Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 78
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : وہی جس نے اَنْشَاَ لَكُمُ : بنائے تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) قَلِيْلًا : بہت ہی کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے، تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو
وَھُوَالَّذِیْٓ اَنْشَاَلَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَوَالْاَفْئِدَۃَ ط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ ۔ (المومنون : 78) (اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے، تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔ ) انسان اور حیوان میں فرق، اور حقیقت شکر اس سے پہلے خطاب آنحضرت ﷺ سے تھا اس میں قریش کو جو تہدید و وعید کی گئی ہے وہ غائب کے صیغے سے اور نبی کریم ﷺ کے واسطے سے ہے، لیکن اب قریش سے براہ راست خطاب فرمایا جارہا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے سننے کے لیے کان اور دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچنے سمجھنے کے لیے دل عطا نہ فرمایا ہو۔ اَفْئِدَۃَ فؤاد کی جمع ہے اس کا معنی دل کیا جاتا ہے لیکن انسان کے دل اور حیوان کے دل میں بنیادی فرق ہے۔ حیوان کو بھی دل عطا ہوتا ہے لیکن صرف خون کو پمپ کرنے کے لیے، لیکن انسان کا دل صرف اسی مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فہم، تفہیم، تأثر اور تاثیر جیسی مختلف قوتیں بھی رکھی ہیں۔ اگرچہ سائنسدان غور و فکر کی صلاحیتوں کا مرکز دماغ کو قرار دیتے ہیں لیکن تمام آسمانی کتابوں نے دل ہی کو انفعالی قوتوں کے مرکز کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب میڈیکل سائنس بھی کسی حد تک اسے تسلیم کرنے لگی ہے۔ یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ یوں تو ان میں بہت سی قوتیں اللہ تعالیٰ نے حیوانوں کو بھی عطا کی ہیں لیکن انسانوں اور حیوانوں میں فرق یہ ہے کہ حیوان صرف ان صلاحیتوں سے جسم اور نفس کے مطالبات پورے کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے سامنے جسمانی ضرورتوں اور حاجتوں کے سوا اور کسی چیز کا تصور نہیں ہوتا، لیکن انسان ان ہی قوتوں کے ذریعے اگر چاہے تو اور بھی بہت ساری چیزوں کا علم حاصل کرسکتا ہے۔ یہاں اسی حوالے سے سب سے بنیادی بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ حیوان میں اس بات کا شعور نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر بھی ادا کیا جاتا ہے۔ لیکن انسان کو ہر نعمت پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ انسان کے اچھا اور برا ہونے کی ایک ہی شناخت ہے کہ وہ شاکر ہے یا کفور۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستے پر چلنے والا انسان ہے لیکن اگر وہ شکر کی بجائے کفرانِ نعمت کرتا ہے تو یہ کفر کا راستہ ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ انسان کو جو شکر کا پابند ٹھہرایا گیا ہے تو شکر کیا چیز ہے۔ شکر کے لیے دو باتیں بہت ضروری ہیں۔ پہلی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ جن نعمتوں سے وہ متمتع ہورہا ہے چاہے ان کا تعلق جسم و جان سے ہو، مال و دولت سے ہو، دوسرے انسانوں سے ہو، زمین و آسمان سے ہو یا فضاء اور موسم سے ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ انھیں پیدا کرنے میں نہ اسے کوئی دخل حاصل ہے نہ کسی اور کو۔ اور ان نعمتوں پر اس کا کوئی ذاتی استحقاق بھی نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت کا ایک مقصد رکھا ہے۔ نعمت کا شکر یہ ہے کہ انسان اس نعمت کو اس مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرے اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے متمتع ہوتے ہوئے زبان سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور اعضاء وجوارح سے وہ کام لے جس سے وہ مقصد حاصل ہوسکے جس کے لیے نعمت عطا کی گئی ہے اور دل میں ہمیشہ احسان مندی کے جذبات موجزن رہیں۔ ان تصورات کو سامنے رکھتے ہوئے اس آیت کریمہ کے الفاظ پر غور کیجیے کہ تمہیں کان اس مقصد کے لیے عطا کیے گئے ہیں کہ تم ان سے وہ نصیحت سنو جو اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ تمہارے سامنے پیش کررہے ہیں اور تم اپنی آنکھوں سے آفاق وانفس میں پھیلی ہوئی وہ نشانیاں دیکھو جو تمہیں حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں اور دل تمہیں اس لیے عطا کیے گئے ہیں تاکہ ان سے ان انشانیوں کو دیکھ کر وہ نتائج اخذ کرو جس سے تمہیں اس کائنات کی حقیقت کو جاننے اور اپنی زندگی کی غائت کو سمجھنے میں مدد مل سکے، لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ان نعمتوں سے جسم اور نفس کے مطالبات پورا کرنے کے ذرائع ہی تلاش کرتے رہو یعنی ان کانوں سے وہی بات سنو اور آنکھوں سے وہی چیز دیکھو جس سے اس فانی زندگی میں عزت و آرام حاصل ہوسکے اور اپنی فکری قوتوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے حقوق کو جاننے میں استعمال کرنے کی بجائے اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے نئے سے نئے مصارف اختیار کرنے میں صرف کرو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے اپنے آپ کو انسان کی بجائے ایک حیوان سمجھا اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے تم نے انھیں جسم و نفس کے مطالبات پورا کرنے کے ذرائع سے زیادہ اہمیت نہیں دی، تو سوچ لو کہ تم میں اور ایک حیوان میں کیا فرق ہے ؟
Top