Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 37
وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ
وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ : اور ابراہیم جس نے وَفّيٰٓ : وفا کی
اور ابراہیم کے (صحیفوں میں) جس نے وفاکا حق ادا کر دیا
ابراہیم کے صحیفوں میں یہ بات اسی طرح موجود تھی جو صاحب وفا تھا 37 ؎ جو تعلیم محمد رسول اللہ ﷺ نے دی یہ کوئی نئی تعلیم نہ تھی بلکہ یہ تو وہی پرانی تعلیم ہے جس کا درس موسیٰ (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) اپنے اپنے دور میں دے چکے ہیں اور جس طرح یہ تعلیم قرآن کریم میں موجود ہے اسی طرح پہلی کتابوں تورات اور صحائف ابراہیم میں بھی موجود تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے صحائف کے متعلق تو اوپر ذکر کردیا گیا کہ وہ تورات کی صورت میں آج بھی موجود ہے اگرچہ اس میں تحریف ہوچکی ہے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کے صحائف کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں ؟ کیا اس تورات کے اندر وہ بھی داخل ہیں یا ان کی اصل دنیا میں موجود ہی نہیں رہی ؟ بہرحال قران کریم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات اور خصوصاً توحید کے باب میں تو بہت کچھ ہی بیان کیا ہے لیکن آپ کے صحائف کا نام ایک بار سورت میں اس جگہ اور دوسری بار سورة الاعلیٰ میں بطور ذکر بیان کیا ہے لیکن آج دنیا میں ان کی اصل یا ان کا ترجمہ کسی صورت میں بھی موجود نہیں پایا گیا۔ اس لئے جو کچھ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ہم اسی پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں اور سوائے صحائف ابراہیم کے نام کے کچھ نہیں کہہ سکتے اور رسمی طور پر یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہر نبی و رسول کی بنیادی تعلیم صرف اور صرف ایک ہی جیسی تھی۔ اصولوں میں کبھی بھی کسی کی تعلیم میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر اس جگہ (الذی وفی) کی صفت کے الفاظ کے ساتھ ہوا ہے یعنی وہ جس نے اپنے پروردگار کی احکام کی تعمیل کا حق ادا کردیا اور جس نے اپنے رب کریم کا ہر عہد پورا کیا۔ خیال رہے کہ سارے نبیوں اور رسولوں نے اپنے رب کے احکام کو پورا کیا اور کسی نے بھی احکام ماننے میں ذرا برابر کوتاہی نہی کی۔ اس طرح سارے نبی و رسول ہی سچے اور صادق الوعد تھے کسی نبی و رسول نے بھی کذب بیانی سے کام نہیں لیا لیکن اس کے باوجود کسی نبی و رسول کے لئے کوئی وجہ امتیاز ہوئی اور کسی کے لئے کوئی اور اس طرح سمجھ میں آتا ہے کہ یہ علم الٰہی کا مسئلہ ہے کہ جس نبی و رسول پر جو اتہام بعد میں کسی زمانہ پر لگایا جانے والا تھا اس نبی و رسول کے متعلق اس کی نفی لازماً کردی گئی مثلاً ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے تذکرہ کو لے لیجئے۔ آپ (علیہ السلام) کے بارے میں مخصوص طور پر ذکر کیا گیا کہ (انہ کان صدیقا نبیا) کہ ” بلاشبہ وہ ایک سچا نبی تھا “ اور آپ (علیہ السلام) کی سچائی کی صفت کو کیوں اجاگر کیا گیا ؟ اس لئے کہ بعد میں آنے والوں نے آپ کے متعلق تین جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرنا تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی سچائی کا آپ پر الزام لگائے جانے سے پہلے ہی اعلان کردیا کہ وہ ایک سچا نبی تھا۔ اس لئے اس کا مفہوم یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ کوئی نبی و رسول ایسا بھی ہو سکتا تھا جو سچا نہ ہوتا۔ اس طرح اس جگہ آپ کی صفت (ولی) کو اجاگر کردیا گیا اور اس کی وضاحت ہم نے غزوہ الوثقی جلد اول سورة البقرۃ کی آیت 124 میں کردی ہے جہاں بیان کیا گیا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش اللہ تعالیٰ نے کی تو وہ آزمائش میں پورا اترا اس کے بعد اس بنیادی تعلیم کا ذکر بھی کردیا کہ وہ کیا ہے۔
Top