Ruh-ul-Quran - Faatir : 36
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ١ۚ لَا یُقْضٰى عَلَیْهِمْ فَیَمُوْتُوْا وَ لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِیْ كُلَّ كَفُوْرٍۚ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا انہوں نے لَهُمْ : ان کے لیے نَارُ جَهَنَّمَ ۚ : جہنم کی آگ لَا يُقْضٰى : نہ قضا آئے گی عَلَيْهِمْ : ان پر فَيَمُوْتُوْا : کہ وہ مرجائیں وَلَا يُخَفَّفُ : اور نہ ہلکا کیا جائے گا عَنْهُمْ : ان سے مِّنْ : سے۔ کچھ عَذَابِهَا ۭ : اس کا عذاب كَذٰلِكَ : اسی طرح نَجْزِيْ : ہم سزا دیتے ہیں كُلَّ كَفُوْرٍ : ہر ناشکرے
اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان کی قضا ہی آئے گی جو مرجائیں اور نہ ان کے لیے جہنم کے عذاب میں کمی کی جائے گی، اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہر اس شخص کو جو کفر کرنے والا ہے
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ نَارُجَھَنَّمَ ج لاَ یُقْضٰی عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلاَ یُخَفَّفُ عَنْھُمْ مِّنْ عَذَابِھَا ط کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْرٍ ۔ وَھُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْھَا ج رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَالَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ ط اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّایَتَذَکَّرُفِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآئَ کُمُ النَّذِیْرُ ط فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ۔ (فاطر : 36، 37) (اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان کی قضا ہی آئے گی جو مرجائیں اور نہ ان کے لیے جہنم کے عذاب میں کمی کی جائے گی، اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہر اس شخص کو جو کفر کرنے والا ہے۔ اور وہ اس میں واویلا کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں یہاں سے نکال دے، اب ہم نیک عمل کریں گے، ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے، کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا، اور تمہارے پاس ایک ڈرانے والا بھی آیا، پس اب مزہ چکھو، اور ظالموں کا کوئی مدد کرنے والا نہیں۔ ) کفار کا انجام اصحابِ ایمان بالخصوص اللہ تعالیٰ کے دین کے حاملین کا قابل فخر انجام بیان کرنے کے بعد کفار کا انجام بیان کیا جارہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے راہ راست اختیار کرنے کے تمام امکانات عطا فرمائے۔ غور و فکر اور صحیح فیصلہ کرنے کے اسباب فراہم کیے۔ باایں ہمہ انھوں نے حقیقت کا اتباع کرنے کی بجائے ہَوائے نفس اور شیطان کا اتباع کیا۔ اور وہ حقائق جن پر دلائلِ آفاق اور دلائلِ انفس اور خود انسان کی فطرت گواہی دے رہی ہے انھیں تسلیم کرنے کی بجائے انکار کی روش اختیار کی۔ اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے صحیح سبق حاصل کرنے کی بجائے کفر اور ناشکری کا راستہ اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کی پاداش میں جہنم کی آگ کی سزا دے گا۔ اور یہ سزا بھی چند روزہ نہیں بلکہ تا ابد ہوگی جس سے نہ نکلنے کی کوئی صورت ہوگی اور نہ عذاب کی شدت میں تخفیف کی جائے گی۔ عذاب سے نکلنے کی ایک صورت تو یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے، لیکن قرآن کریم میں اس کا صاف اعلان ہے کہ وہ کافر اور مشرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا، کیونکہ انھوں نے زندگی بھر اللہ تعالیٰ کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ کبھی اس کو ماننے سے انکار کیا اور کبھی اس کی صفات میں دوسروں کو شریک کیا۔ یہ دونوں جرم ایسے ہیں جو ناقابلِ معافی ہیں۔ البتہ عذاب سے نکلنے کی ایک اور صورت جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ عذاب میں مبتلا شخص کو موت آجائے۔ لیکن جہنم میں گرفتار بدنصیب اس سے بھی محروم رہیں گے۔ وہ چیخ چیخ کر موت مانگیں گے لیکن انھیں موت نہیں دی جائے گی، ان کی کھالیں جل کر جھڑ جائیں گی تو انھیں نئی کھالیں پہنا دی جائیں گی۔ آگ کی جلن انتہائی ہولناک ہونے کے باوجود موت تو دور کی بات ہے بےہوشی کا سبب بھی نہیں بن سکے گی۔ آدمی جب کسی انتہائی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ موت کی تمنا کرتا ہے جبکہ زندگی انسان کے لیے سب سے قیمتی انعام ہے۔ جو شخص اس سے جان چھڑانے کے درپے ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عذاب موت سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ ہے۔ اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ اس عذاب کی شدت کیا ہوگی۔ ٹھیک کہا غالب نے : منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے اللہ تعالیٰ کے عدل میں مساوات آیت کے آخر میں فرمایا کہ یہ ہولناک سزا کافروں کے کسی مخصوص گروہ کے لیے نہیں، اور نہ صرف ان کا حصہ ہے جو قومیں عذاب کا شکار ہوچکی ہیں بلکہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کو ماننے سے انکار کرتا اور اس کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے وہ اسی سزا کا مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا عدل سب کے ساتھ یکساں سلوک کرے گا۔ قریش اس کو گزشتہ لوگوں کی کہانی یا کوئی قصہ ٔ پارینہ نہ سمجھیں بلکہ انھیں یقین رکھنا چاہیے کہ اگر انھوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو انھیں بھی ایسے ہی عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جہنم میں کفار کی درخواست دوسری آیت میں بتایا گیا ہے کہ کفار جہنم کے عذاب سے بےبس ہو کر چیخیں گے اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ ہم سے بہت بڑی خطا ہوئی، ہم دنیا میں صحیح فیصلہ نہ کرپائے۔ ہمیں ایک اور موقع عطا فرمایا جائے۔ دوبارہ دنیا میں بھیج کر مہلت عمل دی جائے۔ ہم اس نئی زندگی میں پہلی زندگی سے بالکل مختلف اعمال کریں گے۔ پہلے ہم نے ہَوائے نفس کا اتباع کیا اور شیطان کے پیچھے چلے۔ اب ہم وہی زندگی اختیار کریں گے جس کی طرف اللہ تعالیٰ کے رسول بلاتے رہے۔ ہم زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رسول کی اطاعت میں گزاریں گے۔ ان کی اس فریاد کے جواب میں پروردگار جھڑک کر فرمائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں اس سے پہلے ایسی طویل زندگی نہیں دی تھی جس میں اگر تم چاہتے تو صحیح زندگی گزار سکتے تھے۔ تمہیں اتنا طویل موقع سوچنے سمجھنے کے لیے دیا جس میں ایک صحیح فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ ایک خبردار کرنے والا رسول بھی بھیجا جس نے زندگی کا ہر دکھ اٹھا کر تمہاری خیرخواہی کا حق ادا کیا اور قدم قدم پر تمہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ لیکن تم نے نہ مہلت عمر سے فائدہ اٹھایا اور نہ رسول کے انذار سے کوئی سبق سیکھا۔ ہم نے تمہیں مہلت عمل دے کر بندگی کا موقع بھی دیا اور رسول بھیج کر اتمامِ حجت بھی کیا۔ اس کے بعد تو کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا۔ تم ہر امکان کو مسترد کرچکے ہو۔ اب اس کی سزا یہی ہے کہ تم اس عذاب کا مزہ چکھو۔ اس آیت سے اشارتاً یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ شعور یا پختگی کی عمر کو پہنچنے سے پہلے موت کا شکار ہوگئے ان کے ساتھ معاملہ یقینا نرمی کا کیا جائے گا۔ لیکن جنھوں نے شعور کی عمر پائی جسے بلوغ کی عمر کہا جاسکتا ہے ان کے ساتھ معاملہ انصاف کے مطابق ہوگا۔ اور جس شخص نے طویل عمر گزاری اور اسے راہ راست پر آنے کے لیے متعدد مواقع ملے اس کی بازپرس یقینا دوسروں سے شدید تر ہوگی۔ اسی لیے احادیث میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی جو شخص فسق و فجور کا ارتکاب کرتا ہے اس کے لیے سخت وعید آئی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
Top