Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 35
اَیَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ اِذَا مِتُّمْ وَ كُنْتُمْ تُرَابًا وَّ عِظَامًا اَنَّكُمْ مُّخْرَجُوْنَ۪ۙ
اَيَعِدُكُمْ : کیا وہ وعدہ دیتا ہے تمہیں اَنَّكُمْ : کہ تم اِذَا : جب مِتُّمْ : مرگئے وَكُنْتُمْ : اور تم ہوگئے تُرَابًا : مٹی وَّعِظَامًا : اور ہڈیاں اَنَّكُمْ : تو تم مُّخْرَجُوْنَ : نکالے جاؤگے
کیا وہ تمہیں اس بات سے ڈراتا ہے کہ جب تم مرجائو گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائو گے تو پھر تمہیں قبروں سے نکالاجائے گا
اَیَعِدُکُمْ اَنَّکُمْ اِذَا مِتُّمْ وَکُنْتُمْ تُرَابًا وَّعِظَامًا اَنَّکُمْ مُّخْرَجُوْنَ ۔ ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ ۔ اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنُیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ ۔ (المومنون : 35 تا 37) کیا وہ تمہیں اس بات سے ڈراتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجاؤ گے تو پھر تمہیں قبروں سے نکالاجائے گا۔ عقل سے بعید ہے بالکل بعید، یہ ڈراوا، جو تمہیں سنایا جارہا ہے۔ زندگی تو بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں ہم مرتے ہیں اور یہیں ہم جیتے ہیں، اور ہم ہرگز اٹھائے جانے والے نہیں۔ ) ” وَعَدَ “ ،” یَعِدُ “ کا ایک معنی ہوتا ہے ” وعدہ کرنا “ اور دوسرا معنی ہے ” ڈرانا “۔ قرآن کریم نے دو معنوں کے لیے یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ اَلشَّیْطَانُ یَعِدُ کُمُ الْفَقْرَ ” شیطان تمہیں غربت سے ڈراتا ہے “۔ اس آیت میں ” یَعِدُ “ ڈرانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں بھی یہی معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ متکبرین کا عوام کو بہکاوا انسان کی فطرت ہے کہ کبھی وہ ترغیب سے متأثر ہوتا ہے اور کبھی ترہیب سے۔ قرآن کریم نے آخرت کی تلقین کے لیے ان دونوں اسالیب کو استعمال کیا ہے۔ قوم کے سردار اپنے لوگوں کو بہکاتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ یہ دعویٰ نبوت کرنے والا شخص تمہیں ڈراتا ہے کہ تم مجھ پر ایمان لائو اس کے نتیجے میں تمہیں دنیا میں بھی کامیابیاں ملیں گی اور آخرت میں بھی سرخرو ٹھہرو گے اور اگر تم ایمان نہیں لاتے ہو تو پھر یاد رکھو موت تو تم سے ٹل نہیں سکتی۔ تم اپنی آنکھوں سے ہر روز لوگوں کے جنازے اٹھتے ہوئے دیکھتے ہو، تمہارا بھی ایک دن جنازہ اٹھے گا۔ یاد رکھو ! مرنے کے بعد تم فنا نہیں ہوجاؤ گے۔ یہ صحیح ہے کہ ایک مدت کے بعد تمہارے جسم مٹی ہوجائیں گے اور تمہاری ہڈیاں الگ الگ ہوجائیں گی۔ لیکن یہ تمہارا تصور صحیح نہیں کہ تمہاری یہ موت مکمل فنا ثابت ہوگی۔ ایک دن ایسا آئے گا جب تمہیں ازسر نو زندہ کیا جائے گا۔ تم اپنی قبروں سے نکالے جاؤ گے اور اپنے رب کے سامنے جوابدہی کے لیے کھڑے کیے جاؤ گے۔ سوچ لو ! آج کی پر تعیش من مرضی کی زندگی کے بارے میں تم اللہ کو کیا جواب دوگے ؟ یہ شخص تمہیں اس طرح کے ڈراوے دے کر اور تمہیں مرعوب کرکے اپنی نبوت کا قائل کرنا چاہتا ہے۔ خبردار یادرکھو ! مرنے کے بعد جب ہڈیاں تک خاک ہوجائیں گی تو یہ بات عقل سے نہایت بعید ہے کہ تمہیں کبھی دوبارہ زندہ بھی کیا جائے گا۔ زندگی یہیں کی زندگی ہے۔ دنیا ہی ہماری زندگی کا مقام ہے اس کے بعد کہیں زندگی نہیں۔ ہمیں یہیں جینا ہے اور یہیں مرنا ہے۔ دوبارہ اٹھائے جانے کا تصور خوش فہمی اور تو ہم کے سوا کچھ بھی نہیں۔ زندگی کے بگاڑ کا اصل سبب یہی وہ تصور تھا جس نے ان کی زندگی کے رویے کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کی ساری جدجہد اس زندگی کو آرام دہ اور باوقار بنانے اور زیادہ سے زیادہ مال وجاہ حاصل کرنے کیلیے صرف ہوتی تھی۔ وہ اسی دنیا کی خوشیوں اور غموں کو حاصل زندگی سمجھتے تھے۔ وہ اس دنیا کی کامیابیوں کو حقیقی کامیابیاں سمجھتے تھے اور اس کی ناکامیوں کو حقیقی محرومیاں گردانتے تھے۔ اسی بات کا نتیجہ تھا کہ لطف ولذت اور ہر خواہش کا حصول ان کی زندگی کا عنوان بن گیا تھا۔ وہ ایثار و ہمدردی کے نام سے واقف تھے اور بعض دفعہ لوگوں میں شہرت کے حصول کے لیے اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ لیکن اسے زندگی کا لازمہ نہیں سمجھتے تھے۔ نہ جانے ان کے ذہنوں میں یہ بات کیوں نہیں آتی تھی کہ یہ دنیا دارالعمل ہے دارالجزا نہیں۔ یہاں ایک آدمی بدکار ہوتے ہوئے عزت و آرام کی زندگی بسر کرتا ہے اور دوسرا آدمی نیک، مخلص اور نوع انسانی کا حقیقی بہی خواہ ہونے کے باجود عمر بھر طرح طرح کی مصیبتوں اور آزمائشوں میں مبتلا رہتا ہے۔ اگر موت ہی انسانی زندگی کے قافلہ کی آخری منزل ہے تو پھر اس سے بڑی بےانصافی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ یہاں مزدور اور بےنوا لوگ ہمیشہ دکھوں سے بھری زندگی گزارتے ہیں اور ظالم اور ہوشیار لوگ انھیں کے کھنڈرات اور انھیں کی ہڈیوں پر اپنے محلات اٹھاتے ہیں۔ اگر یہی زندگی حقیقی زندگی ہے تو پھر اس کا کون جواب دے گا ؟ ؎ تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات حقیقت یہ ہے کہ قیامت اور آخرت کا یقین انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ انسانیت اقدارِ انسانیت، مکارمِ اخلاق، حقوق و فرائض، آدابِ زندگی، نیکی کافروغ، برائی کی بیخ کنی اور ایثار و محبت کے راستوں کو جلابخشنے کا نام ہے۔ اگر کوئی انسان کہلانے والا شخص ان تمام حقائق و فضائل کو بیکار سمجھتا ہے تو اسے حق پہنچتا ہے کہ وہ قیامت کا انکار کرے۔ لیکن جو شخص ایسا کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا اس کے لیے قیامت کا انکار کرنا فتورِ عقل سے پہلے ممکن نہیں۔ ملکی سرحدیں قربانی سے قائم رہتی ہیں۔ انسانی رشتے ایثار و محبت سے زندہ رہتے ہیں۔ انبیائے کرام اور ان کے راستوں پر چلنے والے زندگی کے ہر سکھ کی قربانی دے کر زندگی کا چراغ جلاتے ہیں۔ اور شہید کا خون انھیں راہوں میں روشنی کا سامان کرتا ہے۔ لیکن ان کی قربانیوں کا صلہ دنیا میں نہیں دیا جاسکا اور یقینا نہیں دیا جاسکتا تو پھر اگر قیامت کو تسلیم نہ کیا جائے تو سوچ لیجئے کہ کون ان راہوں پر چلنے کی ہمت کریگا اور اس طرح ہم اپنی کتنی بڑی متاع سے محروم ہوجائیں گے۔
Top