Bayan-ul-Quran - Al-Israa : 35
وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ١ۙ۬ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَهْۚ
وَاَمَّا : اور رہا مَنْ اُوْتِيَ : وہ جو کوئی دیا گیا كِتٰبَهٗ : کتاب اپنی بِشِمَالِهٖ : اپنے بائیں ہاتھ میں فَيَقُوْلُ : تو وہ کہے گا يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش کہ میں لَمْ اُوْتَ : نہ دیا جاتا كِتٰبِيَهْ : اپنا نامہ اعمال۔ اپنی کتاب
اور رہا وہ شخص جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا، کاش میرا اعمال نامہ مجھے دیا ہی نہ گیا ہوتا
وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیْ کِتٰـبَہٗ بِشِمَالِـہٖ 5 لا فَیَقُوْلُ یٰـلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰـبِیَـہْ ۔ وَلَمْ اَدْرِمَا حِسَابِیَہْ ۔ یٰـلَیْتَھَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ ۔ (الحآقۃ : 25 تا 27) (اور رہا وہ شخص جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا، کاش میرا اعمال نامہ مجھے دیا ہی نہ گیا ہوتا۔ اور مجھے خبر ہی نہ ہوتی کہ کیا ہے میرا حساب۔ اے کاش ! وہی موت فیصلہ کن ہوئی ہوتی۔ ) اصحابُ الشمال کا حال اس سے پہلے ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جن کے اعمال نامے ان کے دہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے۔ اب ان لوگوں کا حال بیان ہورہا ہے جن کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ سورة انشقاق میں فرمایا گیا ہے ” کہ بعض لوگوں کے اعمال نامے ان کی پشت کے پیچھے پکڑائے جائیں گے۔ “ دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی مجرم کو اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو اسے اندازہ ہوجائے گا کہ اس کے نامہ اعمال میں کیا ہے۔ تو وہ بددلی سے نامہ عمل پکڑ تو لے گا لیکن اسے پیٹھ پیچھے چھپالے گا تاکہ لوگ اسے دیکھ نہ پائیں کیونکہ قیامت کے دن جس شخص کے بھی بائیں ہاتھ میں نامہ عمل ہوگا دیکھنے والے جان لیں گے کہ یہ شخص اپنے جرائم کی پاداش میں پکڑا گیا ہے اور یہ ایک برا شخص تھا، اسی وجہ سے اسے بائیں ہاتھ میں نامہ عمل دیا گیا ہے۔ تو وہ اپنا اعمال نامہ دیکھتے ہی اپنا سر پیٹ لے گا اور واویلا کرتے ہوئے کہے گا، کاش مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا گیا ہوتا اور مجھے معلوم ہی نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ بیخبر ی بھی آدمی کو کسی حد تک تسکین دیتی ہے اور ممکن ہے اس کا یہ مطلب ہو کہ اگر مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا تو لوگوں کے سامنے میری رسوائی نہ ہوتی اور مجھے بھی خبر نہ ہوتی کہ میں کس قدر جرائم کا ارتکاب کرچکا ہوں۔ اپنے انجام کی ہولناکی کا تصور کرتے ہوئے وہ کہے گا کہ کاش جو موت مجھے آئی تھی وہ فیصلہ کن ہوگئی ہوتی۔ یعنی یہ دوبارہ زندگی ہمیں نہ دی جاتی اور نہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔ تیسری آیت میں ضمیر کا مرجع موت ہے جو اگرچہ الفاظ میں موجود نہیں لیکن قرینہ موجود ہونے کے وقت مرجع کے بغیر ضمیر لانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا اور یہاں قرینہ واضح ہے۔
Top