Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 77
حَتّٰۤى اِذَا فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیْدٍ اِذَا هُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ۠   ۧ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا : جب فَتَحْنَا : ہم نے کھول دئیے عَلَيْهِمْ : ان پر بَابًا : دروازے ذَا عَذَابٍ : عذاب والا شَدِيْدٍ : سخت اِذَا هُمْ : تو اس وقت وہ فِيْهِ : اس میں مُبْلِسُوْنَ : مایوس ہوئے
یہاں تک کہ جب ہم ان پر ایک سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تو یکایک تم دیکھو گے کہ وہ اس میں بالکل مایوس ہو کر رہ جائیں گے
حَتّٰیٓ اِذَا فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَابًا ذَاعَذَابٍ شَدِیْدٍ اِذَا ھُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ ۔ (المومنون : 77) (یہاں تک کہ جب ہم ان پر ایک سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تو یکایک تم دیکھو گے کہ وہ اس میں بالکل مایوس ہو کر رہ جائیں گے۔ ) مشرکین کی بےبسی گزشتہ دو آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ قریش اور دیگر اہل مکہ اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ نہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ان میں شکر کے جذبات پیدا کرتی ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی مصیبتیں ان کے دلوں میں گداز پیدا کرتی ہیں۔ وہ بظاہر انسان ہیں لیکن حقیقت میں لکڑی کے کندے ہیں جو ہر طرح کے جذباتِ خیر سے تہی دامن ہوچکے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کا انذار جس میں بار بار انھیں عذاب کی دھمکی دی گئی ہے بالکل اثرانداز نہیں ہورہا بلکہ وہ ایسی ہر بات کو قہق ہوں میں اڑا دیتے ہیں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ دیکھنے والا ان لوگوں کو دیکھ کر یہ گمان کرتا ہے کہ بڑی سے بڑی گرفت بھی انھیں راہ راست پر نہیں لاسکتی کیونکہ ان کے مضبوط اعصاب میں کسی طرح کی لچک دکھائی نہیں دیتی، لیکن انھیں اس بات کا احساس نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر قوم کو ایک خاص حد تک مہلت عمل دیتا ہے۔ وہ بگاڑ میں آگے بڑھتی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی تدبیر ان کے ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے۔ جب وہ لمحہ آجاتا ہے، جب مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوجاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں عذابٍ شدید سے وہی عذاب مراد ہے جو مہلت عمل ختم ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں پر نازل ہوتا ہے۔ اگر ان پر وہ عذاب نازل ہوگیا جیسا کہ ان کے کرتوتوں سے اس کے خدشات پیدا ہوتے جارہے ہیں تو پھر تم دیکھو گے کہ آج جو لوگ بڑی ہیکڑی دکھا رہے ہیں اس عذاب کا سامنے کرتے ہی مایوسی کی تصویر بن جائیں گے۔ ان کے تمام سہارے اور تمام امیدیں یک قلم ختم ہوجائیں گی۔ ابلاس : حیرت اور مایوسی کے مجموعے کو کہتے ہیں۔ بعض دفعہ یہی مایوسی برافروختگی تک پہنچ جاتی ہے، اس وقت انسان ایسا حواس باختہ ہوتا ہے کہ اسے اپنی نجات کے سارے راستے مسدود نظر آنے لگتے ہیں۔ امامِ قرطبی مبلسون کا مفہوم واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ای یائسون متحیرون لایدرون مایصنعون۔
Top