Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 121
وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌ١ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْ١ۚ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
وَلَا تَاْكُلُوْا : اور نہ کھاؤ مِمَّا : اس سے جو لَمْ يُذْكَرِ : نہیں لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِسْقٌ : البتہ گناہ وَاِنَّ : اور بیشک الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) لَيُوْحُوْنَ : ڈالتے ہیں اِلٰٓي : طرف (میں) اَوْلِيٰٓئِهِمْ : اپنے دوست لِيُجَادِلُوْكُمْ : تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں وَاِنْ : اور اگر اَطَعْتُمُوْهُمْ : تم نے ان کا کہا مانا اِنَّكُمْ : تو بیشک لَمُشْرِكُوْنَ : مشرک ہوگے
اور تم نہ کھائوان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو بیشک یہ نافرمانی ہے اور شیاطین القاء کر رہے ہیں اپنے ایجنٹوں کو تاکہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہا مانو گے تم بھی مشرک ہوجائو گے
ارشاد فرمایا : وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسقٌط وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰیٓ اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُم ج وَاِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ ۔ (الانعام : 121) (اور تم نہ کھائوان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو بیشک یہ نافرمانی ہے اور شیاطین القاء کر رہے ہیں اپنے ایجنٹوں کو تاکہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہا مانو گے تو تم بھی مشرک ہوجاؤ گے) جن پر اللہ کا نام نہیں لیا جاتا ان کو نہ کھائو ‘ ورنہ مشرک ہوجاؤ گے گزشتہ آیات میں ان چیزوں کے کھانے کا حکم دیا گیا تھا جن کو انھوں نے اپنے شرکیہ عقائد کے تحت حرام قرار دے رکھا تھا لیکن اللہ نے انھیں حلال قرار دیا اور یہ فرمایا کہ اگر انھیں اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو تم انھیں شوق سے کھائو۔ وہ اللہ کی نعمتیں ہیں جن سے تمہیں ہر طرح فائدہ اٹھانے کا حق ہے اب اس آیت میں اہل عرب کے عقیدے کی رو سے ان مباح چیزوں کے کھانے کی ممانعت فرما دی جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ پہلے مشرکین عرب کی اس گمراہی پر تنقید فرمائی کہ تم نے بعض جانور جو اپنے شرکیہ عقائد کے تحت حرام کرلیے ہیں تمہیں آخر ان کو حرام کرنے کا کیا حق ہے اور اب ان کی اس گمراہی پر توجہ دلائی جا رہی ہے کہ جتنے حلال اور مباح جانور ہیں ان کی جان لینا اور انھیں ذبح کر کے کھانا یہ کسی کا بھی اپنا اختیار نہیں یہ اختیار صرف اس کا ہے جس نے انھیں جان عطا کی ہے تم اپنے بتوں کا نام لے کر یا بغیر کسی کا نام لیے اپنے مرضی سے ان کی گردن کاٹ دیتے ہو تو آخر تمہیں ان کی جان لینے کا حق کس نے دیا ان کا گوشت صرف اسی صورت میں حلال ہوسکتا ہے کہ ان کی جان لیتے ہوئے اس کا نام لیاجائے جو ان کا خالق ہے اور اگر اس کا نام نہ لیا جائے تو پھر وہ حلال اور مباح جانور بھی حرام ہوجائے گا۔ چناچہ جب قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی تو وہ لوگ جو پہلے ہی اس بات پر برافروختہ تھے کہ اس نبی نے ہمارے عقائد کے مطابق جو حرام جانور تھے ان کو حلال کردیا ہے اور اب وہ مزید سیخ پا ہوئے یہ سن کر کہ جن پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اس کا کھانا حرام ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک ہمارے آبائو اجداد جو اللہ کے نام کے بغیر جانور ذبح کرتے رہے اور کھاتے رہے کیا وہ سب حرام خور تھے اور آج ہم بھی حرام خوری کر رہے ہیں یقینا اس پروپیگنڈے نے شدت اختیار کی ہوگی اور مسلمانوں کی مخالفت میں اس کی وجہ سے مزید تیزی آئی ہوگی۔ چناچہ اہل کتاب نے جب یہ دیکھا کہ آگ دہک اٹھی ہے تو انھوں نے اس میں مزید ایندھن ڈالا اور مشرکینِ مکہ کو یہ پٹی پڑھائی کہ تم مسلمانوں سے یہ کہو کہ تم عجیب لوگ ہو جس کو اللہ مارتا ہے یعنی وہ طبعی موت مرتا ہے جس کو مردار کہتے ہیں اسے تو تم حرام کہتے ہو لیکن جس کو تم خود مارتے ہو یعنی ذبح کرتے ہو چاہے اللہ کا نام لے کر ہی سہی اسے حلال کہتے ہو۔ یہ کیا بےعقلی کی بات ہے اس طرح ایک طرف سے عقل کے نام پر مسلمانوں پر بےعقلی کا الزام لگایا جا رہا تھا اور دوسری طرف آبائو اجداد کے حوالے سے جذبات میں آگ لگائی جا رہی تھی۔ اس صورت حال میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ لوگ کس طرح آنحضرت اور مسلمانوں کے ساتھ الجھتے بھی ہوں گے اور مذاق بھی اڑاتے ہوں گے۔ چناچہ اس پوری صورتحال کی منظر کشی کرتے ہوئے قرآن کریم نے کہا کہ ان کے بڑے بڑے اشرار اور ان کے سرغنے وہ اس مخالفت میں ایک دوسرے کو مہمیز بھی کر رہے ہیں اور استعمال بھی اور ایسی صورت حال میں اس پروپیگنڈے اور مخالفت کے طوفان سے کمزور مسلمانوں کا متاثر ہوجانا خلاف توقع نہیں۔ اس لیے صاف فرمایا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ چونکہ بہت اصولی ہے اور عقیدہ توحید سے اس کا گہرا تعلق ہے اس لیے اگر تم نے ان کی بات مانی تو جس طرح وہ مشرک ہیں تم بھی مشرک ہوجاؤ گے کیونکہ ان کا رویہ کھلی کھلی اللہ کی نافرمانی ہے اور نافرمانی کو تو کسی طرح برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ مندرجہ بالا بحث کو دیکھتے ہوئے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی جانور کے ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اس قدر ضروری کیوں قرار دیا گیا ہے کہ اس کے بغیر اس کا کھانا ہی حرام ہو آخر اس میں کیا حکمت ہے ؟ حقیقت میں اس کے اندر کیسی کیسی حکمتیں پوشیدہ ہیں یہ تو اللہ ہی بہترجانتا ہے لیکن غور و فکر کے بعد بہت ساری حکمتیں ذہنی افق پر ابھرتی ہیں جن میں سے ہم چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔ 1 بالکل سامنے کی بات ہے کہ جس طرح ہم اپنے اندر جان رکھتے ہیں اور اس سرمائے کو اس حد تک عزیز رکھتے ہیں کہ حتی المقدور اس پر آنچ نہیں آنے دیتے اس کو بچانے کے لیے بڑے سے بڑے خطرے سے لڑ جاتے ہیں اور اگر کوئی ظالمانہ طریقے سے کسی بھی انسان کی جان لیتا ہے تو انسانی تہذیب اس پر چیخ اٹھتی ہے اور اسے انسانیت کا دشمن اور ظالم قرار دیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہر جاندار اور ہر ذی روح اپنی روح اور جان کو عزیز سمجھتا ہے اور اس کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور اگر اسے بولنے یا لکھنے کا موقع ملے تو وہ بھی احترامِ جان پر نجانے کیا کچھ کہے اور لکھے اور کبھی اس بات کی اجازت نہ دے کہ کوئی شخص بھی اس کی جان لینے کا روادار ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہر جاندار کی جان ہماری ہی طرح قابل احترام ہے تو پھر ہم اپنی مرضی سے کسی کی جان کیسے لے سکتے ہیں اور کسی بھی جانور کی جان لینا ہمارے لیے کس طرح جائز ہوسکتا ہے جاندارخود اجازت دے نہیں سکتا کیونکہ وہ بول نہیں سکتا اور اگر وہ بول بھی سکتا تو تب بھی اس کی اجازت بےمعنی ہوتی کیونکہ وہ خود اپنی جان کا مالک نہیں بلکہ یہ تو کسی بڑی ذات کا عطیہ ہے البتہ اس کی جان لینے کی اجازت صرف ایک ہی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جس نے یہ امانت اس کے سپرد کی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ جس نے یہ جان پیدا کی ہے اور جو اس جاندار کا خالق ہے وہ اگر اجازت دے تو تب تو اس کا جان لینا جائز ہوسکتا ہے ورنہ اس کے علاوہ کوئی اور دوسری صورت ممکن نہیں۔ تو اس کی اجازت دینے کی یہی ایک صورت ہے کہ جن جانوروں کو اس نے حلال قرار دیا ہے یعنی ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ہے ہم ان کی جان لیتے ہوئے اس کا نام لیں گویا یہ ایک طرح کا اعلان ہوگا کہ ہم اپنی مرضی سے اس کی جان نہیں لے رہے بلکہ جو اس کا خالق ہے اس کا نام لے کر اس کی اجازت سے اور اس کے دیئے ہوئے حق کو ہم استعمال کرتے ہوئے اس کی جان لے رہے ہیں۔ اس طرح اللہ کے خالق ومالک ہونے پر یقین اور پختہ ہوجائے گا اور اس کی کبریائی کو دل و دماغ میں مستحکم ہونے کا راستہ ملے گا۔ -2 کسی بھی منعم کی عطا کردہ نعمت کا حقیقی شکر یہ ہے کہ اس کی نعمت کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کا احساس بھی کیا جائے اور اعلان بھی کہ فلاں منعم نے یہ نعمت مجھے عطا کی ہے۔ یہ ایک طرح سے اس کے منعم ہونے کا اعتراف بھی ہوتا ہے اور اس اعتراف سے جس پر نعمت کی گئی ہے اس کے دل و دماغ میں اپنے منعم کے لیے جذباتِ عقیدت میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کی ہر نعمت اللہ نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے ضروری ہے کہ دنیا کے عام قاعدے کے مطابق اپنے منعم کے احسانات کا اعتراف ہو تاکہ دل و دماغ میں اس کے لیے جذبات عقیدت و محبت پیدا ہوں اور اس کی دھرتی پر رہنے والوں کو پتہ چلے کہ اس دھرتی پر احسانات کرنے والی ذات اور انعامات دینے والا منعم حقیقت میں کون ہے اور اگر نعمتوں کو استعمال تو کیا جائے لیکن اللہ جیسے منعم حقیقی کا نام لینا بھی پسند نہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی بھی جانور یا کسی نعمت کا تصرف کرنے والا شخص حقیقی تصرف نہیں کر رہا بلکہ وہ ظالمانہ اور غاصبانہ تصرف کر رہا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ غصب سے کوئی حق قائم نہیں ہوتا بلکہ یہ جسارت اور بےجا جرأت ہے جو اللہ کے یہاں سزا کا باعث بنے گی کیونکہ دنیا و آخرت میں کسی بھی غاصب کو غصب کرنے کی وجہ سے سزا سے چھوڑا نہیں جائے گا۔ -3 آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کام بھی اللہ کا نام لیے بغیر کیا جائے وہ بےبرکت ہوتا ہے برکت کا مطلب یہ ہے کہ اس میں حقیقی اضافہ نہیں ہوتا ‘ اس کا فیض جاری ہونے سے رک جاتا ہے۔ اس کے جو حقیقی مقاصد ہیں وہ کبھی بروئے کار نہیں آتے بلکہ بعض دفعہ اس کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ بجائے برکت کے اس میں بےبرکتی پیدا ہوتی ہے اور کام کرنے والی کی سیرت و کردار پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اصول اگر عام معاملات میں ہے تو کسی جانور کی جان لینا تو اپنے اندر اس سے کہیں بڑھ کر نزاکت رکھتا ہے اس نزاکت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں حد درجہ احتیاط برتی جائے اسی احتیاط کا پہلا سبق یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کا کوئی کام کرو ‘ خاص طور پر کسی جانور کو ذبح کرو تو اللہ کا نام لے کر کرو تاکہ تمہاری زندگیوں میں خالق اور مخلوق کے درمیان جو رشتہ ہونا چاہیے اس کا صحیح احساس پیدا ہو اور منعم اور منعم علیہ کے درمیان جو جذبات عقیدت و محبت پیدا ہونے چاہئیں وہ پیدا ہوں اور اس کے نتیجے میں سیرت و کردار کی تعمیر میں مدد ملے۔ -4 اس سے شرک کا ایک بہت وسیع دروازہ بھی بند ہوجاتا ہے۔ ادیان کی تاریخ پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ جانوروں کی قربانی ان کی نذر اور ان کے چڑھاوے کو ابتدائے تاریخ سے عبادات میں بڑی اہمیت حاصل رہی ہے اس اہمیت کے سبب سے مشرکانہ مذاہب میں بھی اس کو بڑا فروغ حاصل ہوا جو قوم بھی کسی غیر اللہ کی عقیدت و نیاز مندی میں مبتلا ہوئی اس نے مختلف شکلوں سے غیر اللہ کو راضی کرنے کے لیے جانوروں کی بھینٹ چڑھائی۔ قرآن میں شیطان کی جو دھمکی انسانوں کو گمراہ کرنے کے باب میں مذکور ہوئی ہے اس میں بھی اس ذریعہ ضلالت کا شیطان نے خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اسلام میں شرک کے ان تمام راستوں کو بند کردینے کے لیے جانوروں کی جانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام کا قفل لگا دیا گیا ہے۔ جس کو خدا کے نام کی کنجی کے سوا کسی اور کنجی سے کھولنا حرام قرار دے دیا گیا۔ اگر اس کنجی کے بغیر کسی اور کنجی سے اس کو کھولنے یا اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو یہ کام بھی ناجائز اور جس جانور پر یہ ناجائز تصرف ہوا وہ جانور بھی حرام۔ -5 اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں صرف یہی چیز ناجائز نہیں ہے کہ کسی جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے بلکہ یہ بھی ناجائز ہے کہ کسی جانور کو اللہ کا نام لیے بغیر ہی ذبح کردیا جائے اس سے مستثنیٰ صرف وہ صورت ہوسکتی ہے جس میں بھول چوک کا دخل ہو اور یہ بھول چوک بھی معاف صرف اہل ایمان کے لیے ہے اس لیے کہ ان کے دل اور ارادے میں اللہ کا ایمان اور اس کا نام موجود ہوتا ہے صرف کسی وقتی غفلت سے اس کے اظہار میں سہو ہوسکتا ہے۔ ہم مسلسل ان آیات کے بین السطور میں یہ محسوس کر رہے ہیں کہ یہ آیتیں مکی زندگی کے اس دور میں نازل ہوئی ہیں جبکہ مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان کشمکش اپنے عروج پر تھی اور مشرکینِ مکہ مسلانوں کو ہراساں کرنے اور ان کو اس نئے دین سے پھیرنے کے لیے تمام امکانی حربے استعمال کر رہے تھے۔ نئے نئے سوالات اور مطالبے بھی کیے جا رہے تھے ‘ اذیت میں تیزی پیدا کی جا رہی تھی ‘ کمزور مسلمانوں کو بری طرح ادھیڑا کھدیڑا جا رہا تھا ‘ استہزا اور تمسخر کا نشانہ بھی بنایا جا رہا تھا ایسی صورت حال میں معنوی تربیت اور دل و دماغ کی آبیاری کے لیے دلائل کی بارش بھی ہو رہی ہے۔ مناسب احکام بھی دیئے جا رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ طبیعتوں کو حوصلہ دینے کے لیے تسلی بھی دی جا رہی ہے اور حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے۔ چناچہ اگلی چند آیات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے ان کی اصل حیثیت کا احساس دلا کر ان کے حوصلوں کو بلند کیا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ تسلی کا مضمون بھی نازل کیا جا رہا ہے۔
Top