Ruh-ul-Quran - Yaseen : 83
اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَمْرُهٗٓ : اس کا کام اِذَآ : جب اَرَادَ شَيْئًا : وہ ارادہ کرے کسی شے کا اَنْ : کہ يَّقُوْلَ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتی ہے
بلاشبہ اس کا معاملہ بس یہ ہے کہ جب وہ کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اسے حکم دیتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہوجاتی ہے
اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَٓا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّـقُوْلَ لَـہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ۔ (یٰسٓ: 82) (بلاشبہ اس کا معاملہ بس یہ ہے کہ جب وہ کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اسے حکم دیتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہوجاتی ہے۔ ) مخالفین کی ایک غلط فہمی کا ازالہ قیامت کو مشرکین کے بعیدازعقل سمجھنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہورہا تھا کہ اتنی وسیع کائنات کا اچانک ٹوٹ جانا اور پھر ازسرنو وجود میں آجانا اور پھر ہر شخص کو نئی زندگی کا مل جانا اور سب کا محشر میں پہنچ کر اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینا، یہ کیسے ممکن ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی اور اتنے وسائل کی فراہمی کیسے ممکن ہے۔ چناچہ ان کی کوتاہ فکری کا رد کرتے ہوئے پروردگار ارشاد فرما رہا ہے کہ قیامت کا برپا کرنا ہو یا کوئی اس سے بھی بڑا کام، اللہ تعالیٰ کو اس کے لیے کوئی تیاری نہیں کرنا پڑتی۔ مشرکین چونکہ اس کی قدرتوں اور اس کی صفات کو اپنے امکانات اور اپنی صلاحیتوں پر قیاس کرتے ہیں اس لیے ان کو دشواری پیش آرہی ہے جبکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ اسے وقوع پذیر ہوجانے کا حکم دیتا ہے۔ اسے اس کے لیے نہ کہیں سرمایہ فراہم کرنا پڑتا ہے نہ مٹیریل ڈھونڈنا پڑتا ہے نہ اس کے لیے کسی خاص اہتمام کی ضرورت پڑتی ہے۔ بس وہ ایک حکم دیتا ہے اور ہر چیز حکم کے مطابق وجود میں آجاتی ہے یا اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی قدرت اور قوت کا نام اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کا حکم اور اس کی تعمیل کی حقیقت کیا ہے، اس کا تعلق سراسر اللہ تعالیٰ کے علم سے ہے۔ ہمارے سامنے اس کے مظاہر ہیں کہ زمین اور آسمان اور ان میں بیشمار کُرّے اور بیشمار مخلوقات اور پھر ان کی زندگی، بقا کے امکانات اور ہر مخلوق کی زندگی کے لیے اسباب کی فراہمی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آرہا ہے اور ہم اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے ہر چیز کے وجود اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے درمیان جو نقطہ اتصال ہے اس سے ہم بیخبر ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے وسیع علم کا حصہ ہے۔ اور چونکہ قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ متشابہات میں داخل ہے۔
Top