Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 21
وَ اِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهَا وَ لَكُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ
وَاِنَّ : اور بیشک لَكُمْ : تمہارے لیے فِي الْاَنْعَامِ : چوپایوں میں لَعِبْرَةً : عبرت۔ غور کا مقام نُسْقِيْكُمْ : ہم تمہیں پلاتے ہیں مِّمَّا : اس سے جو فِيْ بُطُوْنِهَا : ان کے پیٹوں میں وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِيْهَا : ان میں مَنَافِعُ : فائدے كَثِيْرَةٌ : بہت وَّمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
اور تمہارے لئے چارپایوں میں عبرت (اور نشانی) ہے کہ جو ان کے پیٹوں میں ہے اس سے ہم تمہیں (دودھ) پلاتے ہیں اور تمہارے لئے ان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور بعض کو تم کھاتے بھی ہو
آیت نمبر 21-27 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وان لکم فی الانعام لعبرۃ نسقیکم مما فی بطونھا ولکم فیھا منافع کثیرۃ ومنھا تاکلون۔ وعلیھا وعلی الفلک تحملون۔ سورة النحل میں ان پر گفتگو ہوچکی ہے۔ سورة ہود میں کشتی اور حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ اور ان کا سمندر پر سوار ہونا کئی مقامات پر گزرچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و علیھا یعنی خشکی میں جانوروں پر۔ وعلی الفلک اور دریا میں کشتی پر۔ تحملون خشکی میں اونٹوں پر سوار کیے جاتے ہو۔ پس ضمیر کا بعض انعام کی طرف لوٹانا جائز ہے۔ روایت میں ہے کہ ایک شخص پہلے زمانہ میں گائے پر سوار ہوا توا للہ تعالیٰ نے اسے سوار سے بولنے کی طاقت عطا فرمائی۔ وہ بولی۔ میں سواری کے لئے پیدا نہیں کی گئی۔ میں زمین جوتنے کے لیے پیدا کی گئی ہوں۔ (مسند امام احمد، حدیث نمبر 7351) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مالکم من الہ غیرہ لفظ کا اعتبار کرتے ہوئے جر (زیر) کے ساتھ اور معنی کا اعتبار کرتے ہوئے رفع کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ الاعراف میں یہ گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ماھذا الا بشر مثلکم یرید ان یتفضل علیکم۔ یعنی وہ تمہاری سرداری کرے اور تم پر شرف حاصل کرے اس طرح کہ وہ متبوع ہوجائے اور ہم اس کے تابع ہوں۔ ولو شاء اللہ لانزل ملئکۃ یعنی اگر اللہ چاہتا کہ اس کے سوا کسی چیز کی عبادت نہ کی جائے تو وہ اپنا رسول فرشتہ کو بناتا۔ ماسمعنا بھذا اس کی دعوت کی مثل ہم نے نہیں سنا۔ بعض نے کہا : ہم نے اس کی مثل بشر نہیں سنا جوا پنے رب کی رسالت کو لایا ہو۔ فی ابائنا الاولین۔ یعنی گزشتہ امتوں میں، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ بھذا میں باء زائدہ ہے یعنی ہم نے یہ اپنے آبائو اجداد میں ایسا ہونا نہیں سنا پھر بعض کا بعض پر عطف کیا۔ انہوں نے کہا : ان ھوا یعنی حضرت نوح نہیں ہے۔ الا رجل بہ جنۃ مگر ایک ایسا شخص جس کو جنون کا مرض ہے جو یہ نہیں جانتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔ فتربصو بہ حتیٰ حین۔ یعنی اس کی موت کا انتظار کرو۔ بعض نے فرمایا : حتیٰ کہ اس کا جنون ظاہر ہوجائے۔ فراء نے کہا : یہاں حین سے مراد مقرر وقت نہیں ہے۔ یہ اس قول کی طرح ہے۔ دعہ الی یوم ما اسے کچھ وقت تک چھوڑد و۔ فرمایا : جب وہ اپنی سرکشی پر بڑھتے رہیں۔ رب انصرنی بما کذبون۔ یعنی اے میرے رب جس نے میری اطاعت نہیں کی اور میرا پیغام نہیں سنا اس سے توا نتقام لے۔ فاوحینا الیہ یعنی ہم نے آسمان سے پیغام رساں بھیجے۔ ان اصنع الفلک اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے فاسلک فیھا یعنی اس میں داخل ہو اور اس کے اندر ہوجا۔ کہا جاتا ہے : سلکتہ فی کذا۔ واسلکتہ فیہ۔ جب تو کسی چیز کو داخل کرے عبد مناف بن ربع ہذلی نے کہا : حتی اذا اسلکو ھم فی قتائدۃ شلا کما تطرد الجمالہ الشردا من کل زوجین اثننین حفص نے من کل تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی قراء نے اضافت کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے اور حسن نے کہا : حضرت نوح نے کشتی میں سوار نہیں کیا تھا مگر جو بچے جنم دیتی تھی اور انڈے دیتی تھی رہے پسو اور مکھی اور کیڑے تو ان میں سے کسی چیز کو سوار نہیں کیا تھا یہ مٹی سے نکلے تھے۔ کشتی کے بارے میں قول تفصیل گزر چکا ہے۔
Top