Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 41
اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَؕ
اَمْ : یا عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ : ان کے پاس غیب ہے فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ : تو وہ لکھ رہے ہیں
کیا ان کے پاس علم غیب ہے۔ پس وہ خود ہی لکھ لیتے ہیں۔
(ام عندھم الغیب فیھم یکتبون) (41) یعنی تم سے اور تمہاری پیش کردہ ہدایت سے یہ اس قدر بیزار ہیں تو کیا ان کے پاس غیب کے خون جان لینے کا کوئی ذریعہ موجود ہے جس سے وہ تمام ضروری باتیں معلوم کر کے لکھ لیتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کا کوئی ذریعہ ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ ایسی حالت میں حق تو یہ تھا کہ وہ تمہاری پکار پر لپکنے کہ تم اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعہ سے ان کو اس کے احکام اور اس کی مرضیات سے آگاہ کرنے کے لیے اٹھے ہو۔ لیکن وہ تم سے تو بیزار ہیں۔ خود اپنے جی سے انہوں نے شریعت گھڑ رکھی ہے جو ہے تو ان کی من مانی خواہشات اور ان کے اوہام کا مجموعہ لیکن اس کو انہوں نے اللہ کا اتارا ہوا دین سمجھ رکھا ہے۔ ان کی اسی طرح کی خواہشات و بدعات کی طرف سورة نجم آیت 35 میں یوں ارشاد فرمایا ہے (اعندہ علم الغیب فھو یری) (کیا اس کے پاس علم غیب ہے، پس وہ دیکھ رہا ہے) اس آیت میں اشارہ ان لوگوں کی طرف سے جو باعتبار ایمان و عمل تو بالکل صفر تھے لیکن ان کا زعم یہ تھا کہ وہ بزرگوں کی اولاد ہیں اس وجہ سے ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے بڑے درجے ملیں گے۔ اپنے اس پندار کے سبب سے وہ پیغمبر ﷺ کے انداز کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ یہ ہمیں عذاب سے ڈراتے ہیں حالانکہ بہت جلد گردش روزگار خود انہیں ختم کردینے والی ہے اور ہم اس کے منتظر ہی ہیں۔
Top