تفصیل ” من بین فرث ودم “ سے کی گئی ہے۔ اور اس تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی قدرت وصنعت کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ اہل عرب جیسے لوگ جو موسم کے شدائد کے پیش نظر اکثر خانہ بدوشی پر مجبور ہوجاتے تھے ان کے لیے غذا کا سب سے بڑا ذریعہ دودھ دینے والے جانور تھے اور یہ دودھ ان جانوروں سے اللہ تعالیٰ اس طرح انسانوں کو مہیا فرماتے تھے اور آج بھی اس کا یہی طریقہ ہے کہ جانور کے پیٹ سے جو دودھ نکلتا ہے ایسا نہیں کہ پیٹ میں کسی ایسی جگہ پیدا ہوتاہو جس میں گندگی کا کوئی امکان نہ ہو بلکہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس کے ایک طرف اگر گوبر ہوتا ہے تو دوسری طرف خون کی غلاظت ہوتی ہے۔ دونوں کی اپنی بدبو اور اپنا رنگ۔ لیکن ان کے درمیان سے دودھ کا چشمہ جاری ہوتا ہے اور نہایت محفوظ شکل میں پستانوں کی نالیوں سے اس طرح انسانی برتنوں میں منتقل ہوتا ہے کہ کہیں بھی کوئی آمیزش ہونے نہیں پاتی۔ پروردگار نے اس کے لیے دو صفات ذکر فرمائی ہیں کہ جانوروں کے پیٹ سے نکلنے والا دودھ خالص ہوتا ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ پینے والوں کے لیے خوشگوار ہوتا ہے کہ نہ بالکل پھیکا کہ پینے والے کے لیے مشکل ہوجائے اور نہ بالکل میٹھا کہ زیابیطس کے مریض نہ پی سکیں۔ اس کی مہک دماغ کو معطر کرنے والی اور اس کی تاثیر ایسی کہ ہر جانور کی اپنی اپنی خصوصیات اس میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر قدرت نے اسے زود ہضم بنایا ہے۔ پیٹ کی بیماریوں کا علاج ہے۔ ٹھنڈا کرکے پییں تو پیاس بجھاتا ہے اور نارمل حالت میں پییں تو غذا کا کام دیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب بھی آپ اللہ کی کسی نعمت سے متمتع ہوتے تو آپ اللہ کا شکر بجالاتے اور اس سے بہتر نعمت کی دعا فرماتے۔ لیکن جب آپ دودھ پیتے تو دودھ کی کثرت کی دعا فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ دودھ سے بہتر کوئی اور نعمت نہیں۔ جانوروں میں منافع وَلَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ کَثِیْرَۃٌ: اور تمہارے لیے ان میں بہت سے فائدے ہیں۔ یعنی ان جانوروں میں اللہ نے صرف دودھ جیسی نعمت ہی نہیں رکھی بلکہ ان میں اور بھی انسانوں کے لیے بہت سے فوائد اور منافع رکھے ہیں۔ اونٹ ہی کو دیکھ لیجئے وہ اہل عرب کا سفینہ صحرا تھا۔ یعنی صحرائی سفر میں ان کا سب سے بڑاذریعہ تھا۔ عربوں کی تجارت دوسرے ممالک تک پھیلی ہوئی تھی۔ سینکڑوں میلوں کا سفر اور خوراک اور پانی کی کمیابی اور جابجا ریت کے علاقے اور ٹیلے، ایسے سفر میں صرف اونٹ ہی تھا جو کامیاب ذریعہ ثابت ہوسکتا تھا۔ کئی دنوں تک پیاس اور بھوک کو برداشت کرلینا اس حیرت انگیز جانور کے لیے کوئی مشکل نہیں اور پھر منوں بوجھ اٹھالینا اس کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی اور اونٹ کی مادہ کا دودھ راستے میں تجارتی سامان لے جانے والوں کے لیے غذا کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ سفر کے علاوہ عام حالت میں کاشتکاری میں کام آتا تھا۔ گوشت، چمڑا اور اس کے بال بہت سی ضرورتوں میں کارآمد تھے۔ اسی طرح دوسرے جانور بھی سواری اور باربرداری میں کام دیتے تھے اور اون والے جانوروں کی اون کپڑا بنانے کے کام آتی تھی۔ وَمِنْھَا تَاْکُلُوْنَ : اور انھیں جانوروں سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ یعنی اونٹ سمیت دوسرے تمام جانور ان کے لیے خاص طور پر غذا کا سامان تھے۔ بکرا بکری، مینڈھادنبہ، بھیڑ، غرضیکہ ان میں سے کونسا جانور تھا جو ان کے سفروحضر میں ان کے لیے غذا کا ذریعہ نہ تھا۔ وَعَلَیْھَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُوْنَ : اور ان جانوروں پر اور کشتی پر تم سواری کرتے ہو۔ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ عرب کا بیشتر حصہ چونکہ ریگستان پر مشتمل تھا اور مزید یہ بات کہ بارشوں کی کمیابی کے باعث انھیں مسلسل خانہ بدوشی کی حالت میں رہنا پڑتا تھا۔ تجارتی سفر بھی ان کے لیے ناگزیر تھے اور خانہ بدوشی بھی انھیں سفر میں رکھتی تھی۔ ایسی حالت میں ممکن ہے بعض علاقوں میں وہ بحری سفر کے ذریعے تجارت کرتے ہوں۔ تو بحری سفر میں کشتیاں ان کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ لیکن ان کے بیشتر سفروں کا انحصار ان کے جانوروں پر تھا۔ جو باربرداری کے بھی کام آتے تھے اور سواری کے بھی اور شاید اسی خصوصیت کی وجہ سے اونٹ کو سفینہ صحرا کہا جاتا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے شاید اسی نسبت سے یہاں دونوں کا ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ خلاصہ کلام مقصود ان تمام نعمتوں کے ذکر سے صرف اس حقیقت کی طرف توجہ دلانی ہے کہ جس پروردگار نے نہایت جز رسی کے ساتھ تمہاری ایک ایک ضرورت کو پورا فرمایا ہے اس کے بارے میں تم نے یہ کیسے تصور کرلیا ہے کہ وہ تمہیں ایک سے ایک بیش قیمت نعمت سے نوازتا ہے لیکن کبھی اس کے بارے میں یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے میری نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ تمہارے آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات ہیں، افادہ و استفادہ، اخذورد اور استعانت اور معاونت انسانی زندگی کا ناگزیر پہلو ہے۔ تم میں طاقتور کمزوروں کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں اور اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں کے لیے جینا مشکل کردیں اور وہ نعمتیں جو اس نے سب کے لیے پیدا کی ہیں ان پر زبردستی قبضہ کرکے اپنے لیے مخصوص کرلیں اور دوسرے ہمیشہ ظلم کی چکی میں پستے رہیں۔ تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ تمہیں پیدا کرکے تم سے اتنا بےتعلق ہوگیا ہے کہ تم یہ اندھیر نگری مچائے رکھو اور وہ تم سے کبھی باز پرس نہ کرے ؟ عقل بھی اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور اخلاق بھی اسے قبول کرنے سے ایا کرتے ہیں۔ فطرت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ اس دنیا کو بازیچہ اطفال نہ سمجھا جائے بلکہ اس بات کا یقین پیدا کیا جائے کہ ایک نہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب اللہ کی نعمتوں سے متمتع ہونے والوں سے حساب لیاجائے گا۔ زیادتی کرنے والوں کو زیادتی کی سزا دی جائے گی اور نیکی کرنے والے اجروثواب سے نوازے جائیں گے۔ یہی وہ سبق ہے جو ان تمام نعمتوں کے ذکر کرنے سے دل و دماغ میں پیدا کرنا مقصود ہے۔
Top